پی ٹی آئی خطرناک اور لا علاج بیماری

عمران خان اوراس کے فالوروزاس ملک میں تبدیلی لانے میں کامیاب تونہ ہوئے لیکن ان کی اپنی سیاست میں بڑی تبدیلی آگئی ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

مسلک اہلحدیث کے عظیم عالم دین علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے فرزند ارجمند نامور عالم دین علامہ ہشام الٰہی ظہیر کی ایک ٹویٹ نظروں سے گزری، جس نے پی ٹی آئی سے متعلق ہمارے موقف کی تائید کردی۔

علامہ صاحب نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ''بنیادی طور پر پی ٹی آئی پاکستانی معاشرے میں ایک نیا فرقہ ہے جسے یوں مذہبی ٹچ کے ساتھ لانچ کیا گیا کہ وہ ہر شخص جو خان کے ساتھ متفق نہیں وہ چور، ڈاکو، بے ایمان، منافق ہے اور ہر وہ بے ایمان شخص جو خان کا حامی ہے پاک پوتر پارسا ہے۔ یہ طرز سیاست نہ دینی، نہ جمہوری، نہ اخلاقی۔ یہ ہے فقط ایک بیماری۔''


نبض شناس علامہ ہشام الٰہی ظہیر نے نبض دیکھ کر درست تشخیص کی ہے۔ مرض بہت ہی بھیانک ہے اور وائرل ہے جو معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے جا رہا ہے لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس مرض کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ اگر مرض لاحق ہوگیا ہے تو مریض اپنا علاج کرانے کو تیار ہی نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے وہ کون لوگ ہیں جو اس مرض میں مبتلا ہیں اور اسے بڑھاوا دینے کا باعث بن رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ معاشرے کا ایک جذباتی طبقہ اور عمران خان نیازی کے فین اس مرض میں مبتلا ہیں اور وہی اسے بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاست ان ہی جذباتی عوام کی وجہ سے اب تک زندہ ہے اور چونکہ عمران خان بھی پاکستانی عوام کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ اپنی سیاست میں مستقل ''اسلامی ٹچ'' اور ''حب الوطنی کارڈ'' کا استعمال کرکے عوام کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی اس ''سیاست'' کا کھل کر پرچار اس وقت زیادہ شد و مد سے کرنا شروع کیا جب ان کے اقتدارکی کشتی ہچکولے کھانا شروع ہوچکی تھی حالانکہ انھوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں جو کچھ بویا تھا، اب اسے کاٹنے کا وقت شروع ہوچکا تھا لیکن اقتدار چھینتا ہوا نظر آیا تو عمران خان نے اسے بیرونی سازش قرار دے کر لوگوں کے امریکا مخالف جذبات کو آگ دکھانے کی کوشش کی۔

جب بعد میں یاد آیا کہ اگر دوبارہ اقتدار تک پہنچنا ہے تو امریکا سے بگاڑنا اس کے راہ کی رکاوٹ بن سکتی ہے تو فوری طور پر یوٹرن لے لیا اور کہا کہ مجھے تو اب پتا چلا ہے کہ مجھے نکالنے میں بیرونی ہاتھ نہیں تھا بلکہ اندرونی ہاتھ تھا۔ اس کے بعد سے اب تک عمران خان نہایت ہٹ دھرمی سے اداروں پر وار کررہے ہیں، سابق اور موجودہ آرمی آفیسرز پر الزامات کی پٹاری کھولے بیٹھے ہیں۔

ان کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف جیل بھرو تحریک شروع کردی اور کارکنوں کو کہا کہ گرفتاریاں پیش کرو، دوسری طرف خود زمان پارک میں چھپ کر بیٹھ گئے اور اپنے گھر کے باہر خواتین کو بٹھا دیا تاکہ کوئی پکڑنے آئے توان خواتین کو حفاظتی حصار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ چند روز قبل جب وہ پنجاب الیکشن کی مہم کا آغاز کررہے تھے۔

اس وقت اپنے خطاب میں ایک طرف کہتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کورٹ مارشل کرو دوسری طرف کہتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف مجھ سے ملتے نہیں، اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے عمران خان مذہب کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کبھی نہیں چوکتے اور ان کے حواری بھی انھیں ''اسلامی ٹچ'' کا مشورہ دیتے رہتے ہیں جب کہ خود عمران خان اس ملک کی تمام دینی قوتوں کے سرخیل پی ڈی ایم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ کوئی اسے سمجھائے کہ مولانا کا تو اوڑھنا بچھونا ہی اسلام ہے وہ کیوں نہ اسلام کا نام لیں۔

بدقسمتی کی بات ہے ہمارے بھولے بھالے عوام جو ہمیشہ سے ہی جذباتی مذہبی نعروں اور حب الوطنی کے نام پر بلیک میل ہوتے آئے ہیں، عمران خان کی مردہ سیاست کو پھر سے زندہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے عوام کا وہ ''جذباتی پوائنٹ'' ہے جس کو ہر سیاستدان نے ہر دور میں خوب خوب استعمال کیا ہے اور ستر سال سے یہ نعرہ خوب اثر دکھاتا رہا ہے۔


کوئی مذہبی جماعت کا رہنما یہ نعرہ لگائے تو سمجھ آتی ہے، کوئی عالم دین، مشائخ میں سے کوئی شیخ یہ نعرہ لگائے تو سمجھ آتی ہے، جب ایک ایسا سیاستدان مذہبی ٹچ کی بات کرے جو تقریروں میں یورپی نظام حکومت کی تعریف کرے۔

بلاشبہ مذہب کارڈ کا استعمال ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، لیکن عمران خان نے جس انداز سے اس کارڈ کا استعمال کیا ہے اور نوجوانوں کے جذبات کو ابھارا ہے، خدشہ ہے کہ یہ کارڈ اس بار اپنا منفی رخ پوری شدت سے دکھائے گا اور ملک میں ''نفرت اور شدت پسندی'' کی وہ آگ بھڑک اٹھے گی جس کا بجھایا جانا ممکن نہ ہوگا۔ عمران خان نے سیاست کو اس رخ پر ڈال دیا ہے جہاں سے پیچھے آنا بڑا مشکل کام ہوگا۔

ان کے فالوورز میں زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جنھوں نے پاکستانی سیاست کا صرف ایک رخ دیکھا ہے۔ عمران خان جب سیاست میں آئے تو یہ فالوورز نیپیاں پہنا کرتے تھے، اور اب ان میں سے اکثر جوان ہوکر عمران خان کی شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں۔

ان پرستاروں یا دوسرے معنوں میں عمران خان کے پجاریوں کے سامنے عقلی دلائل یا حقائق کا تذکرہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ ان پرستاروں کی سوچ صرف اس بات سے شروع ہوکر اس پوائنٹ پر ہی ختم ہوجاتی ہے کہ عمران خان ہی واحد ''سچا اور ایماندار'' لیڈر ہے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی برائی یا مخالفت یہ برداشت نہیں کرسکتے۔

اسی لیے برادرم علامہ ہشام الٰہی ظہیر جیسے سنجیدہ عالم دین بھی اس حساس مسئلے پر خاموش نہ رہ سکے انھوں نے ٹویٹ کرکے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کو ایک فرقہ قرار دیا حالانکہ میری نظر میں یہ فرقہ نہیں بلکہ ایک انتشار ہے۔ جس نے معاشرے سے پیار، محبت، بھائی چارے، اخوت، رواداری اور برداشت کو ختم کرکے رکھ دیا۔

ان کی جگہ نفرت، بغض، عداوت، عدم برداشت، شریفوں کی پگڑیاں اچھالنا جیسے کاموں نے لے لی ہے، جو پی ٹی آئی ورکرز کا خاصا ہے۔ ان حرکتوں کی وجہ سے آج ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی قوتیں لکیر کے ایک طرف متحد کھڑی ہیں اور پی ٹی آئی لکیر کے دوسری طرف تنہا کھڑی ہے۔ جہاں سے اس کا قائد عمران خان کبھی امریکا کو صدائیں دے رہا ہے۔ کبھی آرمی چیف کو پکار رہا ہے، اور اب تو اپنے تمام مخالف سیاستدانوں سے بات چیت پر بھی تیار ہوگیا ہے۔

عمران خان اور اس کے فالوروز اس ملک میں تبدیلی لانے میں کامیاب تو نہ ہوئے لیکن ان کی اپنی سیاست میں بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اسی لیے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے کفار مکہ کے ساتھ جو حسن سلوک کیا تھا اسی کی مثالیں دی جارہی ہیں۔

عمران خان ہمیشہ غلط ٹائم پر غلط مثالیں دینے کے عادی ہیں، اگر انھیں اسلامی تاریخ سے مثالیں دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو مولانا فضل الرحمان کی شاگردی اختیار کریں وہ آپ کو دین بھی سکھائیں گے اور اسلامی تاریخ سے بھی روشناس کرائیں گے، ممکن ہے مولانا آپ کو سیاست کے گر بھی بتا دیں۔

جب تک آپ اس مشورہ پر عمل نہیں کرتے تب تک آپ مت بھولیں کہ آپ ایک شکست خوردہ سیاستدان ہیں، اور شکست خوردہ کے پاس منوانے کے آپشنز نہیں ہوتے صرف ماننے کا آپشن ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاست آپ کی مرضی سے نہیں چلے گی بلکہ اس ملک کی حقیقی سیاسی و مذہبی قیادت کی مرضی اور منشا کے مطابق چلے گی۔
Load Next Story