پاکستان کو مالی ’’ سلامی ‘‘ چاہیے
کروڑوں روپے سلامی وصول کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے حوالے سے ایک بیورو کریٹ کی بیٹی کی شادی پر تقریباً پون ارب روپے بطور سلامی ملنے کا جو ذکر کیا تھا۔
اس کی کوئی تردید اس لیے نہیں کی گئی کہ بڑے لوگوں کو ان کے بچوں کی شادی پر واقعی کروڑوں روپے بطور سلامی اور قیمتی تحائف ملتے رہے ہیں اور ان لوگوں کے لیے اتنی بڑی سلامی ملنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ معمول ہے۔
کروڑوں روپے سلامی وصول کرنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت بڑے آدمی ہیں اس لیے ان کی اولادوں کی شادیاں بھی نہایت دھوم دھام بلکہ شاہانہ طور پر کرانے پر خرچہ بھی کروڑوں روپے آتا ہے۔
کسی بڑے میدان یا وی وی آئی پیز ہوٹلوں ، شادی ہالز میں منعقدہ شادیوں میں آنے والے بڑے لوگوں کے شایان شان بہترین کھانوں کا بھی اہتمام کرنا پڑتا ہے جس پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
ان بڑے لوگوں کے بچوں کی شادیاں بھی سادگی سے نہیں ہوتیں بلکہ دھوم دھام اور شاہانہ طور پر کی جاتی ہیں کیونکہ سادگی کی باتیں انھیں زیب دیتی ہیں نہ وہ سادہ لوگ ہیں بلکہ اسی معاشرے میں رہنے والے اہم اور ممتاز لوگ ہیں۔
جن کے بچوں کی شادیوں کا انتظار رہتا ہے تاکہ وہ صاحب بہادر کی خدمت کرسکیں اور شادی پر بڑی رقم اور قیمتی تحائف دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرسکیں کیونکہ قیمتی تحفہ اور بڑی سلامی دے کر ہی وہ صاحب کی نظروں میں بڑا مقام حاصل اور صاحب کو خوش کرسکتے ہیں۔ بڑے لوگ اپنے بچوں کی شادیوں میں اپنے قریبی عزیزوں کے علاوہ بڑے لوگوں کو بھی بلاتے ہیں، عام لوگوں کا وہاں کیا کام؟
بڑے لوگوں کے گھروں کے اخراجات بھی ان کے ماتحت ہی برداشت کرتے ہیں ، اس لیے انھیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ گھر کی کون سی چیزیں کس دام آ رہی ہیں اور انھیں واقعی آٹے دال کا بھاؤ ہی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ان کی جیب سے کچھ جاتا نہیں ، ان کا صرف اپنے ماتحتوں سے فرمائشیں کرنا ہی ہوتا ہے اور ان کے ماتحتوں کو بھی بدلے میں صاحب سے مفادات، ترقی، اپنے بچوں و عزیزوں کے لیے ملازمتیں لینا ہوتی ہیں۔ مبینہ طور پر مشہور ہے کہ اہم بیورو کریٹس اور اعلیٰ پولیس افسروں کے گھریلو اخراجات ان کے ماتحت افسران برداشت کرتے ہیں۔
وزیروں کے دورے، ان کے استقبال انھیں کھلانے پلانے اور تحفے دینے کے لیے کوئی سرکاری فنڈ مختص نہیں ہوتا اس لیے ریونیو افسران جن میں علاقے کا تحصیل دار اور مختار کار اور پولیس افسران اپنے ماتحتوں کے ذریعے کراتے ہیں اور یہ سب اخراجات وہ رشوت سے ملنے والی رقم سے کرتے ہیں۔
ملک کی موجودہ بدترین معاشی صورت حال ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے اور عمران خان موجودہ حکومت کو اور حکومت عمران خان کو اس کا ذمے دار قرار دیتے نہیں تھک رہے اور دونوں یا کسی ایک کی وجہ سے موجودہ معاشی صورت حال میں مہنگائی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔
سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ اکیلا کراچی ملک کو اس صورت حال سے نکال سکتا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر مشورے دیے جا رہے ہیں کہ ملک میں عیاشیاں ترک کرکے سادگی اختیار کی جائے اور سرکاری حکام کو حاصل مراعات ختم کرکے انھیں مہنگی گاڑیوں سے اتارا جائے وہ اپنے گھروں کے یوٹیلیٹی بلز خود ادا کریں۔ ان کی شاہانہ سرکاری مراعات ختم کرکے سادگی اختیار کرنے سے ہی معاشی صورت حال بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
حکومت کی شاہ خرچیاں بھی کم نہیں اور بڑے لوگوں کے اخراجات بھی شاہانہ ہیں اس لیے ضروری ہے کہ حکومت، اعلیٰ افسران کی مراعات ختم اور بڑے لوگوں کی شاہانہ شادیوں پر پابندی لگائی جائے اور انھیں بھی عام لوگوں کی طرح شادیاں سادگی سے کرنے، کم مہمان بلانے اور ون ڈش پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے کیونکہ ملک کو اس وقت مالی سلامیوں کی ضرورت ہے۔
حکمران اشرافیہ اپنی جمع دولت سے ملک کو سلامی دیں تو موجودہ بدترین معاشی صورت حال اور قرضے نہ لینے کی پالیسی حالات بہتر کرسکتی ہے۔