پاکستان کے چار ’ محمد خان‘
اِن شخصیات نے پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے
تمغہ امتیاز
ہمارے کلاسک ادب میں جس طرح قصّہ چہار درویش بہت مشہور اسی طرح پاکستان کی حقیقی تاریخ میں محمد خان نام کی چار شخصیات نے ملکی سماجی اور سیاسی تاریخ پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
قصہ چہار درویش کے وزن پر ہم ان چار شخصیات کے تذکرے کو 'قصہ چہار خانو' کا نام دے سکتے ہیں۔ اِن 'چہار خانوں' میں نمبر 1 ۔سابق گور نر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان، نمبر2 ۔ مروف مزاح نگار کرنل محمد خان نمبر 3 ۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور نمبر4 ۔ مشہور ڈاکو محمد خان تھے۔
قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں تقریباً اسی فیصد آبادی دہی آبادی تھی جو سرداری ، اور جاگیردارنہ نظام میں جکڑی ہوئی تھی ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اِن ،،چہار محمد خانو،، کا تعلق اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان سے تھا۔
اِ ن چہار محمد خانو میں سے نواب آف کالا باغ امیر محمد خان ایک جانب تو روایتی انداز کے جاگیردارانہ نظام کا آخری اور مضبوط علامت تھے تو دوسری جانب وہ پاکستان میں اید منسٹریشن کا ایک مثالی کردار رہے۔
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان 20 جون 1910 ء میں کالا باغ ہی میں پیدا ہو ئے اور26 نومبر1967 ء کو کالا باغ ہی میں اَن کو قتل کر دیا گیا۔ میرے والد مرحوم حسّان احمد بیگ ریلوے گارڈ تھے اور 26 برس کی عمر میں بھارت سے ہجرت کر کے جب پاکستان آئے تو کالا باغ میں اُن کی پوسٹنگ ہوئی۔
اُن کے مطابق اُس وقت ریاست کالا باغ میں اُن کی بادشاہت تھی اور کالا باغ کی پوری آبادی اُن کی رعایا تھی۔ وہاں یہ مشہورتھا کہ کسی بزرگ نے کالاباغ کے علاقہ میں وصیت کی تھی کہ اُن کی موت پر وہ شخص نمازِ جنازہ پڑھائے گا جس نے تہجد سمیت کوئی نماز زندگی بھر قضا نہ کی ہو، اس موقع پر ملک امیر محمد خان نے کہا کہ مرنے والا مر گیا لیکن ہمارے راز عیاں کر گیا۔
بعد میں نے بالکل یہی روایت امیر تیمور سے لے کر سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری تک کے حوالے سے سنی اور پڑھیں جو جاگیردارنہ نظام اور مزاج کا ایک حصہ ہیں کہ عوام میں وہ بطور حکمران خد ا کے سائے کی حیثیت سے مشہور رہیں۔
ملک امیر محمد خان ایچ ای سن کالج لاہور اور آکسفورڈ یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ تحریک پاکستان میں وہ ایک نوجوان جاگیر دار کی حیثیت سے شامل ہو ئے اور کہا جا تا ہے کہ جب قائد اعظم لاہور میں تحریک پا کستان کے لیے چندہ جمع کر نے کے لیے آئے تو اجلاس میں نواب آف کالاباغ بھی پہلی صف میں موجود تھے۔
اُنہوں نے اُس موقع پر کہا کہ یہاں موجود تمام لوگ جتنا چندہ جمع کریںگے اس کے برابر رقم میری طرف سے تحریک پاکستان کے لیے مسلم لیگ کے لیے ہوگی۔ اِ س طرح قائد اعظم سے امیر محمد خان کا پہلا تعارف ہو اتھا۔ صدر جنرل ایوب خان ملک کے پہلے فوجی حکمران تھے جو 1958 ء میں1956 ء کے آئین کو منسوخ کر کے بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بر سراقتدار آئے تھے اور پھر 1962 ء کا صدارتی بنا کر ملک میں بنیادی جمہوریت کے نام پر صدارتی نظام نا فذ کیا تھا۔
