مریم نواز اور عمران خان میں مکالمہ ممکن ہے

مریم نواز اور عمران خان کا مذاکرات و مکالمے کی میز پر بیٹھنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

یہ مبار ک اور مسعود لمحہ ہے۔4مارچ 2023کو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم ، جناب عمران خان ، نے ویڈیو لنک خطاب میں کہا:''سب سے بات اور سمجھوتہ کرنے کو تیار ہُوں۔'' اگرچہ اِس مثبت اور صلح کن بیان کے باجود موصوف نے اپنے مخالفین پر پھر بے بنیاد الزامات کی بارش کی اور کئی بیزار کن باتوں کو پھر دہرایا ،لیکن اِس کے باوصف اتحادی حکومت کے مرکزی قائدین کو خان صاحب کی اِس پیش کش سے مستفید ہونا چاہیے۔

عمران خان نے پچھلے چند برسوں کے دوران جس طرح کئی یُو ٹرنز لیے ہیں، ان کی موجودگی میں خان صاحب کی اِس نئی پیشکش پر یقین کرنا خاصا دشوار ہے۔لیکن اِس کے باوصف مکالمے اور مصافحے کی کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

چونکہ محترمہ مریم نواز نون لیگ کے اہم فیصلے کررہی ہیں، اس لیے مریم نواز ہی کو خان صاحب سے مذاکرات اور مفاہمت کی میز سجانی چاہیے۔ مریم نواز اور عمران خان کا مذاکرات و مکالمے کی میز پر بیٹھنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں ہے۔

پچھلے ایک ماہ کے دوران مریم نواز پنجاب بھر میں نون لیگی کارکنوں کے کئی کامیاب اور بھرپور جلسوں سے خطاب کر چکی ہیں، اس لیے یہ تجربات بھی اُنہیں مکالمے اور مفاہمت کی طاقت سے آگاہ کر چکے ہوں گے ۔

جب ہم محترمہ مریم نواز شریف اور جناب عمران خان کے درمیان مکالمے کے امکانات کی بات کرتے ہیںتو ہمیں جناب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو یاد آجاتے ہیں۔آمر جنرل ضیاء الحق کے آخری ایام کے دوران نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مخاصمت اور مخالفت اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی ۔ بے نظیر بھٹو سمجھتی تھیں (اور بجا سمجھتی تھیں) کہ نواز شریف کو ڈکٹیٹر ضیاء الحق اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اشیرواد اور پشت پناہی حاصل ہے۔

اِسی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو نواز شریف اور آمر ضیاء الحق کے خلاف بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما تھیں۔ عمران خان کے پونے چار سالہ اقتدار میں پی ٹی آئی کو بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمائت اور اعانت حاصل تھی۔ یوں محترمہ مریم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے جذبات و احساس میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے ۔

ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی اقتدار اور زندگی سے رخصتی کے بعد بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف میں مخاصمت اور مخالفت جاری رہی تھی۔ 80ء کا عشرئہ سیاست اِس امر کا گواہ اور شاہد ہے۔ بے نظیر بھٹو مرکز میں وزیر اعظم تھیں اور پنجاب میں نواز شریف وزیراعلیٰ۔ دونوں کے درمیان عناد اپنے عروج پر تھا۔

دونوں کے صحافی بھی الگ الگ تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر ممکنہ کوششیں بھی کیں اور ہر ہتھکنڈہ بھی بروئے کار لاتے رہے۔ یہ ''جنگ'' طویل عرصہ تک ہوتی رہی۔ آخر میں دونوں متحارب سیاسی فریقین نے بہت کچھ گنوا کر یہ سبق سیکھا کہ اُن کی باہمی مخالفت و عداوت سے کوئی تیسرا فریق اپنے مفادات سمیٹ رہا ہے ۔ یہ احساس و خیال ہی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو، لندن میں، میثاقِ جمہوریت (COD) پردستخط کروانے پر مجبور کر گیا ۔


اگرماضی قریب میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف اپنی اپنی سیاسی دشمنیاں اور ناراضیاں پسِ پشت ڈال کر ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت اور صلح کر سکتے تھے تو آج محترمہ مریم نواز اور جناب عمران خان مکالمے کی میز پر کیوں نہیں بیٹھ سکتے ؟ تسلیم کہ پچھلے کئی برسوں کے دوران عمران خان نے نون لیگ اور شریف خاندان کے ساتھ بہت سی زیادتیاں کی ہیں ، سنگین اور ناقابلِ فراموش تہمتیں عائد کی ہیں، لیکن مریم نواز شریف کو ان سنگین الزامات کو کھلے دل سے معاف کرکے عمران خان سے مصافحہ اور مکالمہ کرنا چاہیے ۔

اِسی مکالمے میں مملکتِ خداداد پاکستان کی سلامتی اور سالمیت پوشیدہ ہے۔ اگرچہ جناب آصف علی زرداری، پنجاب کے شہر وہاڑی میں یوں بیان دے چکے ہیں: ''ملک بھر کی سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہو سکتی ہے لیکن عمران خان ایسے غیر سیاسی شخص سے بات نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ صاحب ہر بات کرنے کے بعد یُوٹرن لے لیتے ہیں۔'' وزیر اطلاعات، مریم اورنگزیب صاحبہ، بھی کہہ چکی ہیں کہ '' عمران خان روئیں یا چیخیں ، سمجھوتے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔''وزیر اعظم کے مشیر ، عطا تارڑ ، نے بھی کہا ہے کہ '' عمران خان ایسے شخص سے مکالمہ ناممکن ہے ۔'' واقعہ یہ ہے کہ انکار کی یہ نوبت خان صاحب کے رویوں کی وجہ سے پیدا ہُوئی ہے ۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مکالمے سے انکار کی یہ فضا فریقین کے مابین کھنچے دھاگے کو توڑ ڈالے گی۔ نواز شریف کی صاحبزادی صلح کے اِس دھاگے کو مکالمے کی طاقت سے سلامت رکھ سکتی ہیں۔ محترمہ مریم نواز شریف، جناب عمران خان کے مقابل کم عمر ہیں لیکن انرجی اور مقبولیت میں کسی بھی طرح کم نہیں۔ پی ٹی آئی کو شائد یہ جملہ گراں گزرے لیکن واقعہ یہی ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کا ہے۔

یوں پاکستان کے محفوظ اور سنہری مستقبل کے تقاضے یہی ہیں کہ مریم نواز شریف، بلاول بھٹو اور عمران خان کے درمیان مخاصمت کی بجائے مفاہمت کے مناظر اُبھریں۔ عمران خان نے سنگین الزامات سے بیک وقت اپنے کئی مخالفین کے دل دکھائے ہیں ۔

اُنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ مفاہمانہ روئیے سے عاری ہیں۔ اب وہ مجبوراً''ہر ایک '' سے مکالمہ اور مصافحہ کرنے کے متمنی ہیں تو اِس موقع کو بھی ضایع نہیں کیا جانا چاہیے ۔ اگر نون لیگی قیادت اِس موقع سے مستفید ہوتی ہے تو یقیناً اس کے باطن سے خیر برآمد ہوگی۔

محترمہ مریم نواز شریف خوب جانتی اور سمجھتی ہیں کہ عمران خان مکالمے اور مصافحے کی جانب آئے ہیں تواُنہوں نے پتھر چاٹ کر واپسی کی یہ راہ اختیار کی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ عمران خان کی ''جیل بھرو تحریک'' میں عوام کی اکثریت نے جس طرح پی ٹی آئی کو ٹھینگا دکھایا ہے،اس منظر سے خان صاحب کی توقعات کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ''مَیں نہیں تو کچھ بھی نہیں'' کی پالیسی اور سوچ نے بھی خان صاحب کو بحثیتِ مجموعی نقصان پہنچایا ہے۔

اُنہوں نے اپنے دَورِ اقتدار میں اپوزیشن کی متعدد تعاونی پیشکشوں کو جس تحقیری اسلوب میں مسترد کیا، اِس عمل نے خان صاحب کی سیاست و شخصیت کو بٹّہ ہی لگایا ۔ اگر وہ چند سال قبل ہی شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے ساتھ بیٹھ کر سیاست و اقتدار کی کشتی میں بیٹھتے تو آج پاکستان کی شکل و صورت مختلف ہوتی ۔ افسوس خان صاحب کی ضد ، یُو ٹرنز اور مخالفین بارے تہمت بازیوں نے ملک کا سیاسی ماحول مسلسل آلودہ کیے رکھا۔

اب وہ از خود ''سب سے بات اور سمجھوتہ کرنے '' کا پیغام دے رہے ہیں تو کوئی اُن پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ لیکن ''یہاں تک تو آئے ، یہاں تک تو پہنچے'' کے مصداق ، اِس موقع اور پیشکش کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔

محترمہ مریم نواز شریف کو نون لیگ کی نائب صدر ، چیف آرگنائزر اور پارٹی کے سپریم لیڈر کی صاحبزادی ہونے کے ناتے نون لیگ کی سینئر قیادت کو قائل اور مائل کرنا چاہیے کہ عمران خان کے آگے بڑھے ہاتھ کو جھٹک دینا مناسب نہیں ہو گا۔
Load Next Story