غلط سوچ
نوجوانوں کو امن کے بجائے دہشت گردی کے راستے پر گامزن کر دیا گیا
میں نے اپنے ایک پچھلے کالم میں ایم کیو ایم کے گزشتہ دور اور 2016 کے بعد کے دور کا ذکر کیا تھا۔ گزشتہ پورا دور مار دھاڑ، قتل و غارت گری، ہڑتالوں اور خوف و ہراس سے بھرا ہوا تھا۔ ملک کی معیشت کا بھٹہ دراصل اسی وقت سے بیٹھنا شروع ہوا تھا جو آج انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
ہمارے دشمن کو اچھی طرح پتا تھا کہ کراچی سونے کی چڑیا ہے، یہ پاکستان کی معیشت کا انجن ہے اسی کی کمائی سے پورا ملک چلتا ہے اور غریب و غربا سے لے کر امرا تک مستفید ہوتے ہیں۔
اس غریب پرور شہر کی خوشحالی اس کی آنکھوں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی، ویسے تو وہ پہلے بھی اسے اجاڑنے کی کوششیں کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
اس لیے کہ اسے کوئی اندر کا آدمی نہیں ملا تھا، کہتے ہیں ناں کہ کسی ملک کو کوئی دشمن نہ اجاڑ سکتا ہے اور نہ ہتھیا سکتا ہے جب تک وہاں سے کوئی اپنے ہی ملک سے بے زار اور امن کا دشمن فرد اس کے ہتھے نہیں چڑھ جاتا اور ہوا بھی یہی کہ بدقسمتی سے ہمارا ایک فرد اس کے ہتھے چڑھ گیا۔
حالانکہ وہ مہاجروں کے نام پر قائم کردہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما تھا، مہاجروں نے اس پر اس لیے اعتبار کیا تھا اور اسے اپنے سر پر بٹھا لیا تھا کہ وہ ان کے شہری مسائل کو حل کرائے گا، ان کے کاروبار کو دوام دے گا۔
بے روزگاروں کی روزی کا بندوبست کرے گا کراچی شہر کو ترقی دے گا اور عوام کی خوشحالی کے لیے ہر ممکن جتن کرے گا، مگر ہوا اس کا الٹ۔ شہری مسائل تو کیا حل ہوتے اور شہر ترقی اور خوشحالی کی کیا منزلیں طے کرتا پورا شہر تباہ و برباد کردیا گیا۔
نوجوانوں کو امن کے بجائے دہشت گردی کے راستے پر گامزن کردیا گیا۔ پورے شہر کو قتل و غارت گری کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔ ہڑتالوں نے کاروبار کو تباہ کردیا اور بھتے کی لعنت نے فیکٹریوں اور کارخانوں کو بند کرادیا۔ لوگ اس نظام سے بے زار تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے کیونکہ اس نظام کے خلاف بولنے والوں کی اکثر لاشیں بوریوں میں بند سڑکوں پر ملنا معمول تھا، شہر میں کئی جگہ عقوبت خانے بھی بنائے گئے تھے۔
جہاں مخالفین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اگر بات یہیں تک رہتی تو شاید معاملات زیادہ خراب نہ ہوتے اور خود ایم کیو ایم کے کارکن اور رہنما اس نظام سے بے زار نہ ہوتے اور اس سے نجات کی راہ تلاش نہ کرتے۔ ہوا یہ کہ بعد میں پتا چلا کہ اس شہر کو اجاڑنے کا ٹاسک پڑوسی ملک سے ملا تھا جس پر پرزور طریقے سے عمل درآمد کیا جا رہا تھا اور شہر کو برباد کیا جا رہا تھا جس کا اثر پورے ملک پر پڑ رہا تھا اور پڑنا چاہیے بھی تھا کیونکہ یہی شہر تو ملک کو چلا رہا تھا اور اب بھی چلا رہا ہے۔ دشمن نے اپنے آلہ کار کے ذریعے اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیا تھا۔
گزشتہ دنوں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی نے پورے شہر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رکھا تھا جس سے عوام پر کافی ذہنی دباؤ تھا انھوں نے خود اپنے خاندان کے بارے میں بتایا کہ وہ رات بھر علاقے میں فائرنگ کی آواز سے سو نہیں پاتے تھے۔
کراچی میں 20 سالوں تک یہ ڈراؤنی کیفیت طاری رہی جس سے ہر دوسرا شخص ذہنی مریض بن چکا تھا۔ یہ خوف ناک اور قتل و غارت گری و بربادی کا دور مزید چلتا رہتا اگر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس دور کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا ہوتا اور اس نظام کے ''را'' سے رابطوں کی پول نہ کھولی ہوتی۔ یعنی کہ اس شہر میں جو بھی تباہی و بربادی برپا کی گئی تھی اس کی ماسٹر مائنڈ ''را'' تھی مگر سہولت کار ہمارے اپنے تھے۔
اس دن کے بعد سے ایم کیو ایم کے پرانے نظام کا زوال شروع ہوا اور حتیٰ کہ وہ 21 اگست 2016 کو اپنے عروج پر پہنچ گیا جب ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر ایم کیو ایم کے چوٹی کے رہنماؤں نے خود کو لندن سے علیحدہ کرلیا اور اسے خود چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ایم کیو ایم کو مکمل طور پر یہی نوجوان چلا رہے ہیں اور خود کو پاکستانی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی اور ان کے رفقا ایم کیو ایم میں واپس آگئے ہیں انھیں واپس آنا ہی چاہیے تھا۔
اس لیے کہ ان کی ہی ہمت و جرأت کی بدولت ایم کیو ایم کا پرانا دور ختم ہوا اور نیا امن و سلامتی کا دور شروع ہوا ہے مگر اس میں اس وقت کے ایم کیو ایم کے اہم رہنما بھی قابل تعریف و تحسین ہیں کہ انھوں نے حقیقت کو سمجھا اور خود کو نئے حالات کے تحت ایڈجسٹ کرلیا اب وہ ایم کیو ایم کو خیر وخوبی سے چلا رہے ہیں پھر اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے پارٹی میں واپس آنے کے بعد پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ خبریں اندر سے باہمی چپقلش پر مبنی آئی ہیں مگر پارٹی کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔
اگر ایم کیو ایم میں اتحاد قائم رہا تو یقینا مہاجروں نے اس پارٹی کو آج سے 35 سال قبل جن امیدوں سے قائم کیا تھا وہ پوری ہو کر رہیں گی اور نہ صرف مسائل حل ہوں گے بلکہ کراچی پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا۔ اب ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ نئی ایم کیو ایم پہلے والی ایم کیو ایم سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ اس کے رہنماؤں میں سنجیدگی ہے عوام کