مہنگائی کا ہمالیہ عوام کو ریلیف دیا جائے
ریلیف پیکیج کا اعلان توکر دیا گیا مگر عمل درآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے عوام میں ابہام اور تحفظات پائے جاتے ہیں
وفاقی حکومت نے رمضان پیکیج کے تحت غریب گھرانوں کو مفت آٹا فراہم کرنے کی منظوری دے دی، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ماہ رمضان میں روزہ داروں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں۔ پنجاب ماڈل کی طرز پر ملک بھر میں رمضان پیکیج کی غریب عوام کو فراہمی کے لیے وفاق صوبوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔
ایک طرف معیشت سدھارنے کے لیے آئی ایم ایف کی تلوار تو دوسری جانب غریب عوام پر مسلسل مہنگائی کے وار جاری ہیں۔ مہنگائی کا جن حکومت کے قابو سے باہر ہے ، حکومت کے پاس فی الحال مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اس طرح کا ریلیف پیکیج دینے کے سوا کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔
ریلیف پیکیج کا اعلان توکر دیا گیا مگر عمل درآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے عوام میں ابہام اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔
رمضان کے دوران ویسے ہی گرانفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوجاتی ہے، اب ان حالات میں جب کہ ماہ صیام میں پندرہ دن باقی ہیں ، مہنگائی کس حد تک بڑھے گی اس کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا کہ لوگ کس طرح سے ماہ صیام کے دوران اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے ؟
یہ مفت آٹا کیسے فراہم کیا جائے گا، اس کا میکنزم سامنے نہیں آیا ہے اور کتنے ارب اس ریلیف پر خرچ کردیے جائیں گے۔ یادش بخیر جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ، تو تندوروں کو سستا آٹا فراہم کر کے سستی روٹی اسکیم چلائی گئی ، یوں بیشتر گھروں میں روٹی گھر میں پکانے کے بجائے تندور سے خریدنے کا چلن عام ہوا۔
اسی طرح پچھلی حکومت نے لنگر خانے قائم کیے تھے، جہاں غریبوں کے نام پر کام چور افراد نے خوب مزے کیے ، اس طرح کے پیکیجز پر اربوں روپے خرچ بھی ہوگئے، لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ آخر حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیوں نہیں کررہی ، تاکہ غریب کے ساتھ متوسط طبقے کے افراد کو بھی مناسب قیمت پر اشیائے خورونوش کی خریداری پر یکساں ریلیف ملے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اسی طرح فلاحی تنظیموں کے مالی معاملات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بڑے اضافے نے مہنگائی کو ایک مہلک بحران میں تبدیل کر دیا ہے پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کی ضروریات زندگی کی خریداری میں معاشی مشکلات کا ہمالیہ کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اشیائے خور و نوش سے لے کر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق خدشہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے یہ اعداد و شمار کس حد تک برے یا اچھے ہیں یہ اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ کو شاید معلوم نہیں لیکن یہ اعداد و شمار ایک عام شہری کی سمجھ میں ضرور آتے ہیں جب وہ یوٹیلٹی بل جمع کرواتا ہے یا پھر مارکیٹ میں گھی سبزی ، پھل ، گوشت اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے اسے اپنی جیب ہلکی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
یہ ادراک اب عام آدمی کو بھی ہے کہ مہنگائی ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے مشروط معاہدے کے تحت تیل کی قیمت کو کنٹرول کرنا از حد مشکل ہے اور اس صورتحال میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعوؤں میں فی الحال کوئی صداقت نظر نہیں آتی اور اس حوالے سے دور دور تک حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے۔
حکومتی بیانات اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہے ہیں اب ڈالر اور تیل کی قیمتوں نے جو اڑان بھری ہے اس سے عوام کے اعصاب پر مزید مہنگائی کا جو عفریت نازل ہو چکا ہے اس سے یقیناً عوام حکومتی اقدامات سے مزید بد دل ہو جائیں گے۔
اس وقت ملک بدترین معاشی بد حالی سے دوچار ہو چکا ہے ملک دیوالیہ ہونے کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے اللہ نہ کرے وطن عزیز کو ڈیفالٹ ہونے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے لیکن حالات ایسے ہیں کہ خزانہ خالی ہے اور ریاستی امور چلانے کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
معاشی زبوں حالی کے سونامی نے عوام کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے گو حکومت اپنے معاملات چلانے کے لیے ایسے اقدامات سے گریز نہیں کر رہی لیکن عام آدمی سمجھتا ہے کہ حکومت مفاد عامہ کے برعکس فیصلے کر رہی ہے اور ایسے حالات میں عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو اتحادی حکومت کے لیے فکر مند اشارہ ہے۔
