بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات حل کیا ہے

پورے ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے


شہریار شوکت March 10, 2023
ایسے جرائم میں ملوث بھیڑیوں کو سرعام سنگسار کرکے نشان عبرت بنایا جائے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی میں لوٹ مار، قتل کی وارداتوں کے عذاب سے شہری پریشان اور خوف زدہ تو تھے ہی لیکن اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ چند روز قبل کراچی میں داتا نگر نامی علاقے میں معصوم فریحہ پراسرار طور پر غائب ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر اس کی تلاش کےلیے مہم کا آغاز ہوا، مساجد میں بھی اعلان ہوا۔ بچی کی گمشدگی کی رپورٹ بن قاسم تھانے میں کرائی گئی۔ پولیس نے بھی تلاش جاری رکھی لیکن تین روز گزرنے کے بعد فریحہ کی تشدد زدہ لاش قریبی نالے سے ملی۔

اس افسوسناک واقعے کے اگلے ہی روز ایک اور درندہ ابراہیم حیدری کے علاقے میں ایک معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کررہا تھا لیکن بچی کی چیخ و پکار سے وہ ناکام رہا اور پکڑا گیا۔

پورے ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ زینب، فرشتہ، فریحہ اور نجانے کتنے ہی ایسے واقعات حساس دل چیر چکے ہیں اور کتنے واقعات ایسے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے یا سوشل میڈیا کی بدولت ہم تک نہیں پہنچے۔ آخر ان واقعات کی وجہ کیا ہے اور انھیں کیسے روکا جائے؟ یاد رکھیے کوئی نارمل انسان اس قسم کی حرکات نہیں کرسکتا۔ ایسے جرائم میں ملوث افراد یا تو ذہنی مریض ہوتے ہیں یا پھر انسانیت کے درجے سے پرے درندہ صفت۔

ایسے درندوں سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنے کےلیے ہمیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اول تو والدین اور اساتذہ بچوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ کسی بھی انجان شخص کے ساتھ کسی بھی صورت کہیں نہ جائیں اور اگر کوئی زبردستی کوشش کرے تو شور مچادیں۔ بچوں کو یہ بھی سمجھایا جائے کہ جسم کے کون سے اعضا ایسے ہیں جہاں ماں باپ کے علاوہ کوئی بھی ہاتھ لگائے تو یہ غیر محفوظ ہوگا۔ یاد رکھیے محلے یا جان پہچان میں موجود کوئی بھی فرد آپ کے بچوں کےلیے محفوظ نہیں ہوسکتا۔ زیادتی کے واقعات میں اکثر ایسے ہی افراد ملوث پائے جاتے ہیں لہٰذا بچوں کو اسکول سے لانے لے جانے کی ذمے داری ماں باپ یا بڑے بہن بھائیوں کو ادا کرنی چاہیے۔ بچوں کو تنہا گلیوں میں کھیلنے نہ دیا جائے۔ ان کی نگرانی خود کریں۔ اسی طرح کم عمر بچوں کو بازار یا دکانوں پر بھی اکیلا نہ بھیجیں۔ یہ سب احتیاطی تدابیر تو ماں باپ کے کرنے کی ہیں لیکن اداروں اور حکومت کا کیا فرض ہے؟

پولیس کے محکمے کے متعلق جو بھی رائے قائم کی جائے لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کےلیے وہ بھی کوشاں ہوتے ہیں۔ پولیس کے ادارے کو مزید فعال اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہوگا، اور ایسے مجرموں کی فوری گرفتاری کے لیے سائنسی بنیادوں پر ٹریننگ فراہم کرنا ہوگی۔

حکومت اور قانون ساز اداروں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ملکی قوانین میں شامل بچوں کے ساتھ جرم کی سزائیں ایسے جرائم کی روک تھام کےلیے کافی ہیں؟ محض اسمبلی میں تقاریر یا مذمت سے یہ معاملات حل نہ ہوں گے۔ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کےلیے اسلامی سزاؤں کا نفاذ ناگزیر ہے۔ ایسے جرائم میں ملوث بھیڑیوں کو سرعام سنگسار کرکے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ قانون اور سزا کا خوف مسلط ہوسکے۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر کی سی ہے۔ نہ تو ہم مکمل طور پر اسلامی ہیں اور نہ ہی یورپی ممالک کی طرح مادر پدر آزاد۔ ہمارے ہاں جنسی بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کے کئی ذرائع موجود ہیں لیکن اسے سمجھا غلط ہی جاتا ہے۔ ہمیں اس ادھورے نظریات والے معاشرے کو اب بدلنا ہوگا۔ بلاشبہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اس معاشرے میں موجود افراد بالخصوص نابالغ بچوں کا تحفظ اسی میں ہے کہ ملک میں اسلامی نظام قائم کیا جائے۔ اسلام میں جرائم کےلیے جو سزائیں موجود ہیں اگر وہ چند ایک کو بھی مل جائیں تو جرائم کی بیخ کنی میں مدد مل سکتی ہی۔ اسلامی معاشرے کے قیام سے جنسی بے راہ روی میں کمی ہوگی اور اسلامی سزاؤں کا تصور کرکے ہی درندہ صفت انسان بھی کسی پھول کو روندنے سے گریز کریں گے۔

ایسے واقعات کے متاثرین حکام بالا سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے بعد کسی اور کے ساتھ بھی ایسا کیوں ہوا؟ اور کیا آئندہ بھی کوئی معصوم کسی درندے کا نشانہ بنے گا؟ عدلیہ، متعلقہ اداروں اور حکمرانوں کو اب حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے کےلیے ہمیں اسی کیس سے آغاز کرنا ہوگا۔ اس بار حکمرانوں کو تمام تر مغربی دباؤ کے باوجود سزا میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ واقعے میں ملوث درندہ صفت افراد کو نشان عبرت بنا کر ملک کے تمام ننھے فرشتوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں