بگ تھری کا لالی پاپ چھوڑ کر مسائل پر توجہ دی جائے
راشد لطیف کے آنے سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوتا مگر انھوں نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی۔۔۔
KARACHI:
''رمیز راجہ غدار ہے، اسے بھارت سے پیسے ملتے ہیں تب ہی ایسی باتیںکرتا ہے'' سابق پاکستانی کپتان نے جب بگ تھری کی حمایت کر کے پی سی بی کو اپنا حصہ وصول کرنے کی تجویز دی تو انھیں اس قسم کے بے تحاشا منفی تبصروں کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت ہر کوئی بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے منصوبے کی مخالفت کرتا پھر رہا تھا، میڈیا تو ویسے ہی ہوا کے رخ پر چلتا ہے، لہذا رمیز جیسے لوگ ولن اور حب الوطنی کے نام پر اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے ہیرو قرار پائے، ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر سابق کرکٹرز اور بورڈ آفیشلز نے بھی بگ تھری کی خوب دھجیاں اڑائیں، خود نجم سیٹھی نے بھی اپنے پروگرام میں سابق پی سی بی حکام سے رائے لے کر اس منصوبے کوغلط قرار دیا۔
ایسے میں جب ذکا اشرف نے آئی سی سی میٹنگ میں اس تجویز پر ووٹ نہیں دیا تو اچانک ہوا کا رخ پھر تبدیل ہو گیا، لوگ ان سے اپنا ذاتی حساب چکتا کرنے کیلیے باتیں کرنے لگے کہ پاکستان اکیلا رہ گیا، حکومت کو تو بہانہ چاہیے تھا اسی بات کو جواز بناکر ذکا اشرف کی چھٹی اور نجم سیٹھی کی تقرری کر دی، انھوں نے ٹریک تبدیل کر کے بگ تھری کی حمایت کا عندیہ دینا شروع کر دیا،اس وقت تک جنوبی افریقہ،بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی فوائد حاصل کر کے بھارت کی گود میں جا بیٹھے تھے لہذا وہ بھی بُرے قرار پائے، اب بچا پاکستان تو یہ باتیں ہونے لگیں کہ وہ اکیلا رہ جائے گا کوئی اس کے ساتھ نہیں کھیلے گا،لہذا حالیہ میٹنگ بھی پی سی بی بھی بگ تھری کے ساتھ جا ملا، یہ تو صورتحال کا خلاصہ تھا، اب اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو علم ہو گا کہ پاکستان ابتدا سے ہی اس پوزیشن میں نہ تھا کہ بگ تھری کی حمایت کر دیتا، چونکہ اس میں بھارت شامل ہے اس لیے فوراً پی سی بی پر ملک دشمنی کا لیبل لگ جاتا، ہم گھر اور سینمائوں میں روز بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں، گاڑیوں میں ان کے گانے چلاتے ہیں۔
ہمارے ٹی وی چینلز بھارتی ڈرامے اور فلمیں دکھا رہے ہیں، ایف ایم ریڈیو چینلز بھی 30روپے کی ایک ایم پی تھری سی ڈی لے کر 24گھنٹے بھارتی گانے چلاتے ہیں،ہمارے پسندیدہ ہیرو اور ہیروئین بھارتی ہیں، مگر ساتھ ہی بھارت کو اپنا دشمن بھی قرار دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، گذشتہ دنوں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران جب بنگلہ دیش جانا ہوا تو کسی نے بتایا کہ وہاں سینما میں بھارتی فلمیں نہیں لگتیں، وہاں کی حکومت بھارت نواز پھر بھی ایسا ہوتا ہے، ہمارا وہ ''دشمن'' ہے پھر بھی ہر نئی فلم یہاں بھی ساتھ ریلیز ہوتی ہے۔ گوکہ سابق چیئرمین اعتراف نہیں کرتے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ انھوں نے غداری کے الزام سے بچنے کیلیے بگ تھری کی مخالفت کی، انھیں پتا تھا کہ ٹی وی پر بیٹھے مبصرین ان پر لالچی ہونے کا الزام لگا کر کہتے کہ قومی وقار کا سودا کر دیا، اس وقت تو بھارت کئی سیریز کھیلنے کو تیار تھا، بگ تھری کو فور تک بنانے کا کہہ دیا تھا، مگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا، پھر جب اتنے دنوں تک خود کو اصول پرست ثابت کیا تو اب اس پر ثابت قدم رہنا چاہیے تھا۔
