شہر کا متوسط طبقہ بھی گھریلو کاموں کیلیے ماسیاں رکھنے لگا

اہلخانہ کی کفالت اورمعاشی مسائل سے نمٹنے کیلیے گھر سے نکلنا پڑتا ہے،مہنگائی میں اضافے سے روٹی کا حصول مشکل ہوگیا،صغریٰ


عامر خان April 14, 2014
خاتون ملازمہ کام کے دوران بنگلے میں صفائی کر رہی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں پوش علاقوں کے ساتھ اب نچلے متوسط طبقے (لوئر مڈل کلاس) گھرانوں میں گھریلو کاموں کیلیے خواتین ملازم رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے ان خواتین ملازماؤں کو ماسی کہا جاتا ہے.

ایکسپریس نے گھروں میں کام کرنیوالی ملازمائوں سے متعلق سروے کیا، سروے کے دوران گھروں میں کام کرنے والی ماسی صغریٰ آپا نے بتایا کہ گھروں میں عموماً وہ خواتین کام کرتی ہیں جو معاشی مسائل کا شکار ہوتی ہیں اور انھیں اپنے گھر کی کفالت کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے روز بروز مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے غریب گھرانوں کو 2 وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوگیا ہے انھوں نے بتایا کہ کراچی کے60 فیصد سے زائد علاقوں کے رہائشی اپنے گھروں کی خواتین کا گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے کیلیے خواتین ماسیاں رکھتے ہیں یہ ماسیاں عموماً گھروں میں کپڑے دھونے ، صفائی ستھرائی ، برتن دھونے ، استری کرنے ، کھانا پکانے اور روٹی پکانے کا کام کرتی ہیں۔

گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کی اکثریت کا تعلق سرائیکی، اردو ، کچھی ، بلوچی ، سندھی ، پنجابی اور دیگر برادریوں سے ہوتا ہے تاہم سرائیکی برادری کی خواتین گھروں میں زیادہ کام کرتی ہیں، بیشتر ماسیاں اندرون ملک کے اضلاع خصوصاً پنجاب کے سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں، ماسیاں صبح سویرے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں اور مختلف گھروں میں کام کرنے کے بعد شام 6 بجے تک واپس اپنے گھروں میں چلی جاتی ہیں ماسیوں کا کام محنت طلب اور مشکل ہوتا ہے حالات کی مجبوری سے گھر کی کئی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں زیادہ ترماسیاں ڈیفنس ، کلفٹن ، صدر ، برنس روڈ، کھارادر ، اولڈ سٹی ایریا ، گارڈن ، پی سی ایچ ایس سوسائٹی ، دھوراجی ، طارق روڈ ، گلشن اقبال ، گلستان جوہر ، لیاقت آباد ، عزیز آباد ، گلبرگ ، ناظم آباد ، نیو کراچی ، ملیر ، لانڈھی ، کورنگی ، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقوں میں گھروں میں کام کرتی ہیں کئی برس قبل صرف پوش علاقوں میں ماسیاں رکھنے کا رجحان تھا لیکن اب متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ بھی گھریلو خواتین کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ماسیاں رکھتے ہیں تاکہ جلد گھر کا کام مکمل کیا جا سکے۔

متوسط طبقے کے علاقوں میں ماسیوں کو صبح کے اوقات میں گھروں کے کاموں کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ اسکول جانے والے بچوں کی واپسی سے قبل گھریلو کاموں کو نمٹایا جا سکے جبکہ پوش علاقوں میں ماسیاں عموماً صبح 11 بجے کے بعد بنگلوں میں کام کرتی ہیں، بعض گھریلو خواتین کا ماسیوں کے ساتھ رویہ سخت ہوتا ہے اور اپنی نگرانی میں گھر کا کام مکمل کراتی ہیں تھوڑی غفلت پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں جبکہ بعض گھریلو خواتین کا رویہ انتہائی خوش مزاج ہوتا ہے اور وہ ماسیوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھتی ہیں۔

دوسری جانب شہر کے پوش اور متوسط علاقوں میں ماسیوں کے معاوضے الگ ہوتے ہیں، پوش علاقے میں کام کرنیوالی ماسی انعم بی بی نے بتایا کہ پوش علاقوں خصوصاً کلفٹن ، ڈیفنس اور دیگر علاقوں میں بنگلوں، فلیٹ اور اپارٹمنٹ پر ماسیاں زیادہ تر کچھی برادری کی ہیں، یہ ماسیاں کیماڑی ، ماڑی پور، رنچھورلائن اور لیاری سے تعلق رکھتی ہیں، پوش علاقوں کے رہائشی 8 گھنٹے کیلیے خواتین کو ملازم رکھتے ہیں، ماسیاں بنگلوں کی صفائی،کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر گھریلو کام انجام دیتی ہیں، انھیں ماہانہ 8 سے 15 ہزار روپے تک تنخواہ دی جاتی ہے، پوش علاقوں میں ماسیاں الگ کاموں کیلیے بھی رکھی جاتی ہیں جیسے کپڑے دھونے والی ماسی کو ماہانہ 3 ہزار روپے ، برتن دھونے والی ماسی کو 2 ہزار روپے اور صفائی کرنے والی ماسی کو 4 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے، متوسط طبقے کے علاقوں میں8 گھنٹے تک ماسی رکھنے کا رجحان کم ہے یہاں ماسیوں کو ماہانہ کے بجائے الگ الگ کاموں کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ہر علاقے میں کام کرنیوالی ماسی کا معاوضہ گھریلو کام کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے، عموماً کپڑے دھونے کے700 سے 1500 روپے ، صفائی ستھرائی کے 800 سے 1200روپے ، برتن دھونے کے500 سے 800 روپے ، استری کرنے کے فی جوڑا5 سے10روپے یا1000روپے ماہانہ ،کھانا بنانے کے 1500 سے 2000 روپے اور روٹی پکانے کے700 سے 1000 روپے لیے جاتے ہیں، متوسط علاقوں میں کپڑے دھونے والی ماسی ہفتے میں 2 سے 3 دن متعلقہ گھروں میں جا کر کپڑے دھوتی ہے جبکہ روٹی پکانے والی ماسیاں عموماً دوپہر 12 سے ایک اور شام کو7 بجے تک یہ کام کرتی ہیں جبکہ نچلے متوسط طبقے کے گھروں میں ماسیوں کے گھریلوں کاموں کا معاوضہ متوسط طبقے کے گھرانوں سے بھی 30 فیصد کم ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں