’’خواتین کے خلاف وراثت میں ملنے والا ’تعصب ختم کرنا ہوگا‘‘
مصری خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا احاطہ کرتا ہوا خصوصی مضمون
ایسوسی ایٹ پروفیسر(شعبہ اردو، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ، مصر)
دنیا ہر سال کی طرح آج 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے، اور اس کا مقصد صنفی مساوات، مختلف شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانا، ان کے خوابوں، ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا، دنیا بھر کے معاشروں کو خواتین کے مضبوط اور بااثر حالات کی یاد دلانا، ان کی کام یابیوں کا جشن منانا، خواتین کے مسائل پر توجہ دے کر صنفی مساوات کی حمایت کرنا اور خواتین کے موثر اور بااثر کردار کو اجاگر کرنا ہے۔
ہم خواتین کی بہت سی کام یاب مثالیں دیکھتے ہیں، جنھوں نے تعصب اور تفریق کے دقیانوسی تصورات کو توڑا ہے، تمام معاملات بالخصوص اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے انھوں نے جو جہد وجہد کی ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ کام کرنے کا حق، تعلیم، صحت، معاشی برابری جیسے شعبوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عزم اور ان کا کردار کمال کا ہے۔
مصر کی تاریخ مختلف شعبوں میں خواتین کے حیرت انگیزکار ناموں سے بھری پڑی ہے۔ عہد قدیم اور قرون وسطی سے لے کر جدید دور تک، مصرکے معاشرے میں خواتین کے کام یاب ماڈل بہت ہیں، بہت سی باصلاحیت مصری خواتین نے کئی شعبوں میں نمایاں اور باوقار کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جیسے ہی انھیں مواقع میسر آئے، انھوں نے اپنے پورے حوصلے اور نہ ختم ہونے والے عزم کے ساتھ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا اور مقامی اور بین الاقوامی سطح تعلیم، صحافت، سیاست، ہوا بازی، سائنسی تحقیق وغیرہ کے شعبوں میں دھوم مچا دی۔
8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے ساتھ ساتھ مصر میں ہر سال 16 مارچ کو مصری خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔
اس تاریخ کا انتخاب خاص طور پر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ یہ مختلف تاریخی مراحل میں مصری خواتین کی زندگی میں اہم مقامات کی یاد رکھتی ہے، جن میں نوآبادیات کے خلاف ان کی بغاوت، آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور ان کے دو اہم ترین سیاسی حقوق حاصل کرنے کی یاد ہے۔ یہ یوم شہادت ان شہدا کی تاریخ ہے، جو 100 سال قبل انگریزوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں شہید ہوئیں۔
مصری یوم خواتین کی تاریخ 16 مارچ 1919ء سے شروع ہوئی، جب خواتین نے جدید مصر کی تاریخ میں پہلی بار انگریزی قبضے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔ اس کی شروعات حقوق پرست راہ نما مسز ہدی شعراوی کی جانب سے اس دن انگریز قبضے کے خلاف خواتین کے مظاہرے کی دعوت سے ہوئی، انھوں نے خواتین کے ایک ایسے مظاہرے کی قیادت کی جسے اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ سمجھا جاتا تھا، جس میں 300 سے زائد مصری خواتین نے شرکت کی۔
مظاہروں کے دوران کچھ خواتین ''وطن کی شہید'' بن گئیں، اور اس دن سے لڑائی مصری خواتین کے اپنے حقوق اور اپنے ملک کے حقوق کے دفاع کے پیغام کا حصہ بن گئی۔ اس مظاہرے کے ذریعے انھوں نے پہلی مصری فیڈریشن برائے خواتین کے قیام، خواتین کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور سماجی و سیاسی مساوات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا
16 مارچ 1923 کو، ہدی شعراوی نے مصر میں پہلی خواتین یونین کے قیام کا مطالبہ کیا، جس کا مقصد خواتین کے سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنا اور مرد کے ساتھ مساوات حاصل کرنا تھا، نہ صرف یہ، بلکہ لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تمام مراحل میں عوامی تعلیم حاصل کرنے اور شادی سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے قانون سے مطالبہ کیا کہ وہ شادی، تعلیم اور سیاسی حقوق کے استعمال سے متعلق مصر کے قوانین کو تبدیل کرے۔ 16 مارچ کا یہ واحد متاثر کن واقعہ نہیں تھا، جس کا مرکزی کردار مصری خاتون تھیں۔
16 مارچ 1928ء کو لڑکیوں کا پہلا گروہ قاہرہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ کئی خواتین نے تعلیم اور عوامی ملازمت کے حق کو یقینی بنانے کے لیے پیشہ ورانہ شعبوں میں کام یابی حاصل کی ہے۔ پہلی مصری خاتون نے لیسٹر آف رائٹس کی ڈگری حاصل کی، اور پہلی مصری اور عرب وکیل کی حیثیت سے منیرہ کا نام 1924ء میں مخلوط عدالتوں کے سامنے وکلا کی فہرست میں درج کیا گیا۔
ہیلینا سیڈاروس نے طب کے میدان میں کام یابی حاصل کی اور پہلی مصری ڈاکٹر بن گئی۔ خواتین نے سماجی انصاف پر اصرار کیا اور سائنسی طور پر اعلی درجے حاصل کیے۔ 16 مارچ 1956ء کو مصری خواتین پارلیمان کی رکن بن گئیں، مصری آئین نے انھیں باقاعدہ امیدوار بننے کی اجازت دی تھی اور انھیں پارلیمان کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا تھا۔
آج، سو سال اور اس سے زیادہ عرصے کے بعد، مصری عورت تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت، قابلیت کی بنیاد پر حقیقی طور پر بااختیار بننے کا ثمر حاصل کر رہی ہے۔ مصری خواتین اب ایسے اہم عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں، جو پہلے انھیں میسر نہیں تھے۔
آج کی مصری خاتون کی کام یابی کی یہ علامت ہے کہ خواتین کی رسائی ججوں کے پلیٹ فارم تک ہو چکی ہے۔ خواتین کچھ دن قبل ہی عدلیہ کے اس مسند تک پہنچ گئیں، جو اب تک صرف مردوں کے لیے مخصوص تھی۔ مصرکی تاریخ میں پہلی بار، 5 مارچ کو جج رضوی حلمی مسند عدالت پر بیٹھیں۔ مصرکی عورت کو اس کام یابی کی سہرا ''اومنیہ جاد اللہ'' کے سر باندھا جاناچاہیے، جنھوں نے قانون کی 'فیکلٹی' سے گریجویشن کیا اور بعد میں قانون میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
انھوں نے انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، لڑکیوں کی حمایت کرنے اور مصری خواتین کی عدلیہ تک رسائی سے روکے جانے کے معاملوں کے حوالے سے امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بیداری پیدا کی۔ وہ خواتین کے اعلی منصب پر پہنچنے کی پرزور وکالت کرتی رہی ہیں۔
عدالتوں میں خاص طور پر اور معاشرے اور عمومی طور پر خواتین کی ترقی کے معاملوں پر وہ بے حد یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے خواتین کے پس ماندہ رہنے اور ریاستی کونسل کے اندر ان کے حقوق دبائے جانے کے معاملات کو پوری طرح مسترد کیا ہے۔
جب کونسل نے ایک خاتون کا بہ حیثیت جج تقرر کرنے سے انکار کیا، تو امنیہ نے ریاستی کونسل میں بطور معاون مندوب مقرر ہونے کی اپنی اہلیت کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا۔ جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ تقرری اور ملازمت کی شرائط کے مطابق انھیں بھی ریاستی کونسل میں عدلیہ کے پوڈیم تک پہنچنے کا موقع ملنا چاہیے۔
جد اللہ نے خواتین کی عدلیہ تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ صدر جمہوریہ نے فیصلہ جاری کر دیا اور اب ریاستی کونسل میں 98 خواتین جج اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھنے کی حق دار ہوگئی ہیں۔
مصر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت یہاں ایک خاتون وزیر سیاحت ہے۔ اب تک یہ عہدہ روایتی طور پر مردوں کے ماتحت اوران کی بالادستی میں رہا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک خاتون کی قیادت میں اس شعبے نے بہت زیادہ کام یابیاں حاصل کی ہیں، انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین دنیا میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے داخلی اور خارجی طور پر مصر کی بہترین نمائندگی کر کے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ انھوں نے تعصب کے سانچے کو توڑنے میں کام یابی حاصل کی اور اس عہدے پر کام کر کے 2019ء میں مصر کی تاریخ میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی کے پرانے ریکارڈ توڑ دیے۔
ان کے علاوہ بہت سی ایسی شان دار مصری خواتین ہیں، جو اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی کام یابیوں کے ذریعے ہر روز صنفی اور جنسی تعصبات کو توڑرہی ہیں۔ مصری پارلیمان کا ایوان بالا میں خواتین کی غیر معمولی موجودگی کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شرح 45 فی صد تک پہنچ گئی ہے، حکومت میں خاتون وزرا کا تناسب 25 فی صد تک پہنچ گیا، یعنی وزرا کا ایک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔
گذشتہ کئی برس کے دوران مختلف ریاستی اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ خواتین نے پہلی بار قومی کونسل برائے انسانی حقوق کی صدارت حاصل کی، ریاستی کونسل اور انتظامی پراسیکیوشن میں بھی ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ مرکزی بینک کی پہلی ڈپٹی سربراہ، ڈپٹی گورنر، صدر جمہوریہ کی مشیر برائے قومی سلامتی اور اقتصادی عدالت کی پہلی خاتون صدر ہونے کا شرف بھی مصری خواتین کا حاصل ہو چکا ہے۔
یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بعض سیاست دانوں نے خواتین کے ساتھ تفریق اور سوتیلے برتاؤ کے خلاف جاری خواتین کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی حقوق کی فراہمی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے، انھوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں عورت کی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا۔
آخر میں، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ تعصب اور تفریق جو عورت کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کو مشکل بنائے اس کو مٹا دینا چاہیے، چاہے یہ تعصب اور تفریق جان بوجھ کر ہو یا ان جانے میں۔ تعصب و تفریق کو توڑنے کے لیے، معاشرے کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ناروا سلوک ہے۔ میرے خیال میں خواتین کے ساتھ اختیار کیے جانے والا تعصب ایک سماجی مسئلہ ہونے سے پہلے ایک خاندانی مسئلہ ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف تعصب سب سے پہلے کنبے اور خاندان سے شروع ہوتا ہے۔ دراصل تعصب اور تفریق کا رواج بہت سے خاندانوں میں فطری معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اخلاقی اور روایتی لحاظ سے نسلوں کو یہ تعصب وراثت میں ملتا ہے۔
اس کو ہمارے بچوں، مردوں اور عورتوں کی طرف سے بڑھایا جاتا ہے، اسی بنیاد پر میں کہنا چاہوں گی کہ اس تعصب کو ختم کرنا صرف قانون سازی سے مکمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے گھروں، دفتروں ، کارخانوں ، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہمارے آس پاس کی جگہوں پر بیداری پیدا کرنا ہوگی، تاکہ اس صنفی اور جنسی تفریق و تعصب کا خاتمہ ہو۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت اور مرد مل کر ایک محفوظ اور مستحکم معاشرہ بناتے ہیں۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، وہی خوشی کا منبع ہے، اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے طاقت اور توانائی کی بنیاد ہے، اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نرمی اور محبت کا سر چشمہ ہے۔ وہ ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ اسلام عورت کو ممتاز کرنے اور اسے اپنے خاندان میں ایک خاص مقام دینے کا خواہاں ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی اسلام نے قبیلوں کے غیر انسانی رسم و رواج کو بدل کر لڑکیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، جومعاشرہ لڑکیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اس کو۔ رسول اللہ نے حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ آخر میں، میں ہراس خاتون کو سلام پیش کرتی ہوں، جس نے ہمیشہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ترقی اور تعمیر میں قوم کی ڈھال اور تلوار ہے۔