یہی 1962 ء کا صدارتی دستور تھا جس پر حبیب جالب نے مشہور نظم ،،ایسے دستور کو صبح ِ بے نور کو میں نہیں مانتا ۔۔ میں نہیں مانتا لکھی تھی ،،اور اس جرم میں اُن کو قید ہو ئی تھی۔ نواب آف کالاباغ امیر محمد خان 1960 ء سے 1966 ء تک گورنرمغربی پاکستان رہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب اُنہوں نے گورنر کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اِ سکے بعد اُن کو چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت اعلیٰ افسران نے بریفینگ کے لیے مدعو کیا اور صوبہ مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں لااینڈآڈرکی صورتحال کے بارے میں بتایا اور آخر میں جب اُن کو خطاب کی دعوت دی تواُنہوں نے اپنی با رعب داھنی مونچھ کو تاؤ دیا اور بولے یہ لا اور دوسری مونچھ کو تاؤ دے کر کہا کہ یہ ہے آڈر ہے۔ْ وہ انتظامی اعتبار سے بہت سخت مزاج تھے اُن کے دور اقتدار میں پورے مغربی پاکستان میں امن و امان کی صورت مثالی رہی۔
اُنہی کے دور میں میں ستمبر1965 ء پاک بھارت جنگ ہو ئی۔ اُنہوں نے اس موقع پر تاجروں کو گورنر ہاؤس بلوایا اور سختی سے آگاہ کیا کہ اگر ملک میں غذائی اجناس کہیں بھی مہنگی ہو ئیں یا اِس کاذخیرہ کیا گیا تو ایسے تاجروں کا انجام عبرت ناک ہو گا اور دنیا نے دیکھا کہ پورے ملک میں غذائی اجناس مہنگی ہو نے کے بجائے سستی ہوئیں۔
اُن کے دور حکومت میں جب شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے پاکستان کا دورہ کیا تو گورنر ملک امیر محمد خان کی جانب سے اُس زمانے کی مشہور فلم ادکار ہ نیلوکو شہنشاہ ایران کے سامنے رقص کرنے کا حکام دیا گیا جس پر نیلو نے انکار کردیا اور پھر نیلو کو اٹھوا لیا گیا۔ نیلو نے اپنی بے عرتی پر دلبرداشتہ ہو کر خواب آور گولیاں کھا کرخودکشی کی کوشش کی جس پر بروقت اُن کو بیہو شی کے عالم میں ہسپتال پہنچا یا گیا اور اُن مرنے سے بچا لیا گیا۔
بعد میں مشہور رائٹر ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کر لی نیلو نے عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اُن کا نام سنتھارایلگذڈر کی بجائے عابدہ ریاض رکھا گیا۔ اُس وقت جب شہنشاہ کے سامنے رقص کرنے سے انکار کرنے پر نیلو کو اغوا کر کے بے عزت کیا گیا تھا تو انقلابی شاعر حبیب جالب نے یہ نظم کہی تھی ،، تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی۔۔۔۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جا تا ہے ، بعد میں یہی نظم اُنہی پر ریاض شاہد کی فلم ،،زرقا،،میں فلمایا گیا۔
دوسرے کرنل محمد خان تھے جو ہمارے ادب کے ایک اہم مزاح نگار بھی ہیں کرنل محمد خان 5 اگست1910 ء پیدا ہو ئے اور 23 اکتوبر 1999 ء کو وفات پائی۔ اُن کا تعلق جہلم سے تھا۔ اُنہوں نے 1934 ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا۔
1940 ء میں جب جنگ عظیم دو ئم جاری تھی تو وہ بطور سیکنڈ لیفٹینٹ انڈین برٹش آرمی میں شامل ہوئے۔ اور جب ہم نویں جماعت میں تھے تو اُن کی مشہورکتاب بجنگ آمد سے ایک سبق نیم لفٹین بعداد میں کے عنوان سے شامل تھا۔
