دہشت گردی کا سدباب ضروری
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے
بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقہ ڈھاڈر کے قریب بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک سے خودکش بمبار نے موٹر سائیکل ٹکرا دی ، دھماکے میں 9 سیکیورٹی اہلکار شہید اور نو زخمی ہوگئے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے کیونکہ حالیہ چند مہینوں میں پورے خطے میں گھات لگا کر کیے گئے حملوں، جھڑپوں اور بم دھماکوں میں درجنوں سیکیورٹی اہلکار شہید اورکئی دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دہشت گردی کی وارداتیں اس وقت کی جا رہی ہیں جب پاکستان میں معاشی بد حالی بے قابو ہے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام اس دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ نظر آتا ہے۔
اس سے ہماری افغان پالیسی پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آخر کب تک ہم دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال اور دہشت گردوں کو غیر ملکی حمایت ہمارے بلوچستان میں تشدد اور دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے کے اہم عوامل ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے ان واقعات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کے سد باب کی پوری طرح کوششیں کرنا ہوں گی۔
بلوچستان اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم روٹ ہے۔ بلوچ عوام کے حقوق اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اعلانات تو کئی بار کیے گئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کی رفتار بہت سست ہے۔
اس صورتحال کا فائدہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر بھی اٹھاتے ہیں اور بھارت سمیت کئی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث گروہوں نے لندن سے قطر اور وہاں سے دبئی اور پھر وہاں سے بلوچستان تک غیر ملکی فنڈنگ کی پوری چین چلا رکھی ہے۔
افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند ، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔
ایسے میں کچھ عرصہ سے سیاسی اور دفاعی پنڈت ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورتِ حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے جو درست ثابت ہوا تھا۔
مزاحمتی سیاست کے پلیٹ فارم سے متاثر ہوکر زمانہ طالب علمی میں کئی نوجوان بھٹک گئے اور انھیں لگا کہ بلوچستان کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل کا حل پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے خلاف لڑنا ہے اور یوں کئی نوجوان ریاست اور اپنے ہی قوم کے خلاف بندوق اٹھانے لگے جس سے بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے گئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں بھی کسی قیمت پر کسی کو مداخلت کرنے نہ دے اور ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو پاکستان کے حقیقی چہرے اور معاشرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے اصل مسائل کی نشاندہی کرتی اور بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتی اور ان کے تصفیہ کرنے کا حل پارلیمنٹ میں رہ کر ڈھونڈتی تو شاید آج بلوچستان ، پاکستان کا خوشحال ترین صوبہ ہوتا۔
بلوچستان کی خوشحالی سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے۔ حکومت بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے، آج وہ اس پر نہ صرف کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے ۔
ریاستی اداروں کو چند غیر ملکی دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ پاکستان غیر ملکی جاسوسوں اور شرپسندوں سے پاک ہو۔ دہشت گردی ایک نا سور ہے جس کے خلاف بڑا آپریشن ہونا چاہیے تاکہ خوشحالی کا خواب ممکن ہو سکے۔
ہمیں دشمنوں کے اس وار کو سمجھنا ہوگا۔ دشمن ہمیں کئی فرنٹ پر اندرونی لڑائیوں میں الجھانا چاہتا ہے۔ حب الوطنی اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ دشمن کی اِن چالوں کو سمجھا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔
بعض قوتیں بہتری کی جانب گامزن حالات کو پھر سے خراب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بلوچستان کی محرومیوں کی آڑ میں بعض پڑوسی ملک بلوچستان میں کھلی مداخلت پر اُتر آئے ہیں ، ان کے مقاصد خطے کی معیشت کی تباہی ہے مگر ہمیں ہر حالت میں اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو پایہ تکمیل پہنچانا ہوگا۔
پاکستانی قوم اور اس کی افواج کا عزم اور جانفشانی کی علامت ہیں کہ ان کی قربانیاں اور کامیابیاں اظہر من الشمس ہیں۔ ہمیں عزت، وقار اور عظمت کے رہنما اصولوں کو اپنا کر پاکستان کی ترقی کا سفر جاری رکھنا ہو گا۔
چین کے تعاون سے انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کو ختم کیا جائے، توانائی منصوبوں کی تکمیل، تجارت کا عدم توازن درست کرنے سے ہمیں آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے میں مدد گار ثابت ہو گا ، ہم ہمت نہیں ہاریں گے، مشکلات کو پاٹ کر دشمن کو ہرا کر پاکستان کو اقوام عالم میں سر بلند کریں گے۔
