خیبر پختون خوا علمی آزادی کا ادارہ خطرہ میں
اب یونیورسٹی اساتذہ اور پولیس کے سپاہی کے درمیان فرق ختم ہوگیا ہے
عمران خان ، اسد عمر اور ڈاکٹر عارف علوی جب تحریک انصاف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی جستجو میں مصروف تھے تو آزادئ اظہار، آزادئ صحافت اور تعلیمی اداروں میں علمی آزادی کے تحفظ کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتے تھے مگر جب تحریک انصاف پہلے خیبر پختون خوا، پھر وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار آئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ تحریک انصاف کا دور آزادئ صحافت، آزادئ اظہار اور علمی آزادی کے تناظر میں بدترین دور رہا۔
پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی تحریک انصاف کی حکومت کی علمی آزادی کو کچلنے کی پالیسی کا آخری شکار ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل احمد چترالی سوشیالوجی کے استاد ہیں۔
ڈاکٹر جمیل نے 2013 میں پشاور یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، وہ بنیادی طور پر Social Anthropology کے اسپیشلسٹ ہیں۔ ڈاکٹر جمیل کی نگرانی میں وسطی ایشیاء کے بارے میں کئی تحقیقی پروجیکٹ مکمل ہوئے ہیں۔
انھوں نے سویڈن کی یونیورسٹی University of Lund سے جینڈر اسٹڈیز کے موضوع پر ایم ایس کا ایک کورس بھی کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر جمیل اساتذہ کی تنظیم کاری کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں ، وہ پشاور یونیورسٹی کی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں ۔ پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ نے متعدد بار انھیں پشاور یونیورسٹی کے بنیادی اداروں سینیٹ ، سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل کا رکن منتخب کیا ہے۔
ڈاکٹر جمیل چترالی کی مسلسل کوششوں کی بنیاد پر خیبر پختون خوا کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ U.N.D.Pسے پشاور یونیورسٹی کے مختلف پروجیکٹس کے لیے 60 ملین روپے جمع کیے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل، خیبر پختون خوا اور خطہ میں امن کی تحریک کے بنیادی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ڈرامیٹک سوسائٹی قائم کی۔ ڈاکٹر جمیل اسکرپٹ لکھتے ہیں۔
انھوں نے امن کے موضوع پر آغا خان آڈیٹوریم میں ایک اسٹیج ڈرامہ کیا تھا، وہ اداکاری بھی کرتے رہے ہیں اور ان کے ڈرامے پی ٹی وی پر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل کے اب تک 37 ریسرچ پیپرز بین الاقوامی اور قومی ریسرچ جرنلز میں شایع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل چترالی کی تدریسی اور غیر تدریسی سرگرمیاں پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ اور پھر تحریک انصاف کی حکومت کو پسند نہیں تھیں، یوں ڈاکٹر جمیل چترالی عتاب کا شکار رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے خلاف مختلف فروعی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ کسی شخص کو ڈاکٹر جمیل کے خیالات برے لگتے تھے۔
اس شخص نے ڈاکٹر جمیل کے خیالات کو ملکی سالمیت کے لیے خطرناک جانا۔ اس شخص اور اس کے ہم نواہوں کو ڈاکٹر جمیل کے خیالات سے نظریہ پاکستان کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔
اس ملک میں علمی آزادی کو محدود کرنے کی تاریخ سے واقف ایک دانا شخص خالد چراغ نے Facebook میں لکھا ہے کہ انتظامیہ نے پہلے ڈاکٹر جمیل کے خلاف مالیاتی بدعنوانی کا جرم تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر جب ڈاکٹر جمیل کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہ ملا تو پھر وہ عام آزمودہ اور کارآمد نسخہ استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر جمیل کے خلاف نظریہ پاکستان پر تنقید کا الزام لگایا گیا ، ڈاکٹر جمیل کے خلاف گورنر نے تحقیقاتی ٹیم (J.I.T ) بنائی ۔
اس جے آئی ٹی میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ مبہم ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی سینیٹ اس معاملہ میں تذبذب کا شکار ہے۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر جمیل کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ان کی ماضی کی کچھ پوسٹوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
اساتذہ کی منتخب تنظیموں نے گورنر کی انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (FAPUASA) اور پشاور یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ، اس رپورٹ کو اساتذہ کی کردار کشی کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر جمیل پہلے استاد نہیں جنھیں سچے نظریات ، حقائق اور درس حقائق پیش کرنے کی سزا دی جارہی ہے بلکہ گزشتہ 76برسوں میں ایک منصوبہ کے تحت روشن خیال اساتذہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر ظفر عارف (مرحوم )، ڈاکٹر عمار جان، ڈاکٹر ضیغم عباس اور جنید حفیظ وغیرہ بھی گزشتہ 10 برسوں میں ایسے ہی جبر کا شکار ہوئے ہیں مگر گزشتہ صدی میں پروفیسر ایرک سپرین، پروفیسر امین مغل، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر کرار حسین ، ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر مہدی حسن وغیرہ ایسے ہی الزامات کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں سے بے دخل کیے گئے تھے مگر اس تعلیم کش پالیسی کی ملک کو بھاری قیمت دینی پڑی اور یونیورسٹیاں بانجھ ہوگئیں۔
پروفیسر جمیل احمد علمی آزادی کے حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیاں اس لیے دیگر تعلیمی اداروں سے منفرد حیثیت رکھتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ آزادی سے تحقیق کرتے ہیں اور اس تحقیق کی بنیاد پر نئے خیالات پیش کرتے ہیں، یوں تخلیق کے ذریعہ نئے نظریات جنم لیتے ہیں اور یہ نظریات ہی ریاست کے دیگر اداروں کی رہنمائی کرتے ہیں ، اگر ڈاکٹر جمیل کو سزا دی گئی تو تخلیقی عمل رک جائے گا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی ملازمتوں کو لازمی سروس کے قانون کے دائرہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اساتذہ کو اس قانون کے دائرہ میں شامل کرنے کا مطلب اساتذہ سے تنظیم سازی کا حق چھیننا ہی نہیں بلکہ اساتذہ کے آزادئ اظہار کے حق کو بھی سلب کرنا ہے۔
اب یونیورسٹی اساتذہ اور پولیس کے سپاہی کے درمیان فرق ختم ہوگیا ہے۔ یہ قانون علمی آزادی کے ادارہ کو مکمل طور پر ختم کرتا ہے ، اگر یہ قانون باقی رہا تو یونیورسٹیوں میں علمی آزادی کا ادارہ مرجھا جائے گا جس کا اس بانجھ معاشرہ کو کتنا نقصان ہوگا ، یہ بات ارباب اختیار کے سوچنے کی ہے۔