ضروری ہے حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کے مسئلہ پر اے پی سی بلائے اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو اس مسئلہ کے حل کے لیے مل بیٹھنے کی دعوت دے ، اس سے سیاسی تلخیاں کم ہوں گی اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بھی معاونت ملے گی۔
حکومت کو ادراک کرنا چاہیے کہ ایمان دار اور پر عزم قیادت کے فقدان کے باعث قومی خزانے اور قومی وسائل کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا وہ اب عام آدمی کے ذہن کی در دیوار پر نقش ہے ملک میں پیدا ہونے والے نومولود کی سانسیں تک عالمی اداروں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اس وقت معاشی ناؤ ڈوب رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ تلے دب کر آخری سانسیں لے رہے ہیں۔
کمر شکن مہنگائی ، بے روزگاری 'دہشت گردی' انصاف کی عدم دستیابی 'بد عنوانی' کرپشن اور لاقانونیت کا اژدھا پھن پھلائے بہت کچھ نگلنے کو تیار ہے اور عوام کو پل پل ذہنی ' قلبی اور اعصابی اذیت سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے مہنگائی مزید بڑھے گی تو عوام بلبلا اٹھیں گے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام تو پہلے ہی حکومتوں کی دی گئی جمہوریت کے عوض حیرت کدوں میں جمہوری لوازمات کی تلاش میں سر پھٹک رہی ہے لیکن انھیں کہیں ریلیف کی جھلک تک دکھائی نہیں دے رہی اگر یہ حکومت بھی عوام کو دل پذیر نعروں کی بھینٹ چڑھائے گی تو پھر کون سا مسیحا آئے گا۔
حکومتی مشینری مہنگائی قابو کرنے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مہنگائی میں اضافے کی سہولت کار کے طور پر کام کر رہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ مہنگائی میں اضافے کے بنیادی طور پر ذمے دار مافیاز ہیں جنھیں سزا دینے کی حکمت عملی منظر عام پر نہیں آتی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ جان بوجھ کر مہنگائی کرنے والوں کے خلاف پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس موجود ہے ، جس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی، یا ان میں ملاوٹ کی صورت میں ملوث افراد کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔
موجودہ حکومت نے اپنے نعروں سے لے کر اقتدار میں آنے تک کے دوران عوامی مسائل کو حل کرنے کی امید جگائی اور وعدے کیے تھے تو محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید پاکستان کے غریب عوام کی قسمت بدل جائے گی۔
حالات و نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کو کچھ تو ریلیف ملے گا انصاف کی فراہمی ممکن ہو گی لیکن ایسا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر غریب کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں تو غریب کے ووٹ کی خاطر یہی حکمران اس کی دہلیز تک کیوں جاتے ہیں۔
پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ،آٹے اور چینی اور گھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سبزی اور دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔
ایسے حالات میں تو یوں لگتا کہ جیسے غریب کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عام آدمی کی فکر معاش کے ساتھ یہ اضافی بوجھ ڈال کر حکومت کو لگتا ہے کہ ہر ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔
غربت کی وجہ سے چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ اور غربت کے ہاتھوں مجبور بے روزگار نوجوانوں کا ہجوم کسی طرح شارٹ کٹ سے زندگی آسان کرنے کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو عذاب بنا رہے ہیں اور ہمارے وزراء سب اچھا ہے کی گردان لیے بیٹھے ہیں ان کو اندازہ ہی نہیں ملک میں غربت کے باعث خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہونے والی ہے ۔
حکومت اور اپوزیشن کے ہمیشہ کی طرح اختلافات نے عوام کو پاگل بنایا ہوا ہے۔ عوام کا اصل مسئلہ الیکشن نہیں مہنگائی ہے جس نے اس وقت کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کو صرف اجاگر کر کے اپنی سیاست چمکانے کے بجائے ان غلطیوں کو سدھارنے اور اصلاحات کی کوشش کرے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
گو حالات مشکل ترین ہیں لیکن حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف فراہم کرے کیوں کہ حکومتی اقدامات کے ساتھ عوام اور نسل نو کا مستقبل وابستہ ہے۔ روٹی ، کپڑا ، مکان' تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری میں شامل ہے۔
عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جو عوام کی آنکھوں میں خوش کن سہانے خواب چنے ہیں انھیں ٹوٹنے سے بچائیں لوگ ملکی ترقی و خوشحالی جیسے اقدامات اٹھانے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عوام کی ترجیحات کے بر عکس فیصلے نہ کریں۔
ایک طرف معیشت سدھارنے کے لیے آئی ایم ایف کی تلوار تو دوسری جانب غریب عوام پر مسلسل مہنگائی کے وار جاری ہیں۔ مہنگائی کا جن حکومت کے قابو سے باہر ہے ، حکومت کے پاس فی الحال مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اس طرح کا ریلیف پیکیج دینے کے سوا کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔
ریلیف پیکیج کا اعلان توکر دیا گیا مگر عمل درآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے عوام میں ابہام اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔
رمضان کے دوران ویسے ہی گرانفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوجاتی ہے، اب ان حالات میں جب کہ ماہ صیام میں پندرہ دن باقی ہیں ، مہنگائی کس حد تک بڑھے گی اس کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا کہ لوگ کس طرح سے ماہ صیام کے دوران اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے ؟
یہ مفت آٹا کیسے فراہم کیا جائے گا، اس کا میکنزم سامنے نہیں آیا ہے اور کتنے ارب اس ریلیف پر خرچ کردیے جائیں گے۔ یادش بخیر جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ، تو تندوروں کو سستا آٹا فراہم کر کے سستی روٹی اسکیم چلائی گئی ، یوں بیشتر گھروں میں روٹی گھر میں پکانے کے بجائے تندور سے خریدنے کا چلن عام ہوا۔
اسی طرح پچھلی حکومت نے لنگر خانے قائم کیے تھے، جہاں غریبوں کے نام پر کام چور افراد نے خوب مزے کیے ، اس طرح کے پیکیجز پر اربوں روپے خرچ بھی ہوگئے، لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ آخر حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیوں نہیں کررہی ، تاکہ غریب کے ساتھ متوسط طبقے کے افراد کو بھی مناسب قیمت پر اشیائے خورونوش کی خریداری پر یکساں ریلیف ملے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اسی طرح فلاحی تنظیموں کے مالی معاملات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔
حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بڑے اضافے نے مہنگائی کو ایک مہلک بحران میں تبدیل کر دیا ہے پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی کی ضروریات زندگی کی خریداری میں معاشی مشکلات کا ہمالیہ کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اشیائے خور و نوش سے لے کر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق خدشہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے یہ اعداد و شمار کس حد تک برے یا اچھے ہیں یہ اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ کو شاید معلوم نہیں لیکن یہ اعداد و شمار ایک عام شہری کی سمجھ میں ضرور آتے ہیں جب وہ یوٹیلٹی بل جمع کرواتا ہے یا پھر مارکیٹ میں گھی سبزی ، پھل ، گوشت اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے اسے اپنی جیب ہلکی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
یہ ادراک اب عام آدمی کو بھی ہے کہ مہنگائی ایک گمبھیر مسئلہ بن چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے مشروط معاہدے کے تحت تیل کی قیمت کو کنٹرول کرنا از حد مشکل ہے اور اس صورتحال میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعوؤں میں فی الحال کوئی صداقت نظر نہیں آتی اور اس حوالے سے دور دور تک حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے۔
حکومتی بیانات اس کی بے بسی کو ظاہر کر رہے ہیں اب ڈالر اور تیل کی قیمتوں نے جو اڑان بھری ہے اس سے عوام کے اعصاب پر مزید مہنگائی کا جو عفریت نازل ہو چکا ہے اس سے یقیناً عوام حکومتی اقدامات سے مزید بد دل ہو جائیں گے۔
اس وقت ملک بدترین معاشی بد حالی سے دوچار ہو چکا ہے ملک دیوالیہ ہونے کی بازگشت بھی سنی جا رہی ہے اللہ نہ کرے وطن عزیز کو ڈیفالٹ ہونے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے لیکن حالات ایسے ہیں کہ خزانہ خالی ہے اور ریاستی امور چلانے کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
معاشی زبوں حالی کے سونامی نے عوام کو بے یقینی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے گو حکومت اپنے معاملات چلانے کے لیے ایسے اقدامات سے گریز نہیں کر رہی لیکن عام آدمی سمجھتا ہے کہ حکومت مفاد عامہ کے برعکس فیصلے کر رہی ہے اور ایسے حالات میں عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو اتحادی حکومت کے لیے فکر مند اشارہ ہے۔
ضروری ہے حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کے مسئلہ پر اے پی سی بلائے اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو اس مسئلہ کے حل کے لیے مل بیٹھنے کی دعوت دے ، اس سے سیاسی تلخیاں کم ہوں گی اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بھی معاونت ملے گی۔
حکومت کو ادراک کرنا چاہیے کہ ایمان دار اور پر عزم قیادت کے فقدان کے باعث قومی خزانے اور قومی وسائل کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا وہ اب عام آدمی کے ذہن کی در دیوار پر نقش ہے ملک میں پیدا ہونے والے نومولود کی سانسیں تک عالمی اداروں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں اس وقت معاشی ناؤ ڈوب رہی ہے ادارے خساروں کے بوجھ تلے دب کر آخری سانسیں لے رہے ہیں۔
کمر شکن مہنگائی ، بے روزگاری 'دہشت گردی' انصاف کی عدم دستیابی 'بد عنوانی' کرپشن اور لاقانونیت کا اژدھا پھن پھلائے بہت کچھ نگلنے کو تیار ہے اور عوام کو پل پل ذہنی ' قلبی اور اعصابی اذیت سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے مہنگائی مزید بڑھے گی تو عوام بلبلا اٹھیں گے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام تو پہلے ہی حکومتوں کی دی گئی جمہوریت کے عوض حیرت کدوں میں جمہوری لوازمات کی تلاش میں سر پھٹک رہی ہے لیکن انھیں کہیں ریلیف کی جھلک تک دکھائی نہیں دے رہی اگر یہ حکومت بھی عوام کو دل پذیر نعروں کی بھینٹ چڑھائے گی تو پھر کون سا مسیحا آئے گا۔
حکومتی مشینری مہنگائی قابو کرنے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مہنگائی میں اضافے کی سہولت کار کے طور پر کام کر رہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ مہنگائی میں اضافے کے بنیادی طور پر ذمے دار مافیاز ہیں جنھیں سزا دینے کی حکمت عملی منظر عام پر نہیں آتی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ جان بوجھ کر مہنگائی کرنے والوں کے خلاف پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس موجود ہے ، جس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی، یا ان میں ملاوٹ کی صورت میں ملوث افراد کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔ لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔
موجودہ حکومت نے اپنے نعروں سے لے کر اقتدار میں آنے تک کے دوران عوامی مسائل کو حل کرنے کی امید جگائی اور وعدے کیے تھے تو محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید پاکستان کے غریب عوام کی قسمت بدل جائے گی۔
حالات و نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کو کچھ تو ریلیف ملے گا انصاف کی فراہمی ممکن ہو گی لیکن ایسا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر غریب کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں تو غریب کے ووٹ کی خاطر یہی حکمران اس کی دہلیز تک کیوں جاتے ہیں۔
پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ،آٹے اور چینی اور گھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سبزی اور دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔
ایسے حالات میں تو یوں لگتا کہ جیسے غریب کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ عام آدمی کی فکر معاش کے ساتھ یہ اضافی بوجھ ڈال کر حکومت کو لگتا ہے کہ ہر ایک خوشحال زندگی بسر کر رہا تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔
غربت کی وجہ سے چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ اور غربت کے ہاتھوں مجبور بے روزگار نوجوانوں کا ہجوم کسی طرح شارٹ کٹ سے زندگی آسان کرنے کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو عذاب بنا رہے ہیں اور ہمارے وزراء سب اچھا ہے کی گردان لیے بیٹھے ہیں ان کو اندازہ ہی نہیں ملک میں غربت کے باعث خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہونے والی ہے ۔
حکومت اور اپوزیشن کے ہمیشہ کی طرح اختلافات نے عوام کو پاگل بنایا ہوا ہے۔ عوام کا اصل مسئلہ الیکشن نہیں مہنگائی ہے جس نے اس وقت کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کو صرف اجاگر کر کے اپنی سیاست چمکانے کے بجائے ان غلطیوں کو سدھارنے اور اصلاحات کی کوشش کرے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
گو حالات مشکل ترین ہیں لیکن حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف فراہم کرے کیوں کہ حکومتی اقدامات کے ساتھ عوام اور نسل نو کا مستقبل وابستہ ہے۔ روٹی ، کپڑا ، مکان' تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری میں شامل ہے۔
عوام کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور آئین پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جو عوام کی آنکھوں میں خوش کن سہانے خواب چنے ہیں انھیں ٹوٹنے سے بچائیں لوگ ملکی ترقی و خوشحالی جیسے اقدامات اٹھانے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عوام کی ترجیحات کے بر عکس فیصلے نہ کریں۔