پھر ایک دوبرس بعد اُن کی مزاح میں لکھی کتابیں بسلامت روی، بزم نگاریاں بھی پڑھیں لیکن بجنگ آمد نہ صرف مزاحیہ ادب کا ایک شہکار ہے بلکہ تاریخی اور عالمی سیاسی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت ہے۔
وہ اس کتاب میں عرب دنیا خصوصاً عراق ، مصر ، شام ، وغیرہ کی سیاسی و سماجی عکاسی نہایت عمدگی سے کر تے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم 1939 ء سے 1945 ء تک جاری رہی۔ اُس وقت ان اسلامی ممالک میں بادشاہتیں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی وغیرہ کی سر پرستی میں قائم تھیں اور کرنل محمد خان نے اس صورتحال کا نقشہ ایک خاص تاریخی ،سماجی ،سیاسی پس منظر میں کھینچا ہے جو گدگداہٹ کے ساتھ چشم بیناکوآنسووں کی دھندلاہٹ بھی بخشتا ہے۔
بجنگ آمد کے دیباچے میں مزاح نگار کرنل محمد خان یوں لکھتے ہیں، '' قسمت سے ہم بھی نصاب میں شامل ہو گئے، سالانہ امتحان میں بورڈ والوں نے اردو کے پرچے میں یہ سوال دیا کہ آپ محمد خان کے بارے میں کیا جانتے ہیں تو ایک طالب علم نے جواب میں لکھا کہ محمد خان ایک مشہور ڈاکو ہے جس کو پولیس نے حال ہی میں گرفتار کیا ہے''۔ کرنل محمد خان لکھتے ہیں کاش ہماری ایسی قسمت ہو تی ۔ نواب کالا باغ امیر محمد خان کے بعد کرنل محمد خان اور پھر محمد خان ڈاکو ہمارے سماج اور سیاسی اورانتظامی تناظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈاکو محمد خان 1927 ء کو ضلع چکوال کے ایک گاؤں دھرنال میں پید اہو ا اور19 ستمبر 1995 ء میں اس کا انتقال ہوا۔ یہ شروع میں ایک شریف آدمی تھا اور فوج میں حولدار تھا۔ براردی کے جھگڑے میں اس کے بھائی کو مخالفین نے قتل کر دیا اس ظلم و زیادتی پر وہ وادی سوہان میں روپوش ہو گیا اور پھر اُس نے ڈاکے مارنے شروع کردئیے۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے چاہا کہ برادری اپنے ظلم پر نادم ہو ،اور وہ خود کو قانون کے حوالے کرئے گا۔ مگر اُس کے مخالفین نے اُس کے خلاف بہت سے مقدمے قائم کر دیئے۔ پولیس نے اُس کے گھر کو محاصر ے میں لے لیا مگر وہ یہاں سے بچ نکلا۔
اس کا بھائی ہاشم خان جو اُس کے ساتھ تھا وادی سوہان میں بیمار ہوا اور وفات پاگیا۔ اُس نے اپنے گاؤں والوں سے رابطہ کیا اور کہا کہ اُس کی لاش اُس کے دوست محمد جعفر تک پہنچا دی جا ئے مگر پولیس نے یہ لاش راستے میں چھین لی اور لاش کو گولیوں سے چھلنی کر کے اپنی کارکردگی ظاہر کی۔ اس کے بعد محمد خان ڈاکو واقعی بڑا ڈاکو بن گیا۔ اُس نے علاقے میں غریبوں کی مدد بھی شروع کر دی جس کی بنیاد پر اُس کا گروہ بہت بڑھ گیا۔
لوگ اُسے خطرے سے پہلے آگاہ کر دیتے تھے۔ اُس کی دہشت اتنی بڈھ گئی کے علاقہ کا ایس ایچ او اور ایس پی بھی اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ اس حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ جب صدر ایوب خان اور ملک امیر محمد خا ن کے درمیان اختلافات پیدا ہو نے لگے تو بدخواہوں نے یہ بھی مشہور کیا کہ نواب کالاباغ محمد خا ن ڈاکو کے ذریعے صدر ایوب خان کو قتل کروانا چاہتے ہیں ، کیونکہ محمد خان ڈاکو نے اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے قتل کیا تھا اور اُس کا خوف پورے علاقے میں پھیلا ہواتھا۔
1966 ء میں پولیس ایک بہت بڑی نفری کے ساتھ مقابلہ کے بعد محمد خان ڈاکو گرفتار کر لیا۔ 1967 ء میں اُس نے اپنا مقدمہ خود لڑا ،12 ستمبر1968 ء کو اُسے عدالت سے چار بار سزائے موت اور 149 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
اُس نے ہا ئی کورٹ میں اپیل کی۔ یہ مقدمہ 1976 ء تک چلا اور جب اُسے پھانسی کی سزا سنادی گئی تو پھانسی سے پانچ گھنٹے قبل ہائی کورٹ کے قانون میں پھانسی کی سزا کا قانون تبدیل ہو گیا اس کے دو سال بعد کمیشن نے محمد خان ڈاکو کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ 1988 ء میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تواس حکومت نے ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا تو محمد خان ڈاکو بھی رہا ہو گیا اورباقی زندگی آرام وسکون کے ساتھ گذاری۔ اس نے 1995 ء وفات پا ئی۔
محمد خان ڈاکو کی زندگی پر ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں سلطان راہی نے محمد خان ڈاکو کا کردار اداکیا تھا مگر یہ فلم کمزور اسکرپٹ کی وجہ سے نا کام ہو ئی ۔
چوتھا محمد خان ۔ محمد خان جو نیجو تھے۔ وہ 18 اگست 1932 ء سندھڑی نامی گاؤںسندھ میں پیدا ہو ئے۔ 18 مارچ 1993 کوؤفات پائی۔ محمد خان جو نیجو پاکستان کے دسویں وزیراعظم تھے۔ جو 1985 ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر کر ائے گئے انتخابات کے بعد وزیر اعظم منتخب ہو ئے تھے وہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔
اُن کے دور اقتدار میں اُن کے وزیرخزانہ محبوب الحق نے طویل عرصے بعد بغیر خسارے کا قومی بجٹ برائے مالی سال 1985-86 ء پیش کیا تھا جس میں سرکاری ملازمین کے لیے انڈیکس پے کا ایسا فارمولہ دیا تھا کہ سال میں جتنی مہنگائی ہو اتنی شرح فیصد سے تنخواوہوں میں اضافہ ہو جائے۔ مگر محبوب الحق اس قومی بجٹ کے بعد دوسرا بجٹ پیش نہ کر سکے۔
محمد خان جونیجو نے ہنگامی بنیادوں پر ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے نئی روشنی اور مساجد اسکولوں کا پروگرام بھی شروع کیا۔ اُن کے دور حکومت ہی میں سابق سوویت یونین میں تبدیلیاں شروع ہو گیں تھیں۔
1985ء سے سابق سوویت یونین ، امریکہ افغانستان ، پاکستان اور اقوام متحدہ کے سکیرٹری سمیت جنیوا مذاکرات شروع ہوئے اس موقع پر جونیجو حکومت نے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کے بجائے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نوارانی کو جنیوا مذاکرات میں بھیجا اور یو ں 1988 ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط ہو گئے۔
اس کے فوراً بعد جب وزیر اعظم محمد خان جو نیجو چین کے دورے سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے تو صدر جنرل ضیا الحق نے اُن کی جانب سے پارلیمنٹ سے منظور ہو نے والی آٹھویں ترمیم کو استعمال کر تے ہوئے اُن کی حکومت کو برخواست کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی۔ اس کے بعد آنے والے دنوں میں نوازشریف نے مسلم لیگ کی صدارت کا عہد ے سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔
ہمارے کلاسک ادب میں جس طرح قصّہ چہار درویش بہت مشہور اسی طرح پاکستان کی حقیقی تاریخ میں محمد خان نام کی چار شخصیات نے ملکی سماجی اور سیاسی تاریخ پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
قصہ چہار درویش کے وزن پر ہم ان چار شخصیات کے تذکرے کو 'قصہ چہار خانو' کا نام دے سکتے ہیں۔ اِن 'چہار خانوں' میں نمبر 1 ۔سابق گور نر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان، نمبر2 ۔ مروف مزاح نگار کرنل محمد خان نمبر 3 ۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور نمبر4 ۔ مشہور ڈاکو محمد خان تھے۔
قیام پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں تقریباً اسی فیصد آبادی دہی آبادی تھی جو سرداری ، اور جاگیردارنہ نظام میں جکڑی ہوئی تھی ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اِن ،،چہار محمد خانو،، کا تعلق اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان سے تھا۔
اِ ن چہار محمد خانو میں سے نواب آف کالا باغ امیر محمد خان ایک جانب تو روایتی انداز کے جاگیردارانہ نظام کا آخری اور مضبوط علامت تھے تو دوسری جانب وہ پاکستان میں اید منسٹریشن کا ایک مثالی کردار رہے۔
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان 20 جون 1910 ء میں کالا باغ ہی میں پیدا ہو ئے اور26 نومبر1967 ء کو کالا باغ ہی میں اَن کو قتل کر دیا گیا۔ میرے والد مرحوم حسّان احمد بیگ ریلوے گارڈ تھے اور 26 برس کی عمر میں بھارت سے ہجرت کر کے جب پاکستان آئے تو کالا باغ میں اُن کی پوسٹنگ ہوئی۔
اُن کے مطابق اُس وقت ریاست کالا باغ میں اُن کی بادشاہت تھی اور کالا باغ کی پوری آبادی اُن کی رعایا تھی۔ وہاں یہ مشہورتھا کہ کسی بزرگ نے کالاباغ کے علاقہ میں وصیت کی تھی کہ اُن کی موت پر وہ شخص نمازِ جنازہ پڑھائے گا جس نے تہجد سمیت کوئی نماز زندگی بھر قضا نہ کی ہو، اس موقع پر ملک امیر محمد خان نے کہا کہ مرنے والا مر گیا لیکن ہمارے راز عیاں کر گیا۔
بعد میں نے بالکل یہی روایت امیر تیمور سے لے کر سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری تک کے حوالے سے سنی اور پڑھیں جو جاگیردارنہ نظام اور مزاج کا ایک حصہ ہیں کہ عوام میں وہ بطور حکمران خد ا کے سائے کی حیثیت سے مشہور رہیں۔
ملک امیر محمد خان ایچ ای سن کالج لاہور اور آکسفورڈ یو نیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ تحریک پاکستان میں وہ ایک نوجوان جاگیر دار کی حیثیت سے شامل ہو ئے اور کہا جا تا ہے کہ جب قائد اعظم لاہور میں تحریک پا کستان کے لیے چندہ جمع کر نے کے لیے آئے تو اجلاس میں نواب آف کالاباغ بھی پہلی صف میں موجود تھے۔
اُنہوں نے اُس موقع پر کہا کہ یہاں موجود تمام لوگ جتنا چندہ جمع کریںگے اس کے برابر رقم میری طرف سے تحریک پاکستان کے لیے مسلم لیگ کے لیے ہوگی۔ اِ س طرح قائد اعظم سے امیر محمد خان کا پہلا تعارف ہو اتھا۔ صدر جنرل ایوب خان ملک کے پہلے فوجی حکمران تھے جو 1958 ء میں1956 ء کے آئین کو منسوخ کر کے بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بر سراقتدار آئے تھے اور پھر 1962 ء کا صدارتی بنا کر ملک میں بنیادی جمہوریت کے نام پر صدارتی نظام نا فذ کیا تھا۔