بگ تھری کی مخالفت کے بعد ایک بار میں نے انگلش اور آسٹریلوی بورڈ آفیشلز سے پوچھا تھا کہ ''کیا اب آپ لوگ پاکستان کے ساتھ نہیں کھیلیں گے'' دونوں کا یہی جواب تھا کہ '' ہم سابقہ فیوچر ٹور پروگرام'' کی تمام سیریز کمٹمنٹ پوری کریں گے''۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو کوئی انٹرنیشنل کرکٹ سے الگ نہیں کر سکتا، فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے 209 ممبرز ہیں لہذا اس کو جب کوئی بات گراں گذرے توکسی کی بھی رکنیت معطل کر دیتی ہے مگر کھیل کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کرکٹ میں ایسا نہیں آئی سی سی کے صرف 10مستقل ارکان ہیں، ان میں سے بھی زمبابوے اور بنگلہ دیش کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، پاکستان ایک ایسی ٹیم ہے جس کے دنیا بھر میں مداح موجود ہیں، انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ میں گرین شرٹس سے میچز کے دوران میں نے خود اسٹیڈیمز شائقین سے کھچا کھچ بھرے دیکھے، لہذا یہ کیسے اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔
البتہ بھارت تو ویسے بھی ہم سے نہیں کھیل رہا ہو سکتا ہے کہ تھوڑا غصہ دکھاتے ہوئے وہ مزید کچھ عرصے نہ کھیلتا، ایک بات طے ہے کہ دونوں ٹیموں کے میچز پی سی بی یا بی سی سی آئی طے نہیں کرتے، یہ فیصلے حکومتی سطح پر ہوتے ہیں، اب بھی حکومتیں آمادہ ہوں تو شیڈول میں فوراً جگہ نکال کر سیریز کا انعقاد ہو جائے، لہذا بورڈ حکام عالمی کرکٹ میں تنہا ہونے کا راگ الاپ کر عوام کو گمراہ نہ کریں،سابق چیئرمین وزیر اعظم سے ملاقات کیلیے کوشش کرتے رہ گئے مگر انھیں وقت نہ ملا، اسی لیے انھیں جو سمجھ آیا وہ فیصلہ کر دیا، حالانکہ اگر حمایت کرنا مقصود تھا تو ابتدا میں ہی کر کے زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے تھے، اب نجم سیٹھی نے جو فیصلہ کر دیا اس کے اثرات چند برسوں میں ہی سامنے آئیں گے، توقع کرنی چاہیے کہ پاکستان کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہمارے لیے سب سے بڑا معاملہ سونے میدانوں کو دوبارہ سے آباد کرنا ہے مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہو رہی، سچی بات ہے کہ ہمیں خود اپنی سیکیورٹی پر اعتماد نہیں، اس لیے کسی ٹیم سے کیا بات کریں،جب تک ملک میں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوتی
مالی معاملات کے ساتھ ٹیلنٹ میں بھی ہمیں مسائل پیش آئیں گے،اب چیئرمین پاکستان سپر لیگ کرانے کا اعلان کر چکے مگر سب سے بڑا مذاق بطور میزبان یو اے ای کا انتخاب ہے،پھر تو اس کا نام ہی امارات لیگ رکھنا چاہیے، سابق چیئرمین بھی اس پروجیکٹ پر کروڑوں روپے پھونک چکے، اب نجم سیٹھی بھی یہی کرنے جا رہے ہیں مگر یو اے ای میں بے تحاشا اخراجات کے سبب یہ لیگ سراسر گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہو گی۔ چیئرمین کو اس کے بجائے محدود پیمانے پر لاہور یا کسی اور شہر میں لیگ کرانی چاہیے، ایسے ہی اقدامات سے آہستہ آہستہ غیرملکی ٹیموں کا اعتماد واپس جیتا جا سکے گا۔
پاکستان کرکٹ کے معاملات ان دنوں افراتفری کا شکار نظر آ رہے ہیں، بورڈ نے محمد حفیظ سے استعفیٰ لے کر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی شکست کا عوامی غم و غصہ کم کرنے کی کوشش کی مگر تمام آفیشلز شان سے دندناتے پھر رہے ہیں، حفیظ کے بعد سب کو شاہد آفریدی کی صورت میں نیا ہدف مل گیا جسے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایئرپورٹ پر میڈیا نے سوال پوچھا کہ آپ کو بورڈ نے کپتان بنایا تو ذمہ داری قبول کر لیں گے تو آفریدی نے ہاں میں جواب دیا، اس میں کیا غلط بات تھی کہ وہ یہ کہتا کہ ''نہیں میں اس ٹیم کو نہیںسنبھال سکتا کوئی دوسرا ڈھونڈو'' اس پر پھر کھنچائی ہو جانی تھی، اسی طرح آفریدی نے کہاکہ ''بیٹسمینوں نے منفی اپروچ اپنائی'' یہ بھی کون سی غلط بات تھی، ساتویں اوور میں پہلی بائونڈری سے اس بات کی سچائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ہمیں تھوڑا حقیقت پسندانہ بننا چاہیے،آفریدی ہو یا کوئی اور پلیئر ایک دم سے اس کے پیچھے نہیں پڑیں،پلیئر بھی انسان ہیں اگر کوئی سچ بات کہہ جائیں تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، بورڈ نے بھی فوراً میڈیا کے دبائو میں آفریدی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اسی طرح راشد لطیف سے معاہدہ ہوئے بغیر ان کی تقرری کا اعلان کر کے بھی پی سی بی نے اپنے لیے خود مشکل پیدا کی، ان کے انکار سے دنیا بھر میں بورڈ کی سبکی ہوئی، پہلے تمام
معاملات طے کرتے پھر پریس ریلیز جاری کیا جاتا، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے،راشد لطیف کے آنے سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوتا مگر انھوں نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی،اس کی وہ کئی وجوہات آف دی ریکارڈ مجھے بتا چکے مگر تنازع میں پڑنا نہیں چاہتے اس لیے لکھنے سے منع کیا ہے، کسی دن ضرور قارئین کو ان سے آگاہ کروں گا۔ بورڈ نے حفیظ کے ساتھ بھی بہت غلط کیا، جس طرح بھارت نے یوراج سنگھ کی ایک خراب اننگز پر اس کے تمام کارنامے بھلا دیے، ایسا ہی ہم نے حفیظ کے ساتھ کیا جس پر وہ خاصے رنجیدہ ہیں، گذشتہ دنوں ایک مضمون میں جب میں نے اس حوالے سے نشاندہی کی کہ شکست کا سارا ملبہ صرف کپتان پر ڈالنا درست نہیں تو انھوں نے فون پر شکریہ ادا کیا، ان کے مطابق تمام تر کوشش کے باوجود ٹیم سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکی جس کا افسوس ہے، وہ چند ساتھی پلیئرز کے رویے سے بھی نالاں لگتے ہیں۔
پاکستان کو اب چیف سلیکٹر کے ساتھ کوچ کی بھی تلاش ہے، معین خان چیئرمین بورڈ کے خاصے قریب ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کیلیے نجم سیٹھی نے کوچنگ سیٹ اپ میں تبدیلی کا عندیہ دیا، چونکہ اب چند ماہ کوئی کرکٹ نہیں ہونی اس لیے وہ انتظار کر رہے ہیں، کچھ عرصے بعد دوبارہ معین کو ہی کوچ برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا جائے گا، ایک تجویز انھیں چیف سلیکٹر مقرر کر کے وقار یونس کو کوچ بنانے کی بھی ہے،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں پاکستانی کرکٹ چند چہروں کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔
چیئرمین پی سی بی ممکن ہے کہ آئندہ برس آئی سی سی کے بھی صدر بن جائیں جو یقیناً ان کیلیے بڑا اعزاز ہو گا مگر افسوس کہ اس عہدے کی کوئی قدر نہیں رہی، یہ علامتی بن چکا،صدر کو نہ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو گا نہ ہی میٹنگز کی صدارت کر سکے گا، بگ تھری نے حمایت کے عوض یہ بے کار سا تحفہ پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔
چیئرمین پی سی بی ابتدا ہی سے عامر کی سزا ختم کرانے کیلیے کوششیں کر رہے ہیں نجانے اس کی کیا وجہ ہے، کم عمری کی وجہ سے مجرموں کو چھوڑا نہیں جاتا اور وہ سزا پوری کرتے ہیں ،عامر نے جانتے بوجھتے ہوئے اسپاٹ فکسنگ کی اور اس سے مال بنایا، اس کے ساتھ بعض ایسے کام جو بڑوں کو بھی زیب نہیں دیتے وہ بھی اس ''بچے '' نے کیے، اب اسے کھیل میں واپس لا کر کیا ملے گا، ہر وقت کیمرے اسی پر مرکوز رہیں گے،نادانستہ غلطی پر بھی یہی سمجھا جائے گا کہ شائد پھر مال بنا لیا،سلمان بٹ،آصف اور دانش کنیریا جتنا ملک کی بدنامی کا باعث بنے اتنا ہی عامر بھی بنا ہے، اسے کھیل میں واپس لانے کی باتیں کرنے والے اچھی مثال قائم نہیں کر رہے، اگر ایسا ہوا تو ہر انڈر19لیول کا کرکٹر یہی سوچے گا کہ فکسنگ کر کے دولت کما لیتے ہیں بعد میں عامر کی طرح کم عمری کا جواز بنا کر جان چھڑا لیں گے۔
پیسر کے حمایتی افراد سے میں صرف یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا شخص جسے کسی بھی کیس بھی جیل کی سزا ہوئی ہو یا اس کا جرم ثابت ہو گیا ہو آپ اسے اپنے دفتر یا گھر میں ملازمت دیں گے، نہیں ناں تو پھر یہ تو پاکستان کی ٹیم ہے، دوبارہ سے اسے شکوک کی زد میں لانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں، نجم سیٹھی ویسے ہی ملکی کرکٹ کے معاملات کوالجھا چکے، انھیں بگ تھری، فیوچر سیریز، بھارت سے میچز، اپنی آئی سی سی صدارت، ملکی گرائونڈز دوبارہ آباد کرنے، کوچ، کپتان، چیف سلیکٹر کی تقرری جیسے معاملات پر توجہ دینی چاہیے، عامر جیسے نان ایشوز سے انھیں نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ ہو گا۔
''رمیز راجہ غدار ہے، اسے بھارت سے پیسے ملتے ہیں تب ہی ایسی باتیںکرتا ہے'' سابق پاکستانی کپتان نے جب بگ تھری کی حمایت کر کے پی سی بی کو اپنا حصہ وصول کرنے کی تجویز دی تو انھیں اس قسم کے بے تحاشا منفی تبصروں کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت ہر کوئی بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے منصوبے کی مخالفت کرتا پھر رہا تھا، میڈیا تو ویسے ہی ہوا کے رخ پر چلتا ہے، لہذا رمیز جیسے لوگ ولن اور حب الوطنی کے نام پر اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے ہیرو قرار پائے، ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر سابق کرکٹرز اور بورڈ آفیشلز نے بھی بگ تھری کی خوب دھجیاں اڑائیں، خود نجم سیٹھی نے بھی اپنے پروگرام میں سابق پی سی بی حکام سے رائے لے کر اس منصوبے کوغلط قرار دیا۔
ایسے میں جب ذکا اشرف نے آئی سی سی میٹنگ میں اس تجویز پر ووٹ نہیں دیا تو اچانک ہوا کا رخ پھر تبدیل ہو گیا، لوگ ان سے اپنا ذاتی حساب چکتا کرنے کیلیے باتیں کرنے لگے کہ پاکستان اکیلا رہ گیا، حکومت کو تو بہانہ چاہیے تھا اسی بات کو جواز بناکر ذکا اشرف کی چھٹی اور نجم سیٹھی کی تقرری کر دی، انھوں نے ٹریک تبدیل کر کے بگ تھری کی حمایت کا عندیہ دینا شروع کر دیا،اس وقت تک جنوبی افریقہ،بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی فوائد حاصل کر کے بھارت کی گود میں جا بیٹھے تھے لہذا وہ بھی بُرے قرار پائے، اب بچا پاکستان تو یہ باتیں ہونے لگیں کہ وہ اکیلا رہ جائے گا کوئی اس کے ساتھ نہیں کھیلے گا،لہذا حالیہ میٹنگ بھی پی سی بی بھی بگ تھری کے ساتھ جا ملا، یہ تو صورتحال کا خلاصہ تھا، اب اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو علم ہو گا کہ پاکستان ابتدا سے ہی اس پوزیشن میں نہ تھا کہ بگ تھری کی حمایت کر دیتا، چونکہ اس میں بھارت شامل ہے اس لیے فوراً پی سی بی پر ملک دشمنی کا لیبل لگ جاتا، ہم گھر اور سینمائوں میں روز بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں، گاڑیوں میں ان کے گانے چلاتے ہیں۔
ہمارے ٹی وی چینلز بھارتی ڈرامے اور فلمیں دکھا رہے ہیں، ایف ایم ریڈیو چینلز بھی 30روپے کی ایک ایم پی تھری سی ڈی لے کر 24گھنٹے بھارتی گانے چلاتے ہیں،ہمارے پسندیدہ ہیرو اور ہیروئین بھارتی ہیں، مگر ساتھ ہی بھارت کو اپنا دشمن بھی قرار دیتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، گذشتہ دنوں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران جب بنگلہ دیش جانا ہوا تو کسی نے بتایا کہ وہاں سینما میں بھارتی فلمیں نہیں لگتیں، وہاں کی حکومت بھارت نواز پھر بھی ایسا ہوتا ہے، ہمارا وہ ''دشمن'' ہے پھر بھی ہر نئی فلم یہاں بھی ساتھ ریلیز ہوتی ہے۔ گوکہ سابق چیئرمین اعتراف نہیں کرتے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ انھوں نے غداری کے الزام سے بچنے کیلیے بگ تھری کی مخالفت کی، انھیں پتا تھا کہ ٹی وی پر بیٹھے مبصرین ان پر لالچی ہونے کا الزام لگا کر کہتے کہ قومی وقار کا سودا کر دیا، اس وقت تو بھارت کئی سیریز کھیلنے کو تیار تھا، بگ تھری کو فور تک بنانے کا کہہ دیا تھا، مگر یہ موقع ضائع کر دیا گیا، پھر جب اتنے دنوں تک خود کو اصول پرست ثابت کیا تو اب اس پر ثابت قدم رہنا چاہیے تھا۔
بگ تھری کی مخالفت کے بعد ایک بار میں نے انگلش اور آسٹریلوی بورڈ آفیشلز سے پوچھا تھا کہ ''کیا اب آپ لوگ پاکستان کے ساتھ نہیں کھیلیں گے'' دونوں کا یہی جواب تھا کہ '' ہم سابقہ فیوچر ٹور پروگرام'' کی تمام سیریز کمٹمنٹ پوری کریں گے''۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو کوئی انٹرنیشنل کرکٹ سے الگ نہیں کر سکتا، فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے 209 ممبرز ہیں لہذا اس کو جب کوئی بات گراں گذرے توکسی کی بھی رکنیت معطل کر دیتی ہے مگر کھیل کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کرکٹ میں ایسا نہیں آئی سی سی کے صرف 10مستقل ارکان ہیں، ان میں سے بھی زمبابوے اور بنگلہ دیش کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، پاکستان ایک ایسی ٹیم ہے جس کے دنیا بھر میں مداح موجود ہیں، انگلینڈ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ میں گرین شرٹس سے میچز کے دوران میں نے خود اسٹیڈیمز شائقین سے کھچا کھچ بھرے دیکھے، لہذا یہ کیسے اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔
البتہ بھارت تو ویسے بھی ہم سے نہیں کھیل رہا ہو سکتا ہے کہ تھوڑا غصہ دکھاتے ہوئے وہ مزید کچھ عرصے نہ کھیلتا، ایک بات طے ہے کہ دونوں ٹیموں کے میچز پی سی بی یا بی سی سی آئی طے نہیں کرتے، یہ فیصلے حکومتی سطح پر ہوتے ہیں، اب بھی حکومتیں آمادہ ہوں تو شیڈول میں فوراً جگہ نکال کر سیریز کا انعقاد ہو جائے، لہذا بورڈ حکام عالمی کرکٹ میں تنہا ہونے کا راگ الاپ کر عوام کو گمراہ نہ کریں،سابق چیئرمین وزیر اعظم سے ملاقات کیلیے کوشش کرتے رہ گئے مگر انھیں وقت نہ ملا، اسی لیے انھیں جو سمجھ آیا وہ فیصلہ کر دیا، حالانکہ اگر حمایت کرنا مقصود تھا تو ابتدا میں ہی کر کے زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے تھے، اب نجم سیٹھی نے جو فیصلہ کر دیا اس کے اثرات چند برسوں میں ہی سامنے آئیں گے، توقع کرنی چاہیے کہ پاکستان کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ہمارے لیے سب سے بڑا معاملہ سونے میدانوں کو دوبارہ سے آباد کرنا ہے مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہو رہی، سچی بات ہے کہ ہمیں خود اپنی سیکیورٹی پر اعتماد نہیں، اس لیے کسی ٹیم سے کیا بات کریں،جب تک ملک میں دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوتی
مالی معاملات کے ساتھ ٹیلنٹ میں بھی ہمیں مسائل پیش آئیں گے،اب چیئرمین پاکستان سپر لیگ کرانے کا اعلان کر چکے مگر سب سے بڑا مذاق بطور میزبان یو اے ای کا انتخاب ہے،پھر تو اس کا نام ہی امارات لیگ رکھنا چاہیے، سابق چیئرمین بھی اس پروجیکٹ پر کروڑوں روپے پھونک چکے، اب نجم سیٹھی بھی یہی کرنے جا رہے ہیں مگر یو اے ای میں بے تحاشا اخراجات کے سبب یہ لیگ سراسر گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہو گی۔ چیئرمین کو اس کے بجائے محدود پیمانے پر لاہور یا کسی اور شہر میں لیگ کرانی چاہیے، ایسے ہی اقدامات سے آہستہ آہستہ غیرملکی ٹیموں کا اعتماد واپس جیتا جا سکے گا۔
پاکستان کرکٹ کے معاملات ان دنوں افراتفری کا شکار نظر آ رہے ہیں، بورڈ نے محمد حفیظ سے استعفیٰ لے کر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی شکست کا عوامی غم و غصہ کم کرنے کی کوشش کی مگر تمام آفیشلز شان سے دندناتے پھر رہے ہیں، حفیظ کے بعد سب کو شاہد آفریدی کی صورت میں نیا ہدف مل گیا جسے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایئرپورٹ پر میڈیا نے سوال پوچھا کہ آپ کو بورڈ نے کپتان بنایا تو ذمہ داری قبول کر لیں گے تو آفریدی نے ہاں میں جواب دیا، اس میں کیا غلط بات تھی کہ وہ یہ کہتا کہ ''نہیں میں اس ٹیم کو نہیںسنبھال سکتا کوئی دوسرا ڈھونڈو'' اس پر پھر کھنچائی ہو جانی تھی، اسی طرح آفریدی نے کہاکہ ''بیٹسمینوں نے منفی اپروچ اپنائی'' یہ بھی کون سی غلط بات تھی، ساتویں اوور میں پہلی بائونڈری سے اس بات کی سچائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ہمیں تھوڑا حقیقت پسندانہ بننا چاہیے،آفریدی ہو یا کوئی اور پلیئر ایک دم سے اس کے پیچھے نہیں پڑیں،پلیئر بھی انسان ہیں اگر کوئی سچ بات کہہ جائیں تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، بورڈ نے بھی فوراً میڈیا کے دبائو میں آفریدی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اسی طرح راشد لطیف سے معاہدہ ہوئے بغیر ان کی تقرری کا اعلان کر کے بھی پی سی بی نے اپنے لیے خود مشکل پیدا کی، ان کے انکار سے دنیا بھر میں بورڈ کی سبکی ہوئی، پہلے تمام
معاملات طے کرتے پھر پریس ریلیز جاری کیا جاتا، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے،راشد لطیف کے آنے سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوتا مگر انھوں نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی،اس کی وہ کئی وجوہات آف دی ریکارڈ مجھے بتا چکے مگر تنازع میں پڑنا نہیں چاہتے اس لیے لکھنے سے منع کیا ہے، کسی دن ضرور قارئین کو ان سے آگاہ کروں گا۔ بورڈ نے حفیظ کے ساتھ بھی بہت غلط کیا، جس طرح بھارت نے یوراج سنگھ کی ایک خراب اننگز پر اس کے تمام کارنامے بھلا دیے، ایسا ہی ہم نے حفیظ کے ساتھ کیا جس پر وہ خاصے رنجیدہ ہیں، گذشتہ دنوں ایک مضمون میں جب میں نے اس حوالے سے نشاندہی کی کہ شکست کا سارا ملبہ صرف کپتان پر ڈالنا درست نہیں تو انھوں نے فون پر شکریہ ادا کیا، ان کے مطابق تمام تر کوشش کے باوجود ٹیم سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکی جس کا افسوس ہے، وہ چند ساتھی پلیئرز کے رویے سے بھی نالاں لگتے ہیں۔
پاکستان کو اب چیف سلیکٹر کے ساتھ کوچ کی بھی تلاش ہے، معین خان چیئرمین بورڈ کے خاصے قریب ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کیلیے نجم سیٹھی نے کوچنگ سیٹ اپ میں تبدیلی کا عندیہ دیا، چونکہ اب چند ماہ کوئی کرکٹ نہیں ہونی اس لیے وہ انتظار کر رہے ہیں، کچھ عرصے بعد دوبارہ معین کو ہی کوچ برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا جائے گا، ایک تجویز انھیں چیف سلیکٹر مقرر کر کے وقار یونس کو کوچ بنانے کی بھی ہے،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں پاکستانی کرکٹ چند چہروں کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔
چیئرمین پی سی بی ممکن ہے کہ آئندہ برس آئی سی سی کے بھی صدر بن جائیں جو یقیناً ان کیلیے بڑا اعزاز ہو گا مگر افسوس کہ اس عہدے کی کوئی قدر نہیں رہی، یہ علامتی بن چکا،صدر کو نہ ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہو گا نہ ہی میٹنگز کی صدارت کر سکے گا، بگ تھری نے حمایت کے عوض یہ بے کار سا تحفہ پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔
چیئرمین پی سی بی ابتدا ہی سے عامر کی سزا ختم کرانے کیلیے کوششیں کر رہے ہیں نجانے اس کی کیا وجہ ہے، کم عمری کی وجہ سے مجرموں کو چھوڑا نہیں جاتا اور وہ سزا پوری کرتے ہیں ،عامر نے جانتے بوجھتے ہوئے اسپاٹ فکسنگ کی اور اس سے مال بنایا، اس کے ساتھ بعض ایسے کام جو بڑوں کو بھی زیب نہیں دیتے وہ بھی اس ''بچے '' نے کیے، اب اسے کھیل میں واپس لا کر کیا ملے گا، ہر وقت کیمرے اسی پر مرکوز رہیں گے،نادانستہ غلطی پر بھی یہی سمجھا جائے گا کہ شائد پھر مال بنا لیا،سلمان بٹ،آصف اور دانش کنیریا جتنا ملک کی بدنامی کا باعث بنے اتنا ہی عامر بھی بنا ہے، اسے کھیل میں واپس لانے کی باتیں کرنے والے اچھی مثال قائم نہیں کر رہے، اگر ایسا ہوا تو ہر انڈر19لیول کا کرکٹر یہی سوچے گا کہ فکسنگ کر کے دولت کما لیتے ہیں بعد میں عامر کی طرح کم عمری کا جواز بنا کر جان چھڑا لیں گے۔
پیسر کے حمایتی افراد سے میں صرف یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا شخص جسے کسی بھی کیس بھی جیل کی سزا ہوئی ہو یا اس کا جرم ثابت ہو گیا ہو آپ اسے اپنے دفتر یا گھر میں ملازمت دیں گے، نہیں ناں تو پھر یہ تو پاکستان کی ٹیم ہے، دوبارہ سے اسے شکوک کی زد میں لانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں، نجم سیٹھی ویسے ہی ملکی کرکٹ کے معاملات کوالجھا چکے، انھیں بگ تھری، فیوچر سیریز، بھارت سے میچز، اپنی آئی سی سی صدارت، ملکی گرائونڈز دوبارہ آباد کرنے، کوچ، کپتان، چیف سلیکٹر کی تقرری جیسے معاملات پر توجہ دینی چاہیے، عامر جیسے نان ایشوز سے انھیں نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ ہو گا۔