حقوق سے محروم عورت اور ترقی کے خواب

اپنی آدھی آبادی کو بے کار رکھ کر ترقی کے خواب دیکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟

zahedahina@gmail.com

دنیا کی آبادی میں جو برق رفتار اضافہ ہو رہا ہے اس میں ترقی پذیر ملکوں کا حصہ غیر معمولی ہے۔ ان ملکوں کی غالب اکثریت غریب اور پس ماندہ ہے لہٰذا وہ آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں معاشی ترقی میں اضافے کی شرح آبادی میں اضافے کی شرح سے کم یا برابر ہے۔

جہاں ایک طرف غربت بڑھ رہی ہے وہیں دوسری طرف غربت کی وجہ سے مختلف نوعیت کے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ناخواندگی ترقی پذیر ملکوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ بڑے خاندان بچوں کی تعلیم کے متحمل نہیں ہوسکتے اور حکومتوں کے پاس بھی وسائل کی کمی ہے جس کے باعث وہ تعلیم کے شعبے کے لیے زیادہ سرمایہ مختص نہیں کرسکتیں۔

خوفناک رفتار سے بڑھتی آبادی کو صحت، تعلیم ، روزگار اور خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔

ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مستقبل میں آبادی میں اضافے کو روکنے کا ایک بہت مؤثر طریقہ یہ بھی ہے کہ صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔

وہ گھرانے جہاں خواتین کو اپنے بچوں کی تعداد متعین کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی آزادی ہے ، وہاں کنبہ نسبتاً مختصر ہوتا ہے اور خاندان کی صحت اور تعلیم کا معیار ان خاندانوں کی نسبت بہتر ہوتا ہے جہاں عورتیں فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتیں۔

ماہرین آبادی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر بین الاقوامی سطح پر عورتوں کو اپنے بچوں کی تعداد کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو جائے تو بہت سے ملکوں میں زرخیزی کے تناسب میں ایک تہائی کی کمی ہوجائے گی۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان انتہائی غریب ملکوں میں آبادی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جہاں صنفی عدم مساوات انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔

ان ملکوں میں آبادی میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے صنفی مساوات کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ صنفی مساوات سے ہی کنبے کا مختصر ہونا، بچوں کے لیے صحت کی بہتر سہولتیں اور بہتر تعلیم کے مواقع جڑے ہوئے ہیں اور اسی طرح عورتوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور حقوق انسانی کی فراہمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

وہ عورتیں جو اپنے مقدر کے فیصلے خود کرسکتی ہیں وہ اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔

برصغیر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ عجب تضاد اور مذاق ہے کہ برطانوی راج کا خنجر ایک طرف ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری کے گلے پر چل رہا تھا۔ دوسری طرف وہی ہندوستانی عورت کے لیے مذہبی روایات، رسم و رواج اور عزت و احترام کے نام پر وجود میں آنے والی آہنی زنجیروں کی کڑیاں بھی کاٹ رہا تھا۔

برصغیر کی ہندو اور مسلمان عورتیں لارڈ ہینٹنگ اور لارڈ ڈلہوزی کے احسانات کو کبھی نہیں بھُلا سکتیں۔

1848سے 1856 تک گورنر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والا یہ لارڈ ڈلہوزی تھا جس نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی بات عورتوں کی تعلیم سے زیادہ اہم اور بنیادی تبدیلی لانے کا سبب نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ہندو عورتیں لارڈ بینٹنگ کو نہیں بھول سکتیں جس نے انھیں مذہب کے نام پر زندہ جل کر '' ستی '' ہوجانے کے عذاب سے نجات دلائی۔

برصغیر کے ہندو اور مسلمان ہزار برس کی تاریخ سے ملکہ نور جہاں ، گلبدن بیگم، میرا بائی یا حکمراں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی چند دوسری خواتین کے نام پیش کرتے ہیں جو صاحبِ علم اور صاحب کتاب تھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ متوسط اور نچلے طبقات کی مسلمان یا ہندو عورت پر تعلیم کے دروازے بند تھے۔


ہندو عورت کے حق کے لیے سب سے پہلے راجہ رام موہن رائے نے آواز بلند کی۔ وہ عورتوں کے ساتھ مساوی برتاؤ اور ان کی تعلیم کے کٹر حامی تھے۔ ان کے بعد آنے والوں میں کیشب چندر سین ، رابندر ناتھ ٹیگور اور دیانند سرسوتی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ صرف عقلیت پسندی پر مبنی سیکولر تعلیم ہی ہندوستانی عورت کو جہالت اور پسماندگی کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔

1838اور 1939میں موہن رائے اور دیانند سرسوتی نے عورتوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ مہم چلائی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جدید تعلیم کے دروازے ہندوستانی عورت پر سب سے پہلے بنگال میںکھلے۔

عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک طرف متعدد مسلم اکابرین کی شدید مخالفت تھی تو دوسری طرف ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، سید کرامت علی، مولوی ممتاز علی ، منشی سید احمد دہلوی ، شیخ عبداللہ، راشد الخیری عبدالحلیم شرر، نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم اور عظیم بیگ چغتائی اور دوسرے مسلمان دانشور تھے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں تعلیم نسواں کی حمایت کررہے تھے۔

ان میں سے کچھ نے لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے، کچھ نے عورتوں کے لیے رسالے نکالے اور ان رسالوں کے ذریعے مسلمان عورتوں میں سماجی اور تعلیمی شعور اور بیداری پیدا کی۔ ہندوستانی عورت کے لیے زمانے اور حالات کو بدلنے میں زنانہ رسائل نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔

اردو میں اس کام کی ابتدا بھی ایک عیسائی مشنری نے کی اور ''رفیق نسواں'' کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار جاری کیا لیکن بنگال میں یہ کام بہت پہلے شروع ہوچکا تھا اور 1850 سے 1914 کے دوران بنگالی خواتین 21سے زیادہ ادبی رسالے نکال رہی تھیں۔

مولوی سید احمد نے ہی '' رفیق نسواں '' کے فوراً بعد دلی سے عورتوں کے لیے ایک دس روزہ اخبار '' اخبار النساء '' جاری کیا لیکن لوگوں کی شدید مخالفت اور مالی مشکلات کی بناء پر یہ اخبار جلد ہی بند ہوگیا۔ 1880کی دہائی کے آخری برسوں میں حیدر آباد دکن سے مولوی محب حسین نے '' معلم نسواں '' نکالا جو 14 برس تک کامیابی سے ہر مہینے نکلتا رہا اور اسی میں عبد الحلیم شرر کا ناول '' بدرالنساء کی مصیبت '' قسط وار شایع ہوا تھا۔

مولوی ممتاز علی نے 1898 میں لاہور سے '' تہذیب نسواں'' نکالا جسے بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ رسالہ تقسیم کے بعد تک نکلتا رہا اور خواتین کے اہم ترین رسالوں میں سے ایک ہے۔ اس نے پنجاب میں تعلیم نسواں کو عام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لاہور سے ہی '' شریف بی بی'' اور ''خاتون'' نکلے لیکن یہ زیادہ دنوں زندہ نہیں رہ سکے۔

کچھ یہی حال بھوپال سے نکلنے والے رسالوں ''حجاب'' اور '' ظل السلطان '' کا بھی ہوا۔ لاہور کی ایک نامور شخصیت اور'' مخزن '' کے مدیر سر شیخ عبدالقادر کی تحریک پر علامہ راشد الخیری نے 1908 میں دلی سے ماہنامہ '' عصمت'' جاری کیا۔

'' تہذیب نسواں '' کی طرح ماہنامہ ''عصمت '' بھی ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ علامہ راشد الخیری اور پاکستان بننے کے بعد ان کے بیٹے رازق الخیری نے ''عصمت'' کی اشاعت کو شدید مشکلات کے باوجود جاری رکھا۔

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے یہ دین دار اور مذہبی اعتبار سے عالم و فاضل افراد ہیں جنھوں نے درد مندی سے عورتوں میں تعلیم عام کرنے کے لیے کام کیا ، کفر کے فتوؤں اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کیا اور پھر بھی اپنے عزم میں اٹل رہے۔

میں ان کی زندگیوں پر نظر کرتی ہوں تو اکیسویں صدی کے وہ علماء میری سمجھ میں نہیں آتے جو اپنے علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن لگاتے ہیں اور ان کے اسکولوں کو نذرآتش کراتے ہیں۔ یہ لوگ جو علماء ہونے کے دعویدار ہیں کیا ان علماء سے اور متدین افراد سے زیادہ دین دار ہیں جنھوں نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمان عورت کو جہالت اور پستی کی دلدل سے نکالا تھا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔

آج ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بڑی تیز رفتار انداز سے ترقی کر رہی ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے انسانی وسائل کو بہترین اور منظم طریقے سے کام میں لارہا ہے وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔

آج بھی لوگ بچیوں کو تعلیم دلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی با معنی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ جان لیا جائے کہ ہم جب تک عورتوں پر مشتمل اپنی آدھی آبادی کی معاشی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم معاشی پسماندگی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

معاشی بحران یونہی آتے رہیں گے اور ہم کاسہ گدائی لیے دنیا میں مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ اپنی آدھی آبادی کو بے کار رکھ کر ترقی کے خواب دیکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟
Load Next Story