دنیا ہر سال کی طرح آج 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے، اور اس کا مقصد صنفی مساوات، مختلف شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانا، ان کے خوابوں، ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا، دنیا بھر کے معاشروں کو خواتین کے مضبوط اور بااثر حالات کی یاد دلانا، ان کی کام یابیوں کا جشن منانا، خواتین کے مسائل پر توجہ دے کر صنفی مساوات کی حمایت کرنا اور خواتین کے موثر اور بااثر کردار کو اجاگر کرنا ہے۔
ہم خواتین کی بہت سی کام یاب مثالیں دیکھتے ہیں، جنھوں نے تعصب اور تفریق کے دقیانوسی تصورات کو توڑا ہے، تمام معاملات بالخصوص اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے انھوں نے جو جہد وجہد کی ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ کام کرنے کا حق، تعلیم، صحت، معاشی برابری جیسے شعبوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عزم اور ان کا کردار کمال کا ہے۔
مصر کی تاریخ مختلف شعبوں میں خواتین کے حیرت انگیزکار ناموں سے بھری پڑی ہے۔ عہد قدیم اور قرون وسطی سے لے کر جدید دور تک، مصرکے معاشرے میں خواتین کے کام یاب ماڈل بہت ہیں، بہت سی باصلاحیت مصری خواتین نے کئی شعبوں میں نمایاں اور باوقار کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جیسے ہی انھیں مواقع میسر آئے، انھوں نے اپنے پورے حوصلے اور نہ ختم ہونے والے عزم کے ساتھ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا اور مقامی اور بین الاقوامی سطح تعلیم، صحافت، سیاست، ہوا بازی، سائنسی تحقیق وغیرہ کے شعبوں میں دھوم مچا دی۔
8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے ساتھ ساتھ مصر میں ہر سال 16 مارچ کو مصری خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔
اس تاریخ کا انتخاب خاص طور پر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ یہ مختلف تاریخی مراحل میں مصری خواتین کی زندگی میں اہم مقامات کی یاد رکھتی ہے، جن میں نوآبادیات کے خلاف ان کی بغاوت، آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور ان کے دو اہم ترین سیاسی حقوق حاصل کرنے کی یاد ہے۔ یہ یوم شہادت ان شہدا کی تاریخ ہے، جو 100 سال قبل انگریزوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں شہید ہوئیں۔
مصری یوم خواتین کی تاریخ 16 مارچ 1919ء سے شروع ہوئی، جب خواتین نے جدید مصر کی تاریخ میں پہلی بار انگریزی قبضے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔ اس کی شروعات حقوق پرست راہ نما مسز ہدی شعراوی کی جانب سے اس دن انگریز قبضے کے خلاف خواتین کے مظاہرے کی دعوت سے ہوئی، انھوں نے خواتین کے ایک ایسے مظاہرے کی قیادت کی جسے اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ سمجھا جاتا تھا، جس میں 300 سے زائد مصری خواتین نے شرکت کی۔
مظاہروں کے دوران کچھ خواتین ''وطن کی شہید'' بن گئیں، اور اس دن سے لڑائی مصری خواتین کے اپنے حقوق اور اپنے ملک کے حقوق کے دفاع کے پیغام کا حصہ بن گئی۔ اس مظاہرے کے ذریعے انھوں نے پہلی مصری فیڈریشن برائے خواتین کے قیام، خواتین کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور سماجی و سیاسی مساوات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا
16 مارچ 1923 کو، ہدی شعراوی نے مصر میں پہلی خواتین یونین کے قیام کا مطالبہ کیا، جس کا مقصد خواتین کے سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنا اور مرد کے ساتھ مساوات حاصل کرنا تھا، نہ صرف یہ، بلکہ لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تمام مراحل میں عوامی تعلیم حاصل کرنے اور شادی سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے قانون سے مطالبہ کیا کہ وہ شادی، تعلیم اور سیاسی حقوق کے استعمال سے متعلق مصر کے قوانین کو تبدیل کرے۔ 16 مارچ کا یہ واحد متاثر کن واقعہ نہیں تھا، جس کا مرکزی کردار مصری خاتون تھیں۔
16 مارچ 1928ء کو لڑکیوں کا پہلا گروہ قاہرہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ کئی خواتین نے تعلیم اور عوامی ملازمت کے حق کو یقینی بنانے کے لیے پیشہ ورانہ شعبوں میں کام یابی حاصل کی ہے۔ پہلی مصری خاتون نے لیسٹر آف رائٹس کی ڈگری حاصل کی، اور پہلی مصری اور عرب وکیل کی حیثیت سے منیرہ کا نام 1924ء میں مخلوط عدالتوں کے سامنے وکلا کی فہرست میں درج کیا گیا۔
ہیلینا سیڈاروس نے طب کے میدان میں کام یابی حاصل کی اور پہلی مصری ڈاکٹر بن گئی۔ خواتین نے سماجی انصاف پر اصرار کیا اور سائنسی طور پر اعلی درجے حاصل کیے۔ 16 مارچ 1956ء کو مصری خواتین پارلیمان کی رکن بن گئیں، مصری آئین نے انھیں باقاعدہ امیدوار بننے کی اجازت دی تھی اور انھیں پارلیمان کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا تھا۔
آج، سو سال اور اس سے زیادہ عرصے کے بعد، مصری عورت تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت، قابلیت کی بنیاد پر حقیقی طور پر بااختیار بننے کا ثمر حاصل کر رہی ہے۔ مصری خواتین اب ایسے اہم عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں، جو پہلے انھیں میسر نہیں تھے۔
آج کی مصری خاتون کی کام یابی کی یہ علامت ہے کہ خواتین کی رسائی ججوں کے پلیٹ فارم تک ہو چکی ہے۔ خواتین کچھ دن قبل ہی عدلیہ کے اس مسند تک پہنچ گئیں، جو اب تک صرف مردوں کے لیے مخصوص تھی۔ مصرکی تاریخ میں پہلی بار، 5 مارچ کو جج رضوی حلمی مسند عدالت پر بیٹھیں۔ مصرکی عورت کو اس کام یابی کی سہرا ''اومنیہ جاد اللہ'' کے سر باندھا جاناچاہیے، جنھوں نے قانون کی 'فیکلٹی' سے گریجویشن کیا اور بعد میں قانون میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
انھوں نے انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، لڑکیوں کی حمایت کرنے اور مصری خواتین کی عدلیہ تک رسائی سے روکے جانے کے معاملوں کے حوالے سے امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بیداری پیدا کی۔ وہ خواتین کے اعلی منصب پر پہنچنے کی پرزور وکالت کرتی رہی ہیں۔
عدالتوں میں خاص طور پر اور معاشرے اور عمومی طور پر خواتین کی ترقی کے معاملوں پر وہ بے حد یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے خواتین کے پس ماندہ رہنے اور ریاستی کونسل کے اندر ان کے حقوق دبائے جانے کے معاملات کو پوری طرح مسترد کیا ہے۔
جب کونسل نے ایک خاتون کا بہ حیثیت جج تقرر کرنے سے انکار کیا، تو امنیہ نے ریاستی کونسل میں بطور معاون مندوب مقرر ہونے کی اپنی اہلیت کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا۔ جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ تقرری اور ملازمت کی شرائط کے مطابق انھیں بھی ریاستی کونسل میں عدلیہ کے پوڈیم تک پہنچنے کا موقع ملنا چاہیے۔
جد اللہ نے خواتین کی عدلیہ تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ صدر جمہوریہ نے فیصلہ جاری کر دیا اور اب ریاستی کونسل میں 98 خواتین جج اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھنے کی حق دار ہوگئی ہیں۔
مصر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت یہاں ایک خاتون وزیر سیاحت ہے۔ اب تک یہ عہدہ روایتی طور پر مردوں کے ماتحت اوران کی بالادستی میں رہا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک خاتون کی قیادت میں اس شعبے نے بہت زیادہ کام یابیاں حاصل کی ہیں، انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین دنیا میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے داخلی اور خارجی طور پر مصر کی بہترین نمائندگی کر کے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ انھوں نے تعصب کے سانچے کو توڑنے میں کام یابی حاصل کی اور اس عہدے پر کام کر کے 2019ء میں مصر کی تاریخ میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی کے پرانے ریکارڈ توڑ دیے۔