یہی 1962 ء کا صدارتی دستور تھا جس پر حبیب جالب نے مشہور نظم ،،ایسے دستور کو صبح ِ بے نور کو میں نہیں مانتا ۔۔ میں نہیں مانتا لکھی تھی ،،اور اس جرم میں اُن کو قید ہو ئی تھی۔ نواب آف کالاباغ امیر محمد خان 1960 ء سے 1966 ء تک گورنرمغربی پاکستان رہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب اُنہوں نے گورنر کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اِ سکے بعد اُن کو چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت اعلیٰ افسران نے بریفینگ کے لیے مدعو کیا اور صوبہ مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں لااینڈآڈرکی صورتحال کے بارے میں بتایا اور آخر میں جب اُن کو خطاب کی دعوت دی تواُنہوں نے اپنی با رعب داھنی مونچھ کو تاؤ دیا اور بولے یہ لا اور دوسری مونچھ کو تاؤ دے کر کہا کہ یہ ہے آڈر ہے۔ْ وہ انتظامی اعتبار سے بہت سخت مزاج تھے اُن کے دور اقتدار میں پورے مغربی پاکستان میں امن و امان کی صورت مثالی رہی۔
اُنہی کے دور میں میں ستمبر1965 ء پاک بھارت جنگ ہو ئی۔ اُنہوں نے اس موقع پر تاجروں کو گورنر ہاؤس بلوایا اور سختی سے آگاہ کیا کہ اگر ملک میں غذائی اجناس کہیں بھی مہنگی ہو ئیں یا اِس کاذخیرہ کیا گیا تو ایسے تاجروں کا انجام عبرت ناک ہو گا اور دنیا نے دیکھا کہ پورے ملک میں غذائی اجناس مہنگی ہو نے کے بجائے سستی ہوئیں۔
اُن کے دور حکومت میں جب شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے پاکستان کا دورہ کیا تو گورنر ملک امیر محمد خان کی جانب سے اُس زمانے کی مشہور فلم ادکار ہ نیلوکو شہنشاہ ایران کے سامنے رقص کرنے کا حکام دیا گیا جس پر نیلو نے انکار کردیا اور پھر نیلو کو اٹھوا لیا گیا۔ نیلو نے اپنی بے عرتی پر دلبرداشتہ ہو کر خواب آور گولیاں کھا کرخودکشی کی کوشش کی جس پر بروقت اُن کو بیہو شی کے عالم میں ہسپتال پہنچا یا گیا اور اُن مرنے سے بچا لیا گیا۔
بعد میں مشہور رائٹر ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کر لی نیلو نے عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اُن کا نام سنتھارایلگذڈر کی بجائے عابدہ ریاض رکھا گیا۔ اُس وقت جب شہنشاہ کے سامنے رقص کرنے سے انکار کرنے پر نیلو کو اغوا کر کے بے عزت کیا گیا تھا تو انقلابی شاعر حبیب جالب نے یہ نظم کہی تھی ،، تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی۔۔۔۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جا تا ہے ، بعد میں یہی نظم اُنہی پر ریاض شاہد کی فلم ،،زرقا،،میں فلمایا گیا۔
دوسرے کرنل محمد خان تھے جو ہمارے ادب کے ایک اہم مزاح نگار بھی ہیں کرنل محمد خان 5 اگست1910 ء پیدا ہو ئے اور 23 اکتوبر 1999 ء کو وفات پائی۔ اُن کا تعلق جہلم سے تھا۔ اُنہوں نے 1934 ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا۔
1940 ء میں جب جنگ عظیم دو ئم جاری تھی تو وہ بطور سیکنڈ لیفٹینٹ انڈین برٹش آرمی میں شامل ہوئے۔ اور جب ہم نویں جماعت میں تھے تو اُن کی مشہورکتاب بجنگ آمد سے ایک سبق نیم لفٹین بعداد میں کے عنوان سے شامل تھا۔
