ساحر لدھیانویؔ
ساحری اپنی شرطوں پہ گیت لکھتے تھے اور موسیقار کا انتخاب بھی کرتے تھے
ساحر لدھیانوی اردو شاعری کا ایک ایسا نام ہے جس نے ادبی دنیا اور فلمی دنیا میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔ انڈین فلموں کی شاعری کو دیکھیے تو اس میں آپ کو ایک چاشنی، گداز پن، احساس اور ادبیت نظر آئے گی۔ ساحر کا نام عبدالحئی تھا۔
ان کے والد لدھیانے کے ایک بہت بڑے زمیندار تھے۔ انھوں نے ساحر کا نام ایک خاص مقصد سے عبدالحئی رکھا تھا۔ ساحر کے والد فضل حسین کے پڑوسی کا نام عبدالحئی تھا، جن سے ان کی نہیں بنتی تھی، وہ گھر کے باہر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور عبدالحئی کا نام لے کر انھیں خاصا برا بھلا کہتے تھے، جب ان کے پڑوسی برا مانتے تو وہ مسکرا کر کہتے کہ '' میں تو اپنے بیٹے کو گالیاں دے رہا تھا، تمہیں کیا تکلیف ہے؟'' ساحر کا بچپن بڑی کٹھنائیوں اور کسمپرسی میں گزرا۔ اس نے ہوش سنبھالا تو ہر وقت اپنے ماں باپ کو لڑتے جھگڑتے پایا، اوپر سے باپ کا سخت رویہ ، ان کے باپ نے ان کی والدہ سردار بیگم کو طلاق دے دی۔
اس وقت ساحر کی عمر صرف تیرہ سال تھی، پھر ان کے والد نے دوسری شادی کر لی اور ساتھ ہی بیٹے کی کسٹڈی کا کیس بھی کردیا، لیکن عدالت نے ساحر کے حق میں فیصلہ دیا جو اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم نے اپنے بیٹے کو بڑی مشکل سے پالا۔ ساحر نے لدھیانہ کے خالصہ کالج سے گریجویشن کیا۔
ساحر کا جنم 8 مارچ 1921 میں ہوا ، اور ان کا پہلا شعری مجموعہ تلخیاں صرف 24 سال کی عمر میں شایع ہو کر مقبولیت کی ساری حدیں پار کر گیا۔ تلخیاں میں شامل اشعار سے ان کی زندگی کے تجربات ، مایوسیوں اور دکھوں کا پتا چلتا ہے۔ ''تلخیاں ''کے شروع میں یہ شعر درج ہے:
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر نے شاعری شروع کی تو فیض احمد فیض، مجاز، جگر، اقبال کے نغمے گونج رہے تھے، وہ فکری اعتبار سے فیض اور مجاز سے زیادہ قریب ہیں۔ ساحر بھی ترقی پسند شاعر تھے۔ ایسے معتبر شعرا کی موجودگی میں اپنی ذات کا احساس دلانا بڑی بات ہے۔ فیض صاحب کی مشہور نظم '' مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ '' کو پڑھیے اور پھر ساحرکی یہ نظم دیکھیے جسے فلم ''دیدی'' میں سودھا ملہوترا اور مکیش نے گایا ہے:
تم مجھے بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
تم کو دنیا کے غم و درد سے فرصت نہ سہی
سب سے الفت سہی مجھ سے ہی محبت نہ سہی
میرے دل کی میرے جذبات کی قیمت کیا ہے
الجھے الجھے سے خیالات کی قیمت کیا ہے
اور بھی دل کو دکھاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں
عشق ہی ایک حقیقت نہیں کچھ اور بھی ہے
تم اگر آنکھ چراؤ تو یہ حق ہے تم کو
میں نے تم سے ہی نہیں سب سے محبت کی ہے
اسی طرح فیض صاحب کی ایک نظم ہے '' لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے'' اسے سامنے رکھیے اور ساحر کی ایک نظم '' وہ صبح کبھی تو آئے گی'' کا یہ بند دیکھیے:
جب دھرتی کروٹ بدلے گی ، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے ، وہ صبح ہم ہی سے آئے گی
منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے
جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے ، جب سر نہ اچھالے جائیں گے
جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ساحری اپنی شرطوں پہ گیت لکھتے تھے اور موسیقار کا انتخاب بھی کرتے تھے۔ فلم ساز کو ان کی بات ماننی ہی پڑتی تھی کہ فلمیں ساحر کے گیتوں سے چلتی تھیں۔ آج بھی مقبول فلمی گیتوں میں ساحر کے گیت ہی زیادہ سنے جاتے ہیں۔
عام طور پر یہ دستور ہے کہ موسیقار پہلے نغمے کی دھن بناتا ہے اور بعد میں شاعر ان دھنوں پہ گیت لکھتے ہیں ، لیکن ساحر پہلے گیت لکھ کر دیتے تھے اور پھر موسیقار سے کہتے تھے کہ ''اب تم دھن بناؤ'' اور سارے ہی گیت مقبول ہوتے تھے۔ فلمیں ساحر کے گیتوں کی بنا پر چلتی تھیں۔ ساحر نے کبھی معیار پہ سمجھوتہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے گیت سدا بہار اور امر ہیں۔
نظروں سے کہہ دو پیار میں ملنے کا موسم آ گیا
بانہوں میں بانہیں ڈال کر ملنے کا موسم آگیا
٭٭٭
تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی
نظارے ہم کیا دیکھیں
٭٭
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
٭٭
وقت نے کیا کیا سہے ستم
تم رہے نہ تم' ہم رہے نہ ہم
ساحر سے پہلے نغمہ نگار کو رائلٹی نہیں ملتی تھی اور نہ ہی نغمہ نگار کا نام نشر کیا جاتا تھا۔ ساحر نے اپنے اثر و رسوخ سے نہ صرف یہ کہ نغمہ نگار کو رائلٹی دلوائی بلکہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی یہ بات منوائی کہ وہ گلوکار اور موسیقار کے ساتھ نغمہ نگار کا نام بھی نشر کرے۔ ساحر نے سوسائٹی کے مظلوم طبقوں کی بھی نمایندگی کی ہے۔ مثلاً طوائفیں، مزدور، کسان اور عورت۔ ذرا یہ اشعار دیکھیے، نظم ''چکلے'' سے:
یہ کوچے بہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کاررواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی ابا میاں بھی
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہ کوچے یہ گلیاں ، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاؤ
(جاری ہے)