ان کے علاوہ بہت سی ایسی شان دار مصری خواتین ہیں، جو اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی کام یابیوں کے ذریعے ہر روز صنفی اور جنسی تعصبات کو توڑرہی ہیں۔ مصری پارلیمان کا ایوان بالا میں خواتین کی غیر معمولی موجودگی کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شرح 45 فی صد تک پہنچ گئی ہے، حکومت میں خاتون وزرا کا تناسب 25 فی صد تک پہنچ گیا، یعنی وزرا کا ایک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔
گذشتہ کئی برس کے دوران مختلف ریاستی اداروں میں خواتین کی نمائندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ خواتین نے پہلی بار قومی کونسل برائے انسانی حقوق کی صدارت حاصل کی، ریاستی کونسل اور انتظامی پراسیکیوشن میں بھی ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ مرکزی بینک کی پہلی ڈپٹی سربراہ، ڈپٹی گورنر، صدر جمہوریہ کی مشیر برائے قومی سلامتی اور اقتصادی عدالت کی پہلی خاتون صدر ہونے کا شرف بھی مصری خواتین کا حاصل ہو چکا ہے۔
یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بعض سیاست دانوں نے خواتین کے ساتھ تفریق اور سوتیلے برتاؤ کے خلاف جاری خواتین کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی حقوق کی فراہمی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے، انھوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں عورت کی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا۔
آخر میں، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ تعصب اور تفریق جو عورت کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کو مشکل بنائے اس کو مٹا دینا چاہیے، چاہے یہ تعصب اور تفریق جان بوجھ کر ہو یا ان جانے میں۔ تعصب و تفریق کو توڑنے کے لیے، معاشرے کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ناروا سلوک ہے۔ میرے خیال میں خواتین کے ساتھ اختیار کیے جانے والا تعصب ایک سماجی مسئلہ ہونے سے پہلے ایک خاندانی مسئلہ ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف تعصب سب سے پہلے کنبے اور خاندان سے شروع ہوتا ہے۔ دراصل تعصب اور تفریق کا رواج بہت سے خاندانوں میں فطری معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اخلاقی اور روایتی لحاظ سے نسلوں کو یہ تعصب وراثت میں ملتا ہے۔
اس کو ہمارے بچوں، مردوں اور عورتوں کی طرف سے بڑھایا جاتا ہے، اسی بنیاد پر میں کہنا چاہوں گی کہ اس تعصب کو ختم کرنا صرف قانون سازی سے مکمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے گھروں، دفتروں ، کارخانوں ، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہمارے آس پاس کی جگہوں پر بیداری پیدا کرنا ہوگی، تاکہ اس صنفی اور جنسی تفریق و تعصب کا خاتمہ ہو۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت اور مرد مل کر ایک محفوظ اور مستحکم معاشرہ بناتے ہیں۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے، وہی خوشی کا منبع ہے، اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے طاقت اور توانائی کی بنیاد ہے، اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نرمی اور محبت کا سر چشمہ ہے۔ وہ ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ اسلام عورت کو ممتاز کرنے اور اسے اپنے خاندان میں ایک خاص مقام دینے کا خواہاں ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی اسلام نے قبیلوں کے غیر انسانی رسم و رواج کو بدل کر لڑکیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، جومعاشرہ لڑکیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اس کو۔ رسول اللہ نے حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ آخر میں، میں ہراس خاتون کو سلام پیش کرتی ہوں، جس نے ہمیشہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ترقی اور تعمیر میں قوم کی ڈھال اور تلوار ہے۔