کیا آئی ایم ایف ہی حل ہے
تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے
پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک منظرنامہ تو داخلی ہے، جس سے شناسائی کے لیے کسی قسم کے تردد کی ضرورت نہیں۔ وہ تمام پاکستانی جن کا تعلق ملک کی اشرافیہ اور معاشی اعتبار سے ایلیٹ کلاس سے نہیں، وہ اس بدحالی کو خود بُھگت رہے ہیں اور ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ کچھ اس انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ مناسب ردعمل کے اظہار کی قوت بھی سلب ہوگئی اور ہرکوئی اُمید و بیم کی حالت میں اپنے آپ سے اُلجھ رہا ہے۔
دوسری طرف ہماری معاشی حالت کا ایک پس منظر ایسا بھی ہے جس کا تعلق عالمی معیشت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عالمی سیاسی کشمکش میں معیشت کے استعمال کے ساتھ ہے۔ عالمی سیاسی معیشت کی کشمکش کے اثرات اُن ملکوں کو زیادہ سہنے پڑتے ہیں، اپنی معیشت کے لیے جن کا انحصار خود اپنے زیادہ سے دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک اس وقت جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور چین میں بڑھتا ہوا تناؤ عالمی سطح پر مقروض ملکوں کی داد رسی کے لیے تجویز کیے گئے ممکنا حل پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔ کووڈ 19 کی عالمی وباء نے عالمی معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا تھا۔
دنیا نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس بلا سے چھٹکارا پایا تو یوکرین میں روسی فوجی کارروائی نے پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کو ایک اور کاری ضرب لگا دی۔
اس صورتحال سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن یوکرین کے معاملے پر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کا اشتراک عمل ناممکنات میں سے ہے، جب کہ ایک تیسری بڑی معیشت، روس خود جنگ کا ایک فریق ہے۔ لہٰذا کووڈ کے معاملے میں جو عالمی اتحاد وجود میں آگیا تھا اب اس کی کوئی توقع نہیں۔
اپریل 2020 میں جب عالمی معیشت مُنہ کے بل گر رہی تھی، جی۔ 20 تنظیم نے 'امریکا اور چین جس کا حصہ ہیں' فیصلہ کیا تھا کہ دنیا کے 73 غریب ملکوں کے وہ قرضے موخر کردیے جائیں جو مختلف ملکوں نے دو طرفہ سطح پر دیے ہوئے ہیں۔
دسمبر 2021 میں اس انتظام کو مزید موثر بنانے کے لیے جی۔ 20 ممالک کے ساتھ 'پیرس کلب' کو بھی شامل کرلیا گیا جو قرض دینے والے 22 ممالک کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ 1956 میں قائم کیے جانے والے اس گروپ کا مقصد قرض میں سہولت دینے کی درخواستوں پر مشترکہ موقف اختیار کرنا تھا۔
اس نئے انتظام کو 'کامن فریم ورک' کا نام دیا گیا تھا، لیکن یہ 'کامن فریم ورک' غریب ممالک کو کوئی فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی اس لیے ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضوں میں سہولت کے اس پروگرام پر امریکا اور چین متفق نہیں۔ امریکا نے میڈیا پر اور سفارتی سطح پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد چین کو ظالم قرض خواہ اور غریب ملکوں کو قرض کے جال میں پھانسنے والا ملک ثابت کرنا ہے۔
مثال کے طور پر سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ''چین سری لنکا کے قرضوں سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کو سبوتاژ کررہا ہے۔'' حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اعداد و شمار ایک بالکل مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ملکوں کو دیے اپنے 13.1 ارب کے کُل قرضوں کا 63 فیصد اپنے طور پر موخر کردیا تھا اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں آئی ایم ایف کی طرح کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فیصد ملک اپنے قرضوں کی قسط ادا کرنے کی یا تو استطاعت نہیں رکھتے یا پھر تیزی سے اس حالت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 1979-82 کے تین برسوں کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ پال والکر نے اچانک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 20 فیصد سے بھی زیادہ کردیا تھا۔
جس کے نتیجے میں مقروض ملکوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تنزانیہ کے سابق صدر جولیسن نائریری نے کہا تھا ''ہم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کو فاقہ کشی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔'' اس ایک اقدام نے اگلے 25 برس تک مقروض ملکوں کو بدترین حالات کا شکار کردیا تھا۔ بعد میں والکر نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی تھی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔
اس وقت غریب ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کا 21 فیصد چین، 11 فیصد پیرس کلب کے ممالک، 41 فیصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب کہ 23 فیصد نجی قرض خواہوں اور بانڈز مالکان کا ہے۔ امریکا کا حصہ محض 1.6 فیصد ہے لیکن امریکا کا رویہ ایسا ہے کہ ساری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔
امریکا کی اس من مانی کی اصل وجہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر اس کا کنٹرول ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک خود مختار ادارے ہیں لیکن درحقیقت امریکی سیاسی مفادات کے حصول میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب 'Confessions of an Economic Hitman` اس امریکی پالیسی پر ایک محکم شہادت ہے جس میں 'پرکنز' نے ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کرائی ہے۔ اس پالیسی کے تین بنیادی کردار عالمی مالیاتی ادارے، امریکا خود اور قرض حاصل کرنے والے ملک میں برسر اقتدار ٹولہ ہوتے ہیں۔ یہ تین کردار باہم مل کر کسی ملک کو اُس کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کرتے ہیں۔
ابھی چند روز پہلے چین کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین پریس بریفنگ میں امریکا کا نام لیے بغیر چینی ترجمان 'ماؤننگ' نے کہا ''پاکستان ،گھانا اور کئی دیگر ممالک جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، یہ سب مخصوص ترقی یافتہ ملک کا کیا دھرا ہے''۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان بدترین حالات میں بھی جو ملک حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آگے آئے ہیں ان میں چین،' ایران اور ازبکستان سرفہرست ہیں، حالانکہ ایران اور ازبکستان تو خود معاشی مسائل کا شکار ہیں۔
چین نے جہاں آئی ایم ایف کے برعکس غیر مشروط طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے وہیں ایران نے دو طرفہ تجارت کو پاکستان کی موافقت میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
پاکستان کے بالا دست طبقات اور مقتدر اشرافیہ اس بات کے تصور سے بھی گریزاں نظر آتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے چھٹکارا پانے کے کیا آپشنز ہو سکتے ہیں، انھیں تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے۔
دوسری طرف ہماری معاشی حالت کا ایک پس منظر ایسا بھی ہے جس کا تعلق عالمی معیشت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عالمی سیاسی کشمکش میں معیشت کے استعمال کے ساتھ ہے۔ عالمی سیاسی معیشت کی کشمکش کے اثرات اُن ملکوں کو زیادہ سہنے پڑتے ہیں، اپنی معیشت کے لیے جن کا انحصار خود اپنے زیادہ سے دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک اس وقت جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور چین میں بڑھتا ہوا تناؤ عالمی سطح پر مقروض ملکوں کی داد رسی کے لیے تجویز کیے گئے ممکنا حل پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔ کووڈ 19 کی عالمی وباء نے عالمی معیشت کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا تھا۔
دنیا نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس بلا سے چھٹکارا پایا تو یوکرین میں روسی فوجی کارروائی نے پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کو ایک اور کاری ضرب لگا دی۔
اس صورتحال سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن یوکرین کے معاملے پر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کا اشتراک عمل ناممکنات میں سے ہے، جب کہ ایک تیسری بڑی معیشت، روس خود جنگ کا ایک فریق ہے۔ لہٰذا کووڈ کے معاملے میں جو عالمی اتحاد وجود میں آگیا تھا اب اس کی کوئی توقع نہیں۔
اپریل 2020 میں جب عالمی معیشت مُنہ کے بل گر رہی تھی، جی۔ 20 تنظیم نے 'امریکا اور چین جس کا حصہ ہیں' فیصلہ کیا تھا کہ دنیا کے 73 غریب ملکوں کے وہ قرضے موخر کردیے جائیں جو مختلف ملکوں نے دو طرفہ سطح پر دیے ہوئے ہیں۔
دسمبر 2021 میں اس انتظام کو مزید موثر بنانے کے لیے جی۔ 20 ممالک کے ساتھ 'پیرس کلب' کو بھی شامل کرلیا گیا جو قرض دینے والے 22 ممالک کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ 1956 میں قائم کیے جانے والے اس گروپ کا مقصد قرض میں سہولت دینے کی درخواستوں پر مشترکہ موقف اختیار کرنا تھا۔
