خدا کرے

پاکستان اور بھارت نے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے سفر کا آغاز ایک ساتھ کیا تھا

S_afarooqi@yahoo.com

اگر آپ برطانیہ کے کسی کتب فروش کی دکان پر جائیں اور اُس سے برطانوی آئین طلب کریں تو جانتے ہیں کہ اُس کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ اُس کے ذہن کو ایک زبردست دھچکا لگے گا اور پھر اُس کے بعد وہ حیرت سے آپ کا منہ تکنے لگے گا اور پھر یہ سوچنے لگے گا کہ خدانخواستہ کہیں آپ کا دماغ تو نہیں چل گیا اِس کے بعد وہ سر ویری سوری کہہ کر آپ سے انتہائی معذرت کرے گا۔

بات یہ ہے کہ جس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہے وہ بھلا کسی کو کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ برطانیہ کا چونکہ کوئی تحریری آئین ہے ہی نہیں اس لیے اِس کی خرید و فروخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے بغیر برطانیہ کا نظام حکومت نہ صرف چل رہا ہے بلکہ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے اور دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بھی ہے۔

بات یہ ہے کہ برطانیہ کا نظامِ حکومت محض جمہوری روایات پر قائم و دائم ہے جن کی پاسبانی اور پاسداری انتہائی محکم اور مستحکم ہے،یہ وہ پارلیمانی نظام ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

پاکستان اور بھارت نے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے سفر کا آغاز ایک ساتھ کیا تھا لیکن بھارت میں چند باتیں ایسی ہوگئیں جن کی بنا پر وہاں ایک منزل کا تعین ہوگیا اور اُس تک پہنچے کا راستہ بھی طے پاگیا۔ بدقسمتی سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی جلد رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

بھارت میں وہاں کی مخلص قیادت نے آزادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ماہر ِ آئین بی آر امبیڈکر کی سربراہی میں ایک آئین ساز کمیٹی تشکیل دے دی جس نے دنیا کے مختلف ممالک کے آئینوں کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد بھارت کا ایک تحریری آئین تیار کردیا۔

اِس آئین کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں تمام ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کی گنجائش رکھی گئی ہے، اس لیے وہاں نہ تو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہے جس کا کوئی حل آئین میں موجود نہ ہو اور نہ ہی کسی بیرونی طاقت کی مداخلت کی کوئی گنجائش باقی ہے۔

بھارت نے تحریری آئین کے علاوہ برطانوی نظام کی پیروی کرتے ہوئے بعض جمہوری روایات کی بھی پیروی کی ہے جس کی وجہ سے وہاں کا نظامِ حکومت اور بھی مضبوط ہوگیا ہے۔

جہاں تک بھارتی عدلیہ کا معاملہ ہے تو وہ قطعی آزاد ہے اور کسی بڑی سے بڑی قوت کی مجال نہیں کہ اُس کے معاملہ میں مداخلت کرے یا اثر انداز ہو۔ کمانڈر نانا وتی کے مقدمہ میں یہ بات واضح ہوگئی کہ بھارت کے اُس وقت کے طاقتور وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا دباؤ بھی سپریم کورٹ کو ٹَس سے مَس نہیں کرسکا اور پھر یہ روایت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے پاگئی کہ عدالت عظمیٰ وہ ادارہ ہے جس کے حکم کی تعمیل ہر کسی پر لازم ہے۔


وطن عزیز کا پہلا آئین انتہائی تاخیر کے بعد 1956 میں تیار ہوا، اور جو 23مارچ 1956سے لاگو ہوا۔یہ آئین اپنے نفاذکے دو سال چھ ماہ ہی باقی رہ سکا اور سات اکتوبر 1958کے مارشل لاء کے تحت ختم کردیا گیا ۔

انتہائی افسوس یہ ہے کہ یہ آئین بھی موم کی ناک کی طرح کمزور اور لچکدار تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے نظریہ ضرورت کی گنجائش نکال کر آمریت کا جواز پیدا کردیا پھر اُس کے بعد چل سو چل۔

کُفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق 1973 میں تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رضامندی سے وطن عزیز کو ایک مطلوبہ آئین میسر آیا۔

یہ اور بات ہے کہ اُس آئین میں وقتاً فوقتاً ترامیم ہوتی رہیں پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ جب آمریت کے خلاف پاکستان میں ایک انتہائی زوردار ملک گیر تحریک چلی جس میں ملک کے وکلاء نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اُس وقت کے چیف جسٹس نے انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آمریت سے ٹکر لی اور اُس کے نتیجہ میں نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا اور سپریم کورٹ کی بالا دستی قائم ہوگئی جس کی بدولت موجودہ سیاسی بحران میں سپریم کورٹ کو بالادستی حاصل ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز کچھ عرصہ سے سیاسی جماعتوں میں شدید اختلافات کی وجہ سے ایک انتہائی سنگین صورتحال کے بھنور میں پھنس گیا ہے جس کی وجہ سے ایک بھیانک صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ہر محب وطن پاکستانی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہا ہے کہ نہ جانے اِس ملک کا کیا بنے گا؟

ہزار کوششوں کے باوجود اِس سیاسی معمہ کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا تو ملک کے اہم ترین ادارہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اِس پیچیدہ صورتحال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ اِس سنگین صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے آئین کے مطابق نوے دن کے اندر اندر عام انتخابات کرا دیے جائیں اور جن دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں وہاں گورنر کی تجویز کے مطابق الیکشن کی تاریخ مقرر کی جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ کرائے جائیں؟ اِس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ اِس کام کو ایک ہی دن میں نمٹادیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اِس میں وقت اور اخراجات دونوں کی بچت ہوگی۔

آخر میں دعا یہ ہے کہ خدا کرے اِس تمام مسئلہ کا کوئی کارگر حل نکل آئے جس پر تمام فریقین متفق ہوں۔
Load Next Story