پھر ایک دوبرس بعد اُن کی مزاح میں لکھی کتابیں بسلامت روی، بزم نگاریاں بھی پڑھیں لیکن بجنگ آمد نہ صرف مزاحیہ ادب کا ایک شہکار ہے بلکہ تاریخی اور عالمی سیاسی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت ہے۔
وہ اس کتاب میں عرب دنیا خصوصاً عراق ، مصر ، شام ، وغیرہ کی سیاسی و سماجی عکاسی نہایت عمدگی سے کر تے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم 1939 ء سے 1945 ء تک جاری رہی۔ اُس وقت ان اسلامی ممالک میں بادشاہتیں برطانیہ ، فرانس ، اٹلی وغیرہ کی سر پرستی میں قائم تھیں اور کرنل محمد خان نے اس صورتحال کا نقشہ ایک خاص تاریخی ،سماجی ،سیاسی پس منظر میں کھینچا ہے جو گدگداہٹ کے ساتھ چشم بیناکوآنسووں کی دھندلاہٹ بھی بخشتا ہے۔
بجنگ آمد کے دیباچے میں مزاح نگار کرنل محمد خان یوں لکھتے ہیں، '' قسمت سے ہم بھی نصاب میں شامل ہو گئے، سالانہ امتحان میں بورڈ والوں نے اردو کے پرچے میں یہ سوال دیا کہ آپ محمد خان کے بارے میں کیا جانتے ہیں تو ایک طالب علم نے جواب میں لکھا کہ محمد خان ایک مشہور ڈاکو ہے جس کو پولیس نے حال ہی میں گرفتار کیا ہے''۔ کرنل محمد خان لکھتے ہیں کاش ہماری ایسی قسمت ہو تی ۔ نواب کالا باغ امیر محمد خان کے بعد کرنل محمد خان اور پھر محمد خان ڈاکو ہمارے سماج اور سیاسی اورانتظامی تناظر میں اہمیت رکھتے ہیں۔
ڈاکو محمد خان 1927 ء کو ضلع چکوال کے ایک گاؤں دھرنال میں پید اہو ا اور19 ستمبر 1995 ء میں اس کا انتقال ہوا۔ یہ شروع میں ایک شریف آدمی تھا اور فوج میں حولدار تھا۔ براردی کے جھگڑے میں اس کے بھائی کو مخالفین نے قتل کر دیا اس ظلم و زیادتی پر وہ وادی سوہان میں روپوش ہو گیا اور پھر اُس نے ڈاکے مارنے شروع کردئیے۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے چاہا کہ برادری اپنے ظلم پر نادم ہو ،اور وہ خود کو قانون کے حوالے کرئے گا۔ مگر اُس کے مخالفین نے اُس کے خلاف بہت سے مقدمے قائم کر دیئے۔ پولیس نے اُس کے گھر کو محاصر ے میں لے لیا مگر وہ یہاں سے بچ نکلا۔
اس کا بھائی ہاشم خان جو اُس کے ساتھ تھا وادی سوہان میں بیمار ہوا اور وفات پاگیا۔ اُس نے اپنے گاؤں والوں سے رابطہ کیا اور کہا کہ اُس کی لاش اُس کے دوست محمد جعفر تک پہنچا دی جا ئے مگر پولیس نے یہ لاش راستے میں چھین لی اور لاش کو گولیوں سے چھلنی کر کے اپنی کارکردگی ظاہر کی۔ اس کے بعد محمد خان ڈاکو واقعی بڑا ڈاکو بن گیا۔ اُس نے علاقے میں غریبوں کی مدد بھی شروع کر دی جس کی بنیاد پر اُس کا گروہ بہت بڑھ گیا۔
لوگ اُسے خطرے سے پہلے آگاہ کر دیتے تھے۔ اُس کی دہشت اتنی بڈھ گئی کے علاقہ کا ایس ایچ او اور ایس پی بھی اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ اس حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ جب صدر ایوب خان اور ملک امیر محمد خا ن کے درمیان اختلافات پیدا ہو نے لگے تو بدخواہوں نے یہ بھی مشہور کیا کہ نواب کالاباغ محمد خا ن ڈاکو کے ذریعے صدر ایوب خان کو قتل کروانا چاہتے ہیں ، کیونکہ محمد خان ڈاکو نے اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے قتل کیا تھا اور اُس کا خوف پورے علاقے میں پھیلا ہواتھا۔
