معروف مصور گل جی کے قاتلوں کو 7 سال بعد بھی سزا نہیں دی جاسکی
عالمی شہرت یافتہ مصور کے ڈرائیور اور چوکیدار نے19دسمبر2007کوکلفٹن بلاک3میں گل جی،انکی اہلیہ اور ملازمہ کوقتل کردیا تھا
پاکستان میں مصوری اور فن خطاطی میں نئی تاریخ رقم کرنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور اسماعیل گل جی، ان کی اہلیہ زرین گل جی اور ملازمہ آسیہ کو 7 برس قبل قتل کردیا گیا تھا۔
مقتولین کی لاشیں 3 روز بعد ان کے گھر سے ملی تھیں، پاکستان کے عظیم مصورجنھیں تجریدی آرٹ کا ماہر کہا جاتا تھا،کے قتل سے دنیا فن مصوری کی عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی لیکن7برس کا عرضہ بیت جانے کے باجود قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ تہرے قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں تاحال التوا کا شکار ہے۔ تفصیلات کے مطابق19دسمبر2007کوبوٹ بیسن کے علاقے کلفٹن بلاک 3بنگلہ st/2/aمیں رہائش پذیرممتاز مصوراور خطاط اسمعیل گل جی ،ان کی اہلیہ زرین گل جی اور ملازمہ آسیہ کی3 روز پرانی لاش گھر سے ملی تھی ، واردات کا پتہ اس وقت چلا جب گل جی کے بیٹے امین گل ان کے گھر آئے، گھنٹی بجانے کے بعد جب کوئی نہیں آیا تو وہ دیگرلوگوں کے ہمراہ بنگلے میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے دیکھاکہ اسماعیل گل جی کی لاش ان کے کمرے میں جبکہ انکی اہلیہ کی ہاتھ بندھی ہوئی لاش کچن میں پڑی تھی اور ملازمہ کی لاش کچن سے متصل کمرے پائی گئی۔
واقعے کی اطلاع پر پولیس نے لاشوں کو پوسٹ ماٹم کیلیے اسپتال پہنچایا اورضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردیا۔ تہرے قتل کی واردات اور ممتاز مصورکے قتل پر ہر شخص کو دکھ تھا، قتل کا مقدمہ بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا اور پولیس کیلیے بھی یہ قتل ایک معمہ تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں مقتولین کا ڈرائیوراور چوکیدار مقتول کی گاڑی کے ہمراہ غائب تھے، پولیس کو صرف شک تھا لیکن انکی تلاش جاری رکھی۔2 ماہ بعد16فروری کوکراچی کینٹ اسٹیشن کے قریب واقع مقامی ہوٹل میں ڈرائیور اکرم اور چوکیدار انور علی کی موجودگی کی اطلاع ملی، پولیس نے چھاپہ مار کر دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
دوران تفتیش ملزمان سے مقتول کے قیمتی نایاب فن پارے ، دیگر چوری کا سامان برآمد کیا گیا جبکہ ملزمان نے گاڑی پنجاب میں فروخت کردی تھی۔ ملزمان کیخلاف تحقیقات مکمل کرکے پولیس نے چالان عدالت میں جمع کرادیا تھا اور ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن تقریباً7برس گزر جانے کے باوجود مقدمہ کا فیصلہ ہوسکا اور نہ ہی قاتلوں کا تعین ہوسکا۔ اس دوران متعدد باراسپیشل پراسیکیوٹرز تبدیل ہوچکے ہیں، ملزمان کو سرکاری طور پر وکیل فراہم کیا گیا لیکن مقدمہ تاحال سیشن عدالت میں التواکا شکار ہے۔
مقتولین کی لاشیں 3 روز بعد ان کے گھر سے ملی تھیں، پاکستان کے عظیم مصورجنھیں تجریدی آرٹ کا ماہر کہا جاتا تھا،کے قتل سے دنیا فن مصوری کی عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی لیکن7برس کا عرضہ بیت جانے کے باجود قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ تہرے قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں تاحال التوا کا شکار ہے۔ تفصیلات کے مطابق19دسمبر2007کوبوٹ بیسن کے علاقے کلفٹن بلاک 3بنگلہ st/2/aمیں رہائش پذیرممتاز مصوراور خطاط اسمعیل گل جی ،ان کی اہلیہ زرین گل جی اور ملازمہ آسیہ کی3 روز پرانی لاش گھر سے ملی تھی ، واردات کا پتہ اس وقت چلا جب گل جی کے بیٹے امین گل ان کے گھر آئے، گھنٹی بجانے کے بعد جب کوئی نہیں آیا تو وہ دیگرلوگوں کے ہمراہ بنگلے میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے دیکھاکہ اسماعیل گل جی کی لاش ان کے کمرے میں جبکہ انکی اہلیہ کی ہاتھ بندھی ہوئی لاش کچن میں پڑی تھی اور ملازمہ کی لاش کچن سے متصل کمرے پائی گئی۔
واقعے کی اطلاع پر پولیس نے لاشوں کو پوسٹ ماٹم کیلیے اسپتال پہنچایا اورضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کردیا۔ تہرے قتل کی واردات اور ممتاز مصورکے قتل پر ہر شخص کو دکھ تھا، قتل کا مقدمہ بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا اور پولیس کیلیے بھی یہ قتل ایک معمہ تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں مقتولین کا ڈرائیوراور چوکیدار مقتول کی گاڑی کے ہمراہ غائب تھے، پولیس کو صرف شک تھا لیکن انکی تلاش جاری رکھی۔2 ماہ بعد16فروری کوکراچی کینٹ اسٹیشن کے قریب واقع مقامی ہوٹل میں ڈرائیور اکرم اور چوکیدار انور علی کی موجودگی کی اطلاع ملی، پولیس نے چھاپہ مار کر دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
دوران تفتیش ملزمان سے مقتول کے قیمتی نایاب فن پارے ، دیگر چوری کا سامان برآمد کیا گیا جبکہ ملزمان نے گاڑی پنجاب میں فروخت کردی تھی۔ ملزمان کیخلاف تحقیقات مکمل کرکے پولیس نے چالان عدالت میں جمع کرادیا تھا اور ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن تقریباً7برس گزر جانے کے باوجود مقدمہ کا فیصلہ ہوسکا اور نہ ہی قاتلوں کا تعین ہوسکا۔ اس دوران متعدد باراسپیشل پراسیکیوٹرز تبدیل ہوچکے ہیں، ملزمان کو سرکاری طور پر وکیل فراہم کیا گیا لیکن مقدمہ تاحال سیشن عدالت میں التواکا شکار ہے۔