اس نئے انتظام کو 'کامن فریم ورک' کا نام دیا گیا تھا، لیکن یہ 'کامن فریم ورک' غریب ممالک کو کوئی فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی اس لیے ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضوں میں سہولت کے اس پروگرام پر امریکا اور چین متفق نہیں۔ امریکا نے میڈیا پر اور سفارتی سطح پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد چین کو ظالم قرض خواہ اور غریب ملکوں کو قرض کے جال میں پھانسنے والا ملک ثابت کرنا ہے۔
مثال کے طور پر سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ''چین سری لنکا کے قرضوں سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کو سبوتاژ کررہا ہے۔'' حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اعداد و شمار ایک بالکل مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ملکوں کو دیے اپنے 13.1 ارب کے کُل قرضوں کا 63 فیصد اپنے طور پر موخر کردیا تھا اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں آئی ایم ایف کی طرح کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فیصد ملک اپنے قرضوں کی قسط ادا کرنے کی یا تو استطاعت نہیں رکھتے یا پھر تیزی سے اس حالت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ 1979-82 کے تین برسوں کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ پال والکر نے اچانک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 20 فیصد سے بھی زیادہ کردیا تھا۔
جس کے نتیجے میں مقروض ملکوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تنزانیہ کے سابق صدر جولیسن نائریری نے کہا تھا ''ہم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کو فاقہ کشی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔'' اس ایک اقدام نے اگلے 25 برس تک مقروض ملکوں کو بدترین حالات کا شکار کردیا تھا۔ بعد میں والکر نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی تھی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔
اس وقت غریب ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کا 21 فیصد چین، 11 فیصد پیرس کلب کے ممالک، 41 فیصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب کہ 23 فیصد نجی قرض خواہوں اور بانڈز مالکان کا ہے۔ امریکا کا حصہ محض 1.6 فیصد ہے لیکن امریکا کا رویہ ایسا ہے کہ ساری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔
امریکا کی اس من مانی کی اصل وجہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر اس کا کنٹرول ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک خود مختار ادارے ہیں لیکن درحقیقت امریکی سیاسی مفادات کے حصول میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب 'Confessions of an Economic Hitman` اس امریکی پالیسی پر ایک محکم شہادت ہے جس میں 'پرکنز' نے ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کرائی ہے۔ اس پالیسی کے تین بنیادی کردار عالمی مالیاتی ادارے، امریکا خود اور قرض حاصل کرنے والے ملک میں برسر اقتدار ٹولہ ہوتے ہیں۔ یہ تین کردار باہم مل کر کسی ملک کو اُس کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کرتے ہیں۔
ابھی چند روز پہلے چین کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین پریس بریفنگ میں امریکا کا نام لیے بغیر چینی ترجمان 'ماؤننگ' نے کہا ''پاکستان ،گھانا اور کئی دیگر ممالک جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، یہ سب مخصوص ترقی یافتہ ملک کا کیا دھرا ہے''۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان بدترین حالات میں بھی جو ملک حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آگے آئے ہیں ان میں چین،' ایران اور ازبکستان سرفہرست ہیں، حالانکہ ایران اور ازبکستان تو خود معاشی مسائل کا شکار ہیں۔
چین نے جہاں آئی ایم ایف کے برعکس غیر مشروط طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے وہیں ایران نے دو طرفہ تجارت کو پاکستان کی موافقت میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
پاکستان کے بالا دست طبقات اور مقتدر اشرافیہ اس بات کے تصور سے بھی گریزاں نظر آتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے چھٹکارا پانے کے کیا آپشنز ہو سکتے ہیں، انھیں تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے۔