1966 ء میں پولیس ایک بہت بڑی نفری کے ساتھ مقابلہ کے بعد محمد خان ڈاکو گرفتار کر لیا۔ 1967 ء میں اُس نے اپنا مقدمہ خود لڑا ،12 ستمبر1968 ء کو اُسے عدالت سے چار بار سزائے موت اور 149 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
اُس نے ہا ئی کورٹ میں اپیل کی۔ یہ مقدمہ 1976 ء تک چلا اور جب اُسے پھانسی کی سزا سنادی گئی تو پھانسی سے پانچ گھنٹے قبل ہائی کورٹ کے قانون میں پھانسی کی سزا کا قانون تبدیل ہو گیا اس کے دو سال بعد کمیشن نے محمد خان ڈاکو کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ 1988 ء میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تواس حکومت نے ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا تو محمد خان ڈاکو بھی رہا ہو گیا اورباقی زندگی آرام وسکون کے ساتھ گذاری۔ اس نے 1995 ء وفات پا ئی۔
محمد خان ڈاکو کی زندگی پر ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں سلطان راہی نے محمد خان ڈاکو کا کردار اداکیا تھا مگر یہ فلم کمزور اسکرپٹ کی وجہ سے نا کام ہو ئی ۔
چوتھا محمد خان ۔ محمد خان جو نیجو تھے۔ وہ 18 اگست 1932 ء سندھڑی نامی گاؤںسندھ میں پیدا ہو ئے۔ 18 مارچ 1993 کوؤفات پائی۔ محمد خان جو نیجو پاکستان کے دسویں وزیراعظم تھے۔ جو 1985 ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر کر ائے گئے انتخابات کے بعد وزیر اعظم منتخب ہو ئے تھے وہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔
اُن کے دور اقتدار میں اُن کے وزیرخزانہ محبوب الحق نے طویل عرصے بعد بغیر خسارے کا قومی بجٹ برائے مالی سال 1985-86 ء پیش کیا تھا جس میں سرکاری ملازمین کے لیے انڈیکس پے کا ایسا فارمولہ دیا تھا کہ سال میں جتنی مہنگائی ہو اتنی شرح فیصد سے تنخواوہوں میں اضافہ ہو جائے۔ مگر محبوب الحق اس قومی بجٹ کے بعد دوسرا بجٹ پیش نہ کر سکے۔
محمد خان جونیجو نے ہنگامی بنیادوں پر ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے نئی روشنی اور مساجد اسکولوں کا پروگرام بھی شروع کیا۔ اُن کے دور حکومت ہی میں سابق سوویت یونین میں تبدیلیاں شروع ہو گیں تھیں۔
1985ء سے سابق سوویت یونین ، امریکہ افغانستان ، پاکستان اور اقوام متحدہ کے سکیرٹری سمیت جنیوا مذاکرات شروع ہوئے اس موقع پر جونیجو حکومت نے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کے بجائے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نوارانی کو جنیوا مذاکرات میں بھیجا اور یو ں 1988 ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط ہو گئے۔
اس کے فوراً بعد جب وزیر اعظم محمد خان جو نیجو چین کے دورے سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے تو صدر جنرل ضیا الحق نے اُن کی جانب سے پارلیمنٹ سے منظور ہو نے والی آٹھویں ترمیم کو استعمال کر تے ہوئے اُن کی حکومت کو برخواست کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردی۔ اس کے بعد آنے والے دنوں میں نوازشریف نے مسلم لیگ کی صدارت کا عہد ے سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