بلوچستان کی خوشحالی سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے۔ حکومت بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان جو گزشتہ دو دہائی سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے آج وہ اس پر نہ صرف کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے بلکہ پاکستان کے مجموعی حالات بھی پُر امن ہیں۔
عوام الناس کے دلوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خوف کے سائے چھٹ رہے ہیں اور وہ اعتماد اور حوصلے سے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ جلد ہی پورا پاکستان پرامن ہوگا۔
اور ایک ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے اختلافات بھلا کر قومی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے بیرونی سرمایہ پاکستان میں آئے گا اور سیاسی استحکام سے پاکستان کے اندر معاشی استحکام آئے گا اداروں کے خلاف مہم جوہی ختم کرنی ہو گی اور فوج اور ادارے ایک ہو کر دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سیاسی مدد کی ضرورت رہے گی پاکستان کا استحکام ہی سب کا ہدف ہونا چاہیے اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قومی سوچ کے تحت روس اور امریکا کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور پاکستان کو کسی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس میں پاکستان کی بھلائی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ دو ٹوک بات کرنا ضروری ہے اگر طالبان پاکستان کے ساتھ دہشت گردی روکنے میں مدد نہیں کرتے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو پاکستان کو بھی راست اقدام کا حق حاصل ہے ۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنا ہوگا اور تمام راہداری اور افغان ٹریڈ کو بھی اس وقت تک معطل کرنا چاہیے جب تک طالبان ایک مشترکہ امن معاہدے پر دستخط نہیں کرتے ۔
پاکستان کے لیے افغانستان پہلی دفعہ مسائل پیدا نہیں کر رہا بلکہ یہ ماضی کا تسلسل ہے جو بغیر رکے جاری ہے۔
افغانستان میں مختلف الخیال اور نظریات کی حامل حکومتیں آئیں لیکن پاکستان کے بارے میں سب نے دوعملی پر مبنی پالیسی اپنائے رکھی 'قیام پاکستان کی مخالفت سے لے کر پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت تک افغان حکومت نے منفی کردار ادا کیا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو بھی افغان حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں اپنی منفی پالیسی برقرار رکھی، پاکستان میں کبھی قوم پرستی کی آڑ میں اور کبھی مذہب کے لبادے میںعوام میں اپنے لیے ہمدردی اور سہولت پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
افغانستان میں جب سوشلسٹ انقلاب آیا تو افغانستان کی شہری اشرافیہ 'زرعی اشرافیہ اور مذہبی طبقے نے امریکا کے ساتھ ہاتھ ملایا اور مذہب کی ڈھال بنا کر افغان ترقی پسندوں کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی 'پاکستان کے ایک مخصوص گروہ نے بھی اپنا رول ادا کیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے کیونکہ حالیہ چند مہینوں میں پورے خطے میں گھات لگا کر کیے گئے حملوں، جھڑپوں اور بم دھماکوں میں درجنوں سیکیورٹی اہلکار شہید اورکئی دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دہشت گردی کی وارداتیں اس وقت کی جا رہی ہیں جب پاکستان میں معاشی بد حالی بے قابو ہے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام اس دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ نظر آتا ہے۔
اس سے ہماری افغان پالیسی پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آخر کب تک ہم دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
افغانستان کی غیر مستحکم صورتحال اور دہشت گردوں کو غیر ملکی حمایت ہمارے بلوچستان میں تشدد اور دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے کے اہم عوامل ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے ان واقعات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کے سد باب کی پوری طرح کوششیں کرنا ہوں گی۔
بلوچستان اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم روٹ ہے۔ بلوچ عوام کے حقوق اور بلوچستان کی ترقی کے لیے اعلانات تو کئی بار کیے گئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کی رفتار بہت سست ہے۔
اس صورتحال کا فائدہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر بھی اٹھاتے ہیں اور بھارت سمیت کئی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث گروہوں نے لندن سے قطر اور وہاں سے دبئی اور پھر وہاں سے بلوچستان تک غیر ملکی فنڈنگ کی پوری چین چلا رکھی ہے۔
افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند ، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔
ایسے میں کچھ عرصہ سے سیاسی اور دفاعی پنڈت ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورتِ حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے جو درست ثابت ہوا تھا۔
مزاحمتی سیاست کے پلیٹ فارم سے متاثر ہوکر زمانہ طالب علمی میں کئی نوجوان بھٹک گئے اور انھیں لگا کہ بلوچستان کے سیاسی ، معاشی اور سماجی مسائل کا حل پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے خلاف لڑنا ہے اور یوں کئی نوجوان ریاست اور اپنے ہی قوم کے خلاف بندوق اٹھانے لگے جس سے بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے گئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں بھی کسی قیمت پر کسی کو مداخلت کرنے نہ دے اور ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو پاکستان کے حقیقی چہرے اور معاشرے کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے اصل مسائل کی نشاندہی کرتی اور بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتی اور ان کے تصفیہ کرنے کا حل پارلیمنٹ میں رہ کر ڈھونڈتی تو شاید آج بلوچستان ، پاکستان کا خوشحال ترین صوبہ ہوتا۔
