پاکستان کا کثیر الجہتی بحران

آئینی اور قانونی فیصلوں نے معاشی اور سیاسی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے

فوٹو: فائل

پاکستان کثیر الجہتی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ معیشت کی حالت سب کے سامنے ہے' ملک میں کاروباری سرگرمیاں بھی کم ہو رہی ہیں اور ملک کے صنعت کار اور کاروباری طبقے اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے' سیاسی منظرنامہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر اور آلودہ ہے' آئینی اور قانونی فیصلوں نے معاشی اور سیاسی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے ریاست کے اسٹیک ہولڈرز میں جس سطح اور معیار کی ذہانت اور تدبر کی ضرورت ہے' وہ نظر نہیں آ رہی ہے۔ معیشت ہی نہیں بلکہ نظام انصاف بھی اپنے ہی وزن سے لڑکھڑا رہا ہے' انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے' نچلی عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک میں سیاسی نوعیت کے مقدمات اور پٹیشنز کی بھرمار ہے جب کہ عام شہریوں کے مقدمات برسوں سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں' آئے روز عدالتوں میں سیاسی پٹیشنز اور مقدمات سنے جا رہے ہیں' یوں ریاست کا پورا نظام جامد ہو چکا ہے۔

اسی دوران دو صوبوں کے الیکشن اور مردم شماری کا اہتمام بھی ہونا ہے' ان کاموں کے لیے کثیر مقدار میں سرمایہ خرچ ہونا ہے جب کہ ملکی خزانے کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگلے روز حکومت نے جاری مردم شماری کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی، توانائی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے بنیادی ڈھانچے کی اسکیموں کے 12 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز منتقل کرنے کی منظوری دے دی۔

اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے گزشتہ سال جون کے بجٹ میں آبادی اور خانہ شماری کے لیے خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی تھی، وزارت منصوبہ بندی کے مطابق فنانس ڈویژن نے سیکریٹری پلاننگ کو زبانی آگاہ کیا کہ اس وقت فنانس ڈویژن 24 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور پلاننگ سے درخواست کی کہ وہ وزارت پلاننگ' ڈویلپمنٹ اور اسپیشل انیشیٹیو پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں سے 12 ارب روپے کے فنڈز فنانس ڈویژن کے سپرد کر دے۔

ای سی سی نے فنڈز میں کمی کی منظوری دے دی، نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا بجٹ 6 ارب روپے یا 5 فیصد کم کر دیا گیا۔ ای سی سی نے این ایچ اے کے بجٹ سے 12 ارب روپے کی کٹوتی کا اختیار دیا تھا لیکن اتھارٹی نے سخت مزاحمت کی۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ترقیاتی بجٹ میں 2 ارب روپے یا 21 فیصد کمی کرنے کی بھی منظوری دی۔ وزارت پہلے ہی فنڈز کی کم تقسیم کی شکایت کرتی رہی ہے۔

وزارت منصوبہ بندی کے 2 ارب روپے یا مختص رقم کا 4.5 فیصد اور پاور ڈویژن کی سالانہ ترقیاتی فنڈزکا مختص کا مزید 2 ارب روپے یا 5 فیصد مردم شماری کے اخراجات کے لیے کٹوتی کر لیا ہے ۔ ساتویں مردم شماری جاری ہے، پاکستان ادارہ شماریات کو نادرا، اسپارکو، مسلح افواج اور ضلعی حکومتوں کی واجبات کی ادائیگی کے لیے 12 ارب روپے درکار ہیں۔

ساتویں آبادی اور خانہ شماری کے انعقاد کے لیے 34 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں جن میں سے گزشتہ اور رواں مالی سال کے دوران فنانس ڈویژن کی جانب سے 10 ارب روپے پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ عنقریب عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوجائے گا تاہم انھوں نے اس کی کوئی تاریخ دینے سے گریز کیا۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران بیرونی شعبے کے آؤٹ لک، افراط زر اور معاشی نمو کے بارے میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے 9ویں جائزہ کی تکمیل کے بعد ہی ایل سیز کو کھولا جائے گا۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ بینک ضروری درآمدات بشمول ادویات، خوردنی تیل اور ایندھن کے لیے ڈالر کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں اور مرکزی بینک نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ ترسیلات زر سے متعلق مالی مراعات پر نظر ثانی کی جائے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمیٹی میں جمع کروائے گئے تحریری بیان کے مطابق آئی ایم ایف کے جاری 9ویں ای ایف ایف کے جائزے کی کامیاب تکمیل انتہائی اہم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرکاری اور گرے مارکیٹ کی شرح مبادلہ میں فرق بھی ترسیلات زر میں کمی کا باعث بنا۔


جمیل احمد نے کہا کہ آیندہ تین ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافہ رہے گا تاہم انھوں نے امید ظاہر کی کہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 26 فیصد کے لگ بھگ رہے گی۔

اس کے علاوہ ایک پیش رفت یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے گھڑیوں، سی بی یو کنڈیشن میں گاڑیوں،قیمتی دھاتوں، کاسمیٹکس، جوتے، شیمپو، آئسکریم، فروٹ، ڈرائی فروٹ، فروٹ و ویجی ٹیبل جواز، لیدر جیکٹس، چاکلیٹ، سگریٹ و سگار اور بلیوں،کتوں کی خوراک سمیت تین درجن سے زائد اشیاء کی درآمد اور مقامی مارکیٹ میں پرچون قیمت پر فروخت پر سیلز ٹیکس25 فیصد کردیا ہے۔

مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی ایس یو وی اور سی یو وی گاڑیوں، 1400سی سی سے زائد کی مقامی سطح پر اسمبلی ہونے والی گاڑیوں ،فور بائی فور ڈبل کیبن گاڑیوں و پک اپ کی مقامی سپلائی پر بھی پچیس فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا ہے۔

افغانستان کے علاوہ باقی دنیا کے ممالک سے درآمد کیے جانے والے کارپٹ، مچھلی،ہر قسم کے فریزڈ گوشت، فرنیچر، فروٹ، ڈرائی فروٹ، جیمز، جیلی، کنفکشریز، سی بی یو کنڈیشن میں ہوم اپلانسز،کارن فلیکس اور دوسرے تیار شدہ سریلیکس، ویجیٹیبل و فروٹ جوسز، لیدر جیکٹس، میٹرس، سلیپنگ بیگ، میوزیکل آلات، ہر قسم کے اسلحہ و گولہ بارود (دفاعی کے علاوہ) ٹریول بیگ، ایئر کرافٹس،شپس،کچن وییرز،کراکری کے سامان سمیت تین درجن سے زائد اشیاء کی درآمد پر پچیس فیصد جی ایس ٹی عائد کیا ہے۔

یہ سارے فیصلے اور اقدامات پاکستان کے شدید نوعیت کے مالی اور اقتصادی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں' آج پاکستان میں جو بھی ادارے قائم و دائم ہیں اور ان اداروں کے عہدے داران اور ملازمین جو اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قومی خزانے سے ان اداروں کو قائم رکھنے کے لیے ان کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے داران اور ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں' اگر کسی ملک کی معیشت بیٹھ جائے تو نہ کوئی ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی اختیار باقی بچے گا۔ جب جیب خالی ہو تو کوئی دوست رہتا ہے اور نہ رشتے دار۔ دنیا میں بہت سی مضبوط اور طاقتور ریاستیں مالی بحران کا شکار ہو کر بکھر گئیں۔

حالیہ تاریخ میں سوویت یونین کی مثال سب کے لیے ایک سبق ہے۔ سوویت یونین افغان جنگ کی وجہ سے شدید معاشی دباؤ کا شکار ہو گیا تھا لیکن اس دوران سوویت یونین میں ادارہ جاتی کشمکش نے اس معاشی بحران کو مزید گہرا کر دیا اور پھر آخر میں اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ سوویت یونین بکھر گیا۔ اس کے علاوہ سابق یوگو سلاویہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوا۔ سوڈان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ سوڈان کے اقتدارپر قابض اس وقت کے حکمرانوں اور سوڈان کے ریاستی اداروں کے سربراہان فہم و تدبر سے عاری فیصلے کر رہے تھے۔

ملک میں مسلح گروہ موجود تھے لیکن اس کے باوجود کسی نے حالات کا ادراک نہیں کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ملک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ آج جنوبی سوڈان کے نام سے ایک آزاد اور خود مختار ریاست قائم ہے۔

صومالیہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے' یہ ملک اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتاہے۔ یہاں بھی باہمی سیاسی کشمکش اور انتہا پسندی کے غلبے نے ملک کو خانہ جنگی کا شکار کر دیا 'دہشت گروپ تاک میں بیٹھے تھے اور انھوں نے اپنا کام دکھا دیا ' آج صومالیہ دنیا کے بدحال ترین اور غیرمحفوظ ترین ملکوں میں شامل ہے اور اس کا ایک حصہ صومالیہ لینڈ کے نام سے الگ ہو چکا ہے۔

یمن' شام اور عراق بھی ہمارے سامنے ہیں۔ نقشے پر یہ ریاستیں اپنی پرانی سرحدوں پر قائم نظر آتی ہیں لیکن عملاً یہاں وارلارڈز کی حکومتیں ہیں' معیشت کا نام و نشان نہیں ہے جو انفراسٹرکچر قائم تھا وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ افغانستان تو ہمارے بالکل شمال مغرب میں ہے 'یہاں بھی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔

افغانستان کی اشرافیہ آج تک اپنے ملک کے لیے اکٹھی نہیں ہوئی'قوم پرستی اور وطن پرستی کے نعرے ضرور لگائے جاتے ہیں لیکن ان کا مطلب کسی کو پتہ نہیں ہے ' ہر گروہ کا اپنا بیانیہ اور اپنا قوم پرستی کا نظریہ ہے۔

ایسے ملک کبھی تہذیب و تمدن اور سائنسی و معاشی ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس میں پاکستان کے فیصلہ سازو ں اور سٹیک ہولڈرز کے لیے سبق موجود ہے۔ بشرطیکہ وہ یہ سبق پڑھنے کے لیے تیار ہوں۔
Load Next Story