ایٹمی جنگ کا خطرہ
ایٹمی اسلحے کی نئی دوڑ جنوبی ایشیاء اور بر صغیر کے ممالک میں بھی پھیل رہی ہے
چند دن قبل کی ایک اخباری خبر۔''روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکا کے ساتھ اسلحہ کنٹرول معاہدہ معطل کرنے کے قانون پر دستخط کر دیے۔
گزشتہ ہفتے روسی صدر نے کہا تھا کہ روس یوکرین کی جنگ میں بڑھتی مداخلت پر امریکا کے ساتھ ایٹمی اسلحے کی تخفیف کے بارے میں (Strategic Arms ReductionTalks)New "START"معاہدہ معطل کر رہاہے۔
یہ معاہدہ 2010میں طے پایا تھا 'جس میں 2021میں مزید پانچ سال کی توسیع کی گئی تھی 'معاہدے کا مقصد امریکا اور روس کے زیر استعمال ایٹمی ہتھیاروں کو کنٹرول اور کم کرنا ہے۔
یہ بہت افسوس ناک خبر ہے۔تخفیف اسلحے کی تاریخ کافی پرانی ہے'یہ معاہدے ایک لمبی عالمی امن تحریک اور طویل مذاکرات کے نتیجے میں ہوئے تھے 'لگتا ہے کہ امریکا ایک بار پھر دنیا کو ایٹمی جنگ میں دھکیل کر اپنی بالا دستی ثابت کرنا چاہتی ہے۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے اب دنیا Unipolarنہیں رہی بلکہ یہ ایک Multipolar دنیا ہے 'امریکا اس حقیقت کو جتنی جلدی تسلیم کرلے 'اس کے لیے اور دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔ اب تخفیف اسلحہ تحریک کا ایک مختصرجائزہ ۔
امریکی صدر ریگن کا خیال تھا کہ روس کے ساتھ محدود ایٹمی جنگ جیتی جا سکتی ہے 'اس نظریے کی سائنسدانوں اور امن کی عالمی تحریکوں نے سخت مخالفت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت موجود دنیا کے ستر ہزار ایٹمی ہتھیاروں میں سے اگر صرف سو ہتھیار بھی استعمال کیے جائیںتو ان کے دھماکوںکے نتیجے میںکاربن کے ذرات اور دھویںکے بادلوں کی اتنی بڑی اور موٹی تہہ پیدا ہوکر زمین پر چھا جائے گی کہ جس کی وجہ سے کئی سال تک سورج کی شعائیں زمین تک نہ پہنچ سکیں گی۔
دنیا ایک لمبے عرصے تک ''ایٹمی جاڑے'' (Nuclear winter)کے زیر اثر آجائے گی 'خوراک کی پیداوار اور جنگلات ختم ہوجائیںگے' ماحولیاتی تباہی ہوگی اور ہر طرف بھوک کا راج ہوگا'1980کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں(سوشلسٹ کیمپ اور سامراجی کیمپ) کے درمیان ایٹمی 'کیمیائی اور نامیاتی اسلحے کی دوڑ نے دنیا کے امن پسند حلقوں کو چونکا دیا'اس طرح عالمی تخفیف اسلحہ اور امن کی تحریک شروع ہوئی۔
عالمی امن تحریک کے نتیجے میں ہی صدر ریگن نے محدود ایٹمی جنگ کا نظریہ چھوڑ کر سوویت یونین کے ساتھ تخفیف اسلحہ کے سنجیدہ مذاکرات شروع کیے 'ان مذاکرات کے نتیجے میںIntermediate Nuclear Forces Treaty 1987 ) پر دستخط کیے گئے۔
یہ دنیا کا واحد معاہدہ تھا جس کی رو سے ایٹمی اسلحے کا ایک بڑا حصہ تلف کرنے پر اتفاق کیا گیا'اس معاہدے کی رو سے 500 کلومیٹر سے لے کر 5500کلومیٹر تک مار کرنے والے تقریباً 2700میزائل اور ان کے وار ہیڈز کو تلف کرنا تھا'اس طرح عالمی امن تحریک دنیا کو ایک خطرناک ایٹمی جنگ کے دہانے سے واپس لانے میں کامیاب ہوگئی۔