بلوچستان کی خوشحالی سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے۔ حکومت بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے، آج وہ اس پر نہ صرف کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے ۔
ریاستی اداروں کو چند غیر ملکی دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ پاکستان غیر ملکی جاسوسوں اور شرپسندوں سے پاک ہو۔ دہشت گردی ایک نا سور ہے جس کے خلاف بڑا آپریشن ہونا چاہیے تاکہ خوشحالی کا خواب ممکن ہو سکے۔
ہمیں دشمنوں کے اس وار کو سمجھنا ہوگا۔ دشمن ہمیں کئی فرنٹ پر اندرونی لڑائیوں میں الجھانا چاہتا ہے۔ حب الوطنی اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ دشمن کی اِن چالوں کو سمجھا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔
بعض قوتیں بہتری کی جانب گامزن حالات کو پھر سے خراب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بلوچستان کی محرومیوں کی آڑ میں بعض پڑوسی ملک بلوچستان میں کھلی مداخلت پر اُتر آئے ہیں ، ان کے مقاصد خطے کی معیشت کی تباہی ہے مگر ہمیں ہر حالت میں اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو پایہ تکمیل پہنچانا ہوگا۔
پاکستانی قوم اور اس کی افواج کا عزم اور جانفشانی کی علامت ہیں کہ ان کی قربانیاں اور کامیابیاں اظہر من الشمس ہیں۔ ہمیں عزت، وقار اور عظمت کے رہنما اصولوں کو اپنا کر پاکستان کی ترقی کا سفر جاری رکھنا ہو گا۔
چین کے تعاون سے انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کو ختم کیا جائے، توانائی منصوبوں کی تکمیل، تجارت کا عدم توازن درست کرنے سے ہمیں آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے میں مدد گار ثابت ہو گا ، ہم ہمت نہیں ہاریں گے، مشکلات کو پاٹ کر دشمن کو ہرا کر پاکستان کو اقوام عالم میں سر بلند کریں گے۔
بلوچستان کی خوشحالی سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے۔ حکومت بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہے۔ ریاستِ پاکستان جو گزشتہ دو دہائی سے دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہے آج وہ اس پر نہ صرف کافی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے بلکہ پاکستان کے مجموعی حالات بھی پُر امن ہیں۔
عوام الناس کے دلوں سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خوف کے سائے چھٹ رہے ہیں اور وہ اعتماد اور حوصلے سے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ جلد ہی پورا پاکستان پرامن ہوگا۔
اور ایک ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے اختلافات بھلا کر قومی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے بیرونی سرمایہ پاکستان میں آئے گا اور سیاسی استحکام سے پاکستان کے اندر معاشی استحکام آئے گا اداروں کے خلاف مہم جوہی ختم کرنی ہو گی اور فوج اور ادارے ایک ہو کر دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سیاسی مدد کی ضرورت رہے گی پاکستان کا استحکام ہی سب کا ہدف ہونا چاہیے اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قومی سوچ کے تحت روس اور امریکا کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور پاکستان کو کسی بلاک کا حصہ بننے کے بجائے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس میں پاکستان کی بھلائی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ دو ٹوک بات کرنا ضروری ہے اگر طالبان پاکستان کے ساتھ دہشت گردی روکنے میں مدد نہیں کرتے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو پاکستان کو بھی راست اقدام کا حق حاصل ہے ۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنا ہوگا اور تمام راہداری اور افغان ٹریڈ کو بھی اس وقت تک معطل کرنا چاہیے جب تک طالبان ایک مشترکہ امن معاہدے پر دستخط نہیں کرتے ۔
پاکستان کے لیے افغانستان پہلی دفعہ مسائل پیدا نہیں کر رہا بلکہ یہ ماضی کا تسلسل ہے جو بغیر رکے جاری ہے۔
افغانستان میں مختلف الخیال اور نظریات کی حامل حکومتیں آئیں لیکن پاکستان کے بارے میں سب نے دوعملی پر مبنی پالیسی اپنائے رکھی 'قیام پاکستان کی مخالفت سے لے کر پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت تک افغان حکومت نے منفی کردار ادا کیا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو بھی افغان حکمرانوں نے پاکستان کے بارے میں اپنی منفی پالیسی برقرار رکھی، پاکستان میں کبھی قوم پرستی کی آڑ میں اور کبھی مذہب کے لبادے میںعوام میں اپنے لیے ہمدردی اور سہولت پیدا کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
افغانستان میں جب سوشلسٹ انقلاب آیا تو افغانستان کی شہری اشرافیہ 'زرعی اشرافیہ اور مذہبی طبقے نے امریکا کے ساتھ ہاتھ ملایا اور مذہب کی ڈھال بنا کر افغان ترقی پسندوں کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی 'پاکستان کے ایک مخصوص گروہ نے بھی اپنا رول ادا کیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