بہت شور سنتے تھے
ڈار صاحب نے لاہور کے مشہور ہیلے کالج آف کامرس سے گریجوئیشن کی ہے
جناب عمران خان کی حکومت بنے تقریباً ڈھائی سال ہو چلے تھے، یکے بعد دیگرے کئی وزیرِ خزانہ تبدیل ہو چکے تھے لیکن پاکستانی معیشت روز بروز نیچے جارہی تھی۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا، بجلی، گیس، پیٹرول اور اشیائے صرف کی قیمتوں کو پر لگے ہوئے تھے۔ ڈالر مہنگا اور روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھو رہا تھا۔
افواجِ پاکستان نے گذشتہ سال کے بجٹ میں رضا کارانہ طور پر اضافہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں ایک دن اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست کے ہاں چائے پر مدعو تھا۔ میرے یہ دوست پاک فوج سے بہت سینیئر عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے میرے یہ دوست ملک کی معاشی زبوں حالی پر پریشان تھے۔
باتوں باتوں میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی ہے جو جناب عمران خان صاحب کو درخواست کرے کہ ن لیگ سے بات کر کے اسحاق ڈار کو لے آئیں، ان کے خیال میں اسحاق ڈار جیسا کہنہ مشق وزیرِ خزانہ ہی معیشت سنبھال سکتا ہے۔میرے اس عزیز دوست کی طرح بہت سے پاکستانی بھی ایسا ہی سمجھتے تھے ۔
ڈار صاحب نے لاہور کے مشہور ہیلے کالج آف کامرس سے گریجوئیشن کی ہے۔ جناب نوازشریف اور اسحاق ڈار صاحب تین سال تک ایک ہی مادرِ علمی میں پڑھتے رہے، یوں دونوں میں دوستی ہوگئی۔یہی وہ تعلق ہے کہ اسحاق ڈار صاحب سیاست کے میدان میں آتے ہی وزارت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو گئے۔
بعد میں جناب نواز شریف سے رشتے داری قائم ہو جانے پر ن لیگ میں مزید اہم ہو گئے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات میں انھیں ہی ن لیگ کی مذاکراتی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا۔اسحاق ڈار صاحب نے انگلینڈ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی۔اکاؤنٹنسی اور معیشت دو بہت مختلف ڈسپلن ہیں لیکن پاکستان کی بھی عجیب قسمت ہے،وہ جن کو محاذ ِجنگ پر دشمن کے خلاف لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
وہ سیاست کے میدان میں داخل ہو کر ریاست کو چلانے کے ماہر ہونے کے دعوے دار بن کھڑے ہوتے ہیں۔وہ جو بین کر ہوتے ہیں، جنھیں سوا بینک چلانے کے کچھ نہیں آتا، ان کے حوالے وزارتِ خزانہ کر دی جاتی ہے۔جناب شوکت ترین صاحب ایک بینکر ہیں اور ان کی ساری مہارت بنکینگ سیکٹر تک محدود ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان سے اپنا بینک تو چل نہیں پا رہا تھا اور جنرل باجوہ کے کہنے پر انھیں ملکی معیشت کا ذمے دار بنا دیا گیا۔
محترمہ مریم اورنگ زیب کی میڈیا میں کوئی تربیت و مہارت نہیں لیکن انھیں میڈیا جیسا انتہائی اہم شعبہ دے دیا گیا۔جناب اسد عمر کے بارے میں بھی بڑا غلغلہ اور شورتھا کہ جناب عمران خان کی ٹیم میں معیشت کو ان سے بہتر کوئی چلانے والا نہیں اور یہ کہ وہ پاکستانی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے حالانکہ وہ جس کارپوریشن سے بھاری تنخواہ اور مراعات لے رہے اور اس کی سربراہی کررہے تھے ، وہ کارپوریشن زوال کا شکار ہونے لگی تھی ۔جس سے ایک کارپوریشن نہ چل پا رہی تھی، اس کے حوالے پاکستان کی وزارتِ خزانہ کر دی گئی اور پھر وہی ہوا جو ہوناچاہیے تھا۔ جناب اسد عمر نے اپنی وزارتِ خزانہ کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی پاکستانی معیشت کے کڑاکے نکال دیے۔
پاکستان کی معیشت کتنی خراب ہے، اس کا اندازہ لگانا اب کوئی مشکل نہیں۔ خواص کی تو بات چھوڑیں، عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے بہت قریب ہیں۔ اس معیشت کو بہتر کرنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن سارے اقدامات وہ کیے جا رہے ہیں جن سے عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہو،مہنگائی بڑھے اور غریب اپنی جان سے جائے لیکن ان اقدامات سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔
جن سے بڑے،طاقتور اور امیر لوگوں کی زندگیوں پر ذرہ برابر بھی منفی اثر پڑے۔ ہر ایک اس بات پر حیران ہے کہ انتہائی زرخیز زمین رکھنے والے اور ساری دنیا میں ایک بڑے نہری نظام رکھنے والے زرعی ملک کو گندم روس اور یوکرین سے کیوںمنگوانی پڑ رہی ہے؟یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کے اندر زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
کیش کراپ کے نام پر اجناس اور خاص کر گندم چنے اور دالوں کی پیداوار سے منہ موڑا گیا۔ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنجر اور پہاڑی زمین کے بجائے لہلہاتے کھیتوں کی جگہ پر بسایا جا رہا ہے۔بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کے لیے زرعی پیداوار پر ٹیکس چھوٹ ہے۔ماضی کے اس شاندار زرعی ملک کے مکینوں کی فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ لگژری آئٹمز کی درآمد کی اجازت دے کر قیمتی زرِ مبادلہ ضایع کرنے کے بجائے کچھ عرصے کے لیے صرف اُن صنعتوں کو مشینری در آمد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جو اپنی پروڈکٹس ملک سے باہر بھیج کر قیمتی زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔اسی طرح نالج اور ٹیکنالوجی بیسڈ اکانو می knowledge n technology based economy کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کو بہت ترجیحی بنیادوں پر ری سٹرکچر کرنے کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے ہر ایک کو مجبوراٍ چھوٹی بڑی اپنی ٹرانسپورٹ رکھنی پڑتی ہے۔ اگر اچھی اور عمدہ پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہو توہر ایک کو اپنی گاڑی رکھنے یا نکالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے جس سے پٹرول کی بچت ہو گی۔
گاڑیوں کی در آمد بھی کم ہو گی، یوں قیمتی زرِ مبادلہ باہر منتقل ہو نے سے بچے گا اور سڑک پر گاڑیاں کم ہونے سے فضائی آلودگی میں بھی کمی آئے گی۔وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے ابھی چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان سے ڈالر باہر اسمگل ہو رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ ڈالر باہر اسمگل ہو رہا ہے،آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ کون سی سیکیورٹی کمپنی کی گاڑیوں میں یہ ڈالر پشاور پہنچایا جا رہا ہے تو پھر آپ نے اس اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے ہیں۔
جناب مفتاح اسمٰعیل نے بھی ایک پریس کانفرنس میں قوم کو بتایا تھا کہ ملکی پرائیویٹ بینک پیسے بنانے کے لیے ڈالر کی قدر میں اضافے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔کیا ان بینکوں اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔
ابھی چند دن پہلے بغیر کسی وجہ کے صرف چند گھنٹوں میں روپے کی قدر کم کر کے ڈالر کا ریٹ ساڑھے اٹھارہ روپے بڑھایا گیا۔اگر ان بینکوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ سپیکولیشن کی بنیاد پر پاکستانی کرنسی کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سپیکولیشن کو روکنا وزارتِ خزانہ کا کام ہے یا کسی اور کا۔
جناب اسحاق ڈار صاحب ایک دفعہ سرمایہ کاری کے وزیر اور اب چوتھی بار خزانے کے وزیر بنے ہیں۔یہ بہت کم ہوا ہے کہ خزانے جیسی اہم وزارت کسی کو چوتھی بار ملی ہو۔ایک ہی وزارت کا اتنا بھرپور تجربہ ہو جانے کے بعد اتنی ناقص کارکردگی بہت ہی باعثِ تشویش ہے۔وزیرِ اعظم نے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے آنے کی خبر سے ہی ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا ہے۔
جناب اسحاق ڈار نے تو طیارے سے اترتے اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی کہا کہ ان کے جہاز میں بیٹھتے ہی ڈالر پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔اتنی بڑی بڑی باتیں اور حاصل کچھ نہین۔دراصل اسحاق ڈار ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔ معیشت ان کی فیلڈ ہی نہیں۔خدا کرے ہم رائٹ پرسن فار دا رائٹ جاب Right person for the right jobکی خوبصورت روایت کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
افواجِ پاکستان نے گذشتہ سال کے بجٹ میں رضا کارانہ طور پر اضافہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں ایک دن اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست کے ہاں چائے پر مدعو تھا۔ میرے یہ دوست پاک فوج سے بہت سینیئر عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے میرے یہ دوست ملک کی معاشی زبوں حالی پر پریشان تھے۔
باتوں باتوں میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی ہے جو جناب عمران خان صاحب کو درخواست کرے کہ ن لیگ سے بات کر کے اسحاق ڈار کو لے آئیں، ان کے خیال میں اسحاق ڈار جیسا کہنہ مشق وزیرِ خزانہ ہی معیشت سنبھال سکتا ہے۔میرے اس عزیز دوست کی طرح بہت سے پاکستانی بھی ایسا ہی سمجھتے تھے ۔
ڈار صاحب نے لاہور کے مشہور ہیلے کالج آف کامرس سے گریجوئیشن کی ہے۔ جناب نوازشریف اور اسحاق ڈار صاحب تین سال تک ایک ہی مادرِ علمی میں پڑھتے رہے، یوں دونوں میں دوستی ہوگئی۔یہی وہ تعلق ہے کہ اسحاق ڈار صاحب سیاست کے میدان میں آتے ہی وزارت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو گئے۔
بعد میں جناب نواز شریف سے رشتے داری قائم ہو جانے پر ن لیگ میں مزید اہم ہو گئے اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات میں انھیں ہی ن لیگ کی مذاکراتی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا۔اسحاق ڈار صاحب نے انگلینڈ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی۔اکاؤنٹنسی اور معیشت دو بہت مختلف ڈسپلن ہیں لیکن پاکستان کی بھی عجیب قسمت ہے،وہ جن کو محاذ ِجنگ پر دشمن کے خلاف لڑنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
وہ سیاست کے میدان میں داخل ہو کر ریاست کو چلانے کے ماہر ہونے کے دعوے دار بن کھڑے ہوتے ہیں۔وہ جو بین کر ہوتے ہیں، جنھیں سوا بینک چلانے کے کچھ نہیں آتا، ان کے حوالے وزارتِ خزانہ کر دی جاتی ہے۔جناب شوکت ترین صاحب ایک بینکر ہیں اور ان کی ساری مہارت بنکینگ سیکٹر تک محدود ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان سے اپنا بینک تو چل نہیں پا رہا تھا اور جنرل باجوہ کے کہنے پر انھیں ملکی معیشت کا ذمے دار بنا دیا گیا۔
محترمہ مریم اورنگ زیب کی میڈیا میں کوئی تربیت و مہارت نہیں لیکن انھیں میڈیا جیسا انتہائی اہم شعبہ دے دیا گیا۔جناب اسد عمر کے بارے میں بھی بڑا غلغلہ اور شورتھا کہ جناب عمران خان کی ٹیم میں معیشت کو ان سے بہتر کوئی چلانے والا نہیں اور یہ کہ وہ پاکستانی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے حالانکہ وہ جس کارپوریشن سے بھاری تنخواہ اور مراعات لے رہے اور اس کی سربراہی کررہے تھے ، وہ کارپوریشن زوال کا شکار ہونے لگی تھی ۔جس سے ایک کارپوریشن نہ چل پا رہی تھی، اس کے حوالے پاکستان کی وزارتِ خزانہ کر دی گئی اور پھر وہی ہوا جو ہوناچاہیے تھا۔ جناب اسد عمر نے اپنی وزارتِ خزانہ کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی پاکستانی معیشت کے کڑاکے نکال دیے۔
پاکستان کی معیشت کتنی خراب ہے، اس کا اندازہ لگانا اب کوئی مشکل نہیں۔ خواص کی تو بات چھوڑیں، عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے بہت قریب ہیں۔ اس معیشت کو بہتر کرنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن سارے اقدامات وہ کیے جا رہے ہیں جن سے عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہو،مہنگائی بڑھے اور غریب اپنی جان سے جائے لیکن ان اقدامات سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔
جن سے بڑے،طاقتور اور امیر لوگوں کی زندگیوں پر ذرہ برابر بھی منفی اثر پڑے۔ ہر ایک اس بات پر حیران ہے کہ انتہائی زرخیز زمین رکھنے والے اور ساری دنیا میں ایک بڑے نہری نظام رکھنے والے زرعی ملک کو گندم روس اور یوکرین سے کیوںمنگوانی پڑ رہی ہے؟یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کے اندر زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
کیش کراپ کے نام پر اجناس اور خاص کر گندم چنے اور دالوں کی پیداوار سے منہ موڑا گیا۔ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنجر اور پہاڑی زمین کے بجائے لہلہاتے کھیتوں کی جگہ پر بسایا جا رہا ہے۔بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنے کے لیے زرعی پیداوار پر ٹیکس چھوٹ ہے۔ماضی کے اس شاندار زرعی ملک کے مکینوں کی فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ لگژری آئٹمز کی درآمد کی اجازت دے کر قیمتی زرِ مبادلہ ضایع کرنے کے بجائے کچھ عرصے کے لیے صرف اُن صنعتوں کو مشینری در آمد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے جو اپنی پروڈکٹس ملک سے باہر بھیج کر قیمتی زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔اسی طرح نالج اور ٹیکنالوجی بیسڈ اکانو می knowledge n technology based economy کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کو بہت ترجیحی بنیادوں پر ری سٹرکچر کرنے کی ضرورت ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے ہر ایک کو مجبوراٍ چھوٹی بڑی اپنی ٹرانسپورٹ رکھنی پڑتی ہے۔ اگر اچھی اور عمدہ پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہو توہر ایک کو اپنی گاڑی رکھنے یا نکالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے جس سے پٹرول کی بچت ہو گی۔
گاڑیوں کی در آمد بھی کم ہو گی، یوں قیمتی زرِ مبادلہ باہر منتقل ہو نے سے بچے گا اور سڑک پر گاڑیاں کم ہونے سے فضائی آلودگی میں بھی کمی آئے گی۔وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار نے ابھی چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان سے ڈالر باہر اسمگل ہو رہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ ڈالر باہر اسمگل ہو رہا ہے،آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ کون سی سیکیورٹی کمپنی کی گاڑیوں میں یہ ڈالر پشاور پہنچایا جا رہا ہے تو پھر آپ نے اس اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے ہیں۔
جناب مفتاح اسمٰعیل نے بھی ایک پریس کانفرنس میں قوم کو بتایا تھا کہ ملکی پرائیویٹ بینک پیسے بنانے کے لیے ڈالر کی قدر میں اضافے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔کیا ان بینکوں اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔
ابھی چند دن پہلے بغیر کسی وجہ کے صرف چند گھنٹوں میں روپے کی قدر کم کر کے ڈالر کا ریٹ ساڑھے اٹھارہ روپے بڑھایا گیا۔اگر ان بینکوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ سپیکولیشن کی بنیاد پر پاکستانی کرنسی کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سپیکولیشن کو روکنا وزارتِ خزانہ کا کام ہے یا کسی اور کا۔
جناب اسحاق ڈار صاحب ایک دفعہ سرمایہ کاری کے وزیر اور اب چوتھی بار خزانے کے وزیر بنے ہیں۔یہ بہت کم ہوا ہے کہ خزانے جیسی اہم وزارت کسی کو چوتھی بار ملی ہو۔ایک ہی وزارت کا اتنا بھرپور تجربہ ہو جانے کے بعد اتنی ناقص کارکردگی بہت ہی باعثِ تشویش ہے۔وزیرِ اعظم نے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے آنے کی خبر سے ہی ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا ہے۔
جناب اسحاق ڈار نے تو طیارے سے اترتے اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی کہا کہ ان کے جہاز میں بیٹھتے ہی ڈالر پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔اتنی بڑی بڑی باتیں اور حاصل کچھ نہین۔دراصل اسحاق ڈار ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔ معیشت ان کی فیلڈ ہی نہیں۔خدا کرے ہم رائٹ پرسن فار دا رائٹ جاب Right person for the right jobکی خوبصورت روایت کی طرف قدم بڑھا سکیں۔