صدر رونالڈ ریگن کا ایک اور نظریہ بھی متنازعہ رہا'اس کے مطابق اگر امریکا بیلسٹک میزائل ڈیفنس (BMD) سسٹم تیا کر لے تو وہ دشمن کے ایٹمی حملے سے اپنا بچاؤ کرسکتا ہے۔
اس پروگرام کے مطابق سیاروں' ریڈاروںاور کیمروں کی مدد سے ایک نظام قائم کرکے دشمن کی طرف سے داغے جانے والے ایٹمی میزائلوں کا وقت سے پہلے پتہ لگا کر ان کو فضا میں تباہ کرنا تھا'اس پروگرام کو ''اسٹار وار''(star war)پروگرام کہا جاتا ہے۔
جب صدر بش کی حکومت آئی تو اس نے مئی 2001میں اعلان کیا کہ وہ دوبارہ ''اسٹا وار ''پروگرام شروع کر رہا ہے'2002میں امریکا نے روس کے ساتھ 1972میںکیے گئے تخفیف اسلحہ کے معاہدے (ABM) سے لا تعلقی کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد صدر بش نے ایٹمی میزائلوں کی تنصیب کے لیے قائم ایجنسیMDA (missile defence agency)کو اسٹار وار پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لیے مکمل اختیار ات دے دیے۔اس پروگرام میں طاقتور لیزر(laser) اورسریع الحرکت (kinetic energy)والے میزائل بنانا بھی شامل تھے۔
اس اقدام سے سرد جنگ والی ایٹمی اسلحے کی دوڑ دوبارہ شروع ہونے کا امکان تھا'امریکا کے نئے میزائل پروگرام سے نئی بین الاقوامی مخاصمتیں جنم لے رہی تھیں 'میزائل ڈیفنس ایجنسی(MDA) نے 26ارب ڈالر کے خرچ سے میزائلوں کو نشانہ بنانے والے دو اڈے الاسکا اور کیلیفورنیا میں قائم کیے 'امریکا اسٹار وار پروگرام (BMD) کو جلد مکمل کرنا چاہتا تھا 'اس مقصد کے لیے اس نے 250 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا۔
اس سلسلے میں وہ جاپان کی مدد سے جنوب مشرقی ایشیاء میں بھی ایک بیس بھی بنانا چاہتا تھا 'امریکا نے مشرقی یورپ میں اسٹار وار میزائل نصب کرنے کے پروگرام کا اعلان کیا'یہ میزائل روس کی پڑوس میںان ممالک میں نصب کیے جا نے تھے 'جو وارسا پیکٹ (Warsaw Pact)کے خاتمے کے بعد ناٹو (NATO)میں شامل ہوگئے تھے۔
اس کا پروگرام تھا کہ ریڈار سسٹم وہ چیک ریپبلک میں نصب کرے اور دشمن کے میزائل روکنے والے دس میزائلوں کا ایک اڈہ پولینڈ میں قائم کرے' واشنگٹن کا کہنا تھا کہ یہ اڈہ وہ ایران جیسے ملکوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے قائم کر رہا تھا ۔
زیادتی یہ ہے کہ خود ہر قسم کا ایٹمی اسلحہ بنانے والا امریکا ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک میں پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول برداشت نہیں کر رہا' آخر کب تک دنیا میں اس کی دھونس چلے گی؟' سوشلسٹ کیمپ کے خاتمے کے بعد اس کا دنیا پر بالا دستی کا شوق جنون میں تبدیل ہو گیا۔
ایٹمی اسلحے کی نئی دوڑ جنوبی ایشیاء اور بر صغیر کے ممالک میں بھی پھیل رہی ہے' جو اس خطے کو مزید عدم استحکام اور غربت کی دلدل میں دھکیلنے کا باعث بنے گا۔اوباما'پیوٹن اور بائیڈن انتظامیہ بھی ایٹمی اسلحے کو ختم یا کم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی'بلکہ بائیڈن نے یوکرین میں مداخلت کرکے اسلحے کی دوڑ کو مزید تیز کردیا ہے 'اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔تخفیف اسلحہ کی کہانی جاری ہے۔