ہم کہاں کھڑے ہیں
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بعض دیگر ممالک ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں
ذرا گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ چین ہی کی مثال لے لیں جہاں بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی تھی اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اِس ملک کا کیا بنے گا ؟ چینی لوگ نشہ کے عادی تھے اور دنیا اِنہیں افیونی کہتی تھی۔
اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ملک کبھی دنیا کی تیسری بڑی قوت بن جائے گا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ چین نے ہمارے بہت بعد اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک اور مثال بھارت کی ہے جس نے ہمارے ساتھ ہی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
تیسری مثال جنوبی کوریا کی ہے جو ہم سے پیچھے تھا اور تو اور بنگلہ دیش جو 1971میں پاکستان سے علیحدہ ہوکر آزاد ہوا تھا لیکن اب معاشی ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ ایک اور مثال ویتنام کی ہے جس کی امریکا نے اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی لیکن جو ترقی کی شاہراہ پر زقندیں بھر رہا ہے۔
اب ذرا وطنِ عزیز پاکستان کو دیکھیں تو غالب کا یہ شعر نوکِ زبان پر آجاتا ہے:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
دنیا کے ممالک ترقی کی راہ پر تیز قدمی کے ساتھ گامزن ہیں جب کہ ہم پھسڈی کے پھسڈی ہیں۔ قدرت نے ہمیں بے تحاشہ وسائل اور بے اندازہ معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے لیکن ہم ہیں کہ ذلت کا چولا پہنے ہوئے اور بھیک کا پیالہ ہاتھوں میں لیے ہوئے در در کی خاک چھانتے ہوئے پھر رہے ہیں۔
یہ بات نہیں کہ ہمارے عوام نالائق اور کام چور ہیں خدا نخواستہ اگر ایسا ہوتا تو پھر کوئی غم نہ ہوتا۔ ہمارے ناخواندہ محنت کَش مزدور خلیجی ریاستوں میں تپتی ہوئی دھوپ میں سارا دن مشقت کر کے اپنی ہمت اور قوت کا لوہا منوا رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ہمارے انجنیئر اور ڈاکٹر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خدمات انجام دے کر اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔
مزید برآں ہمارے فنکار اور کھلاڑی بیرونِ پاکستان اپنی دھاک بٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پستی کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اِس کا سیدھا سادہ سبب یہ ہے کہ ہمیں مخلص قیادت میسر نہیں آسکی اور ہمارے مالی وسائل پر سرمایہ دار طبقہ نے قبضہ کیا ہوا ہے جو جونکوں کی طرح ہمارا خون نچوڑ رہا ہے۔
کسی زمانہ میں بائیس خاندانوں کی پورے ملک پر اجارہ داری تھی اور اب بڑھتے بڑھتے یہ تعداد پچاس یا اُس سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
قوم جب تک اِن قابضین کے چُنگل سے آزاد نہیں ہوگی اُس وقت تک ہمارے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لُٹیرے متحد ہیں جب کہ ملک کے عوام منتشر ہیں اور وہ لسانی ، علاقائی اور فرقہ وارانہ جیسے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ اِس ظالم اشرافیہ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔
گزشتہ تین سے چار عشروں کے دوران دنیا نے دیکھا ہے کہ چین نے غیر معمولی ترقی کی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ایک کم آمدن والے ملک سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔چین کی تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئے معاشی ماہرین کا خیال یہ ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اِس کا جی ڈی پی امریکا کے جی ڈی پی کے لگ بھگ پہنچ جائے گا۔
اِسی طرح بھارت کی مثال ہے کہ جب 1947میں اُس نے آزادی حاصل کی تھی تو اُس وقت اُس کا جی ڈی پی 2.7 لاکھ کروڑ ڈالرز تھا جو2021 میں بڑھ کر 3.17 ٹریلین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔
بھارت معاشی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر پہنچ چکا ہے اور امکان ہے کہ جرمنی سے بھی آگے نکل جائے گا۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھارتی معیشت بڑھ کر 2 ہندسوں تک پہنچ چکی ہے۔
بھارت کی معیشت کا شمار اس وقت سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اِس کے سب سے آگے ہونے کی وجہ اِس کی کشادہ منڈی ہے جس کا دو تہائی حصہ گھریلو مانگ میں مضمر ہے۔
پچھلے سال بھارت کا براہِ راست غیر ملکی سرمایہ سب سے زیادہ تھا جو بین الاقوامی برادری کے بھارتی معاشی ترقی پر پورے اعتماد اور پُرکشش ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
بھارت کا سب سے بڑا اثاثہ اُس کی پڑھی لکھی نسل ہے جو دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ دوسری قابلِ ذکر بات بھارتی جمہوریت کا تسلسل ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چین کی ترقی سے خائف امریکا اور مغرب بھارت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بھارت کی حکومتیں روس کے ساتھ بھی اپنے روایتی تعلقات بحال رکھنے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ گویا :
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
یہی وجہ ہے یوکرین کے موقع پر بھارتی حکومت نے اقوامِ متحدہ میں روس کے خلاف جانے سے گریز کیا۔ چین کے ساتھ بھارت کا تنازعہ وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہتا ہے لیکن اُس کے باوجود بھارت اُسے اِس طرح سنبھالتا ہے کہ یہ اُس کی اقتصادی ترقی میں حائل نہ ہو۔
چانکیہ نیتی کا تقاضہ یہی ہے ، چناچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کسی نہ کسی طرح برقرار ہیں۔
چین کی زبردست ترقی نے اُسے دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی قوت بنا دیا ہے۔ یہ کچھ کم عجیب بات نہیں ہے کہ چین اپنی غربت کی بیڑیاں توڑ کر کیسے کامیاب ہوا ہے۔
جنوبی کوریا ترقی کی ایک اور مثال ہے جو چند عشروں میں ترقی کرتے کرتے دنیا کی بڑی بڑی قوتوں میں شامل ہوگیا اور دنیا کی عظیم قوتوں میں دسویں نمبر پر ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بعض دیگر ممالک ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں اور حال یہ ہے کہ ہمارے بائیس کروڑ عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