عورتیں احساسات سے عاری کٹھ پتلیاں نہیں
قدرت نے عورت کو نازک اندام انسان کا روپ اس لیے دیا کہ اس کے ساتھ نرم روی اختیار کی جائے
قدرت نے عورت کو کانچ سے زیادہ نازک احساسات کے پیکر میں ڈھالا اور نزاکت کا پہلو اس کے وجود میں رچا بسا دیا، گویا اس کی حساسیت کو نقطۂ عروج پر رکھنا مقصود تھا۔ اسی لیے ازل سے اس کے وجود پر صنف نازک کی مہر لگی ہوئی ہے۔ مگر اب وہ ماٹی کی گڑیا نہیں جو ٹھیس لگنے سے ریزہ ریزہ ہوجائے یا پھر کسی آبگینے کی صورت ہلکی سی ضرب پڑنے سے کرچی کرچی ہوجائے۔
قدرت نے اسے نازک اندام انسان کا روپ اس لیے دیا کہ اس کے ساتھ نرم روی اختیار کی جائے لیکن سماج زوال پذیری کے نا ختم ہوتے سفر پر چل پڑا۔ دنیا کے ناخدا عورت کی نزاکت کو کمزوری سمجھ بیٹھے۔ مال مویشیوں کی طرح اسے اپنی ملکیت گردانتے رہے۔ اسے صرف اپنی گھناؤنی خواہشوں کے روپ میں دیکھنے لگے۔ اسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے، جیسے وہ فقط دل بہلانے والا کھلونا ہے یا پھر نسلوں کو بڑھانے کا آلہ ہے۔ وہ احساسات سے عاری ربورٹ کی مانند ہے جس کا ریموٹ کنٹرول خدائی دعوے داروں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اسے جب چاہیں جیسے چاہیں برتیں، ناروا سلوک کریں۔ بٹن دبانے پر روبوٹ آنکھیں موند لے، آنکھیں کھول دے اور ان کے ہاتھ کی جنبش پر روبوٹ ناچنا شروع کردے۔ عورت مار پیٹ، گالم گلوچ اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک پرچپ سادھے رہے۔ ہر قسم کے ظلم و جبر پر لب نہ کھولے، نام نہاد آقاؤں کے اشاروں پر فوراً حکم بجا لانے والی کٹھ پتلی بنی رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔ ماٹی یا پھر کانچ کی گڑیا جبرِ مسلسل کے خلاف اظہار کرنے لگی۔ اس نے سسکنا، منہ بسورنا اور رونا شروع کردیا۔ پھر ظلم و زیادتی کے خلاف بولنے بھی لگی اور بالآخر شدت پسندی کی انتہا کو پہنچ کر زہر اگلنے لگی۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہمارے چاروں طرف ایک عجب شور سا کیوں بپا ہے؟ اگر ماحول سازگار، موافق اور پرسکون ہو تو انسان کو بلاوجہ چیخنے چلانے اور چنگھاڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن جب یہ احساس ذہن پر غالب آجائے کہ بحیثیت عورت میں دوسرے درجے کی انسان ہوں، میرا شمار اقلیت میں ہوتا ہے، میں کم عقل ہوں، میرا حلق دبایا جاتا ہے۔ میری سوچ پر پہرے ہیں۔ میرے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور عورت دشمن سماج مجھے سرے سے انسان ہی نہیں سمجھتا۔ مجھ پر جبراً جنگل کا قانون لاگو ہے۔ تو یقیناً ہر ذی ہوش انسان چیخنا شروع کردے گا۔ عورت بھی جیتی جاگتی انسان ہے۔ اس کا دل بھی دھڑکتا ہے۔ عورت میں دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے تو پھر وہ درد کی شدت سے کراہتی کیوں رہے؟ گھٹ گھٹ کر کیوں جیے؟ وہ غیر منصفانہ سلوک پر آہ و بکا کیوں نہ کرے؟ وہ عورت مخالف قوانین اور بھیانک رسم و رواج پر واویلا کیوں نہ مچائے؟ وہ آخر کب تک ظلم و جبر سہتی رہے؟
آج کی عورت باشعور ہے۔ وہ جانتی ہے کہ خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھا جائے گا۔ اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی پر آواز اٹھانا اس کا بنیادی حق ہے۔ اسے مظلومیت کا لبادہ اتار پھینکنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ہمت و حوصلے کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کرنا، ظالم کے خلاف ڈٹ جانا اور جیتنا سیکھے۔
ہار ایک واہمہ ہے، جو عورت کی ہمت اور استقامت سے خوف زدہ عناصر اس کے ذہن میں ٹھونس دیتے ہیں۔ حالاں کہ عورت جرأت و بہادری سے ہر محاذ پر لڑ سکتی ہے اور جیت بھی سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ وہ اپنی جرأت مندانہ صلاحیتوں کو پہچانے اور سماج کی جانب سے اپنے چہرے پر ثبت مظلومیت کا اسٹیمپ نوچ پھینکے۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد عورت آج اس مقام پر پہنچی ہے کہ اب اس کی آواز پر دھیان دیا جاتا ہے۔ یقین جانیے ظلم وجبر کے خلاف اٹھنے والی یہ آوازیں اور عملی اقدامات آنے والی صدی کی عورتوں کےلیے منزل کی نوید ثابت ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک صدی پہلے والی خواتین کی تحریک نے ہمیں اپنے حقوق کے بارے میں شعور بخشا اور یہاں تک پہنچایا۔ آئیے ہم اور آپ اپنے حقوق کو صحیح معنوں میں پہچانیں اور اپنے حصے کے چند قدم ضرور اٹھائیں تاکہ ہمیں اور آپ کو یہ احساس رہے کہ آنے والی صدیوں میں خواتین کے مساویانہ حقوق کی جنگ کو جتوانے میں ہم سب کا حصہ بھی شامل رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قدرت نے اسے نازک اندام انسان کا روپ اس لیے دیا کہ اس کے ساتھ نرم روی اختیار کی جائے لیکن سماج زوال پذیری کے نا ختم ہوتے سفر پر چل پڑا۔ دنیا کے ناخدا عورت کی نزاکت کو کمزوری سمجھ بیٹھے۔ مال مویشیوں کی طرح اسے اپنی ملکیت گردانتے رہے۔ اسے صرف اپنی گھناؤنی خواہشوں کے روپ میں دیکھنے لگے۔ اسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے رہے، جیسے وہ فقط دل بہلانے والا کھلونا ہے یا پھر نسلوں کو بڑھانے کا آلہ ہے۔ وہ احساسات سے عاری ربورٹ کی مانند ہے جس کا ریموٹ کنٹرول خدائی دعوے داروں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اسے جب چاہیں جیسے چاہیں برتیں، ناروا سلوک کریں۔ بٹن دبانے پر روبوٹ آنکھیں موند لے، آنکھیں کھول دے اور ان کے ہاتھ کی جنبش پر روبوٹ ناچنا شروع کردے۔ عورت مار پیٹ، گالم گلوچ اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک پرچپ سادھے رہے۔ ہر قسم کے ظلم و جبر پر لب نہ کھولے، نام نہاد آقاؤں کے اشاروں پر فوراً حکم بجا لانے والی کٹھ پتلی بنی رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔ ماٹی یا پھر کانچ کی گڑیا جبرِ مسلسل کے خلاف اظہار کرنے لگی۔ اس نے سسکنا، منہ بسورنا اور رونا شروع کردیا۔ پھر ظلم و زیادتی کے خلاف بولنے بھی لگی اور بالآخر شدت پسندی کی انتہا کو پہنچ کر زہر اگلنے لگی۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہمارے چاروں طرف ایک عجب شور سا کیوں بپا ہے؟ اگر ماحول سازگار، موافق اور پرسکون ہو تو انسان کو بلاوجہ چیخنے چلانے اور چنگھاڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن جب یہ احساس ذہن پر غالب آجائے کہ بحیثیت عورت میں دوسرے درجے کی انسان ہوں، میرا شمار اقلیت میں ہوتا ہے، میں کم عقل ہوں، میرا حلق دبایا جاتا ہے۔ میری سوچ پر پہرے ہیں۔ میرے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور عورت دشمن سماج مجھے سرے سے انسان ہی نہیں سمجھتا۔ مجھ پر جبراً جنگل کا قانون لاگو ہے۔ تو یقیناً ہر ذی ہوش انسان چیخنا شروع کردے گا۔ عورت بھی جیتی جاگتی انسان ہے۔ اس کا دل بھی دھڑکتا ہے۔ عورت میں دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے تو پھر وہ درد کی شدت سے کراہتی کیوں رہے؟ گھٹ گھٹ کر کیوں جیے؟ وہ غیر منصفانہ سلوک پر آہ و بکا کیوں نہ کرے؟ وہ عورت مخالف قوانین اور بھیانک رسم و رواج پر واویلا کیوں نہ مچائے؟ وہ آخر کب تک ظلم و جبر سہتی رہے؟
آج کی عورت باشعور ہے۔ وہ جانتی ہے کہ خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھا جائے گا۔ اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی پر آواز اٹھانا اس کا بنیادی حق ہے۔ اسے مظلومیت کا لبادہ اتار پھینکنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ہمت و حوصلے کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کرنا، ظالم کے خلاف ڈٹ جانا اور جیتنا سیکھے۔
ہار ایک واہمہ ہے، جو عورت کی ہمت اور استقامت سے خوف زدہ عناصر اس کے ذہن میں ٹھونس دیتے ہیں۔ حالاں کہ عورت جرأت و بہادری سے ہر محاذ پر لڑ سکتی ہے اور جیت بھی سکتی ہے۔ بشرط یہ کہ وہ اپنی جرأت مندانہ صلاحیتوں کو پہچانے اور سماج کی جانب سے اپنے چہرے پر ثبت مظلومیت کا اسٹیمپ نوچ پھینکے۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد عورت آج اس مقام پر پہنچی ہے کہ اب اس کی آواز پر دھیان دیا جاتا ہے۔ یقین جانیے ظلم وجبر کے خلاف اٹھنے والی یہ آوازیں اور عملی اقدامات آنے والی صدی کی عورتوں کےلیے منزل کی نوید ثابت ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک صدی پہلے والی خواتین کی تحریک نے ہمیں اپنے حقوق کے بارے میں شعور بخشا اور یہاں تک پہنچایا۔ آئیے ہم اور آپ اپنے حقوق کو صحیح معنوں میں پہچانیں اور اپنے حصے کے چند قدم ضرور اٹھائیں تاکہ ہمیں اور آپ کو یہ احساس رہے کہ آنے والی صدیوں میں خواتین کے مساویانہ حقوق کی جنگ کو جتوانے میں ہم سب کا حصہ بھی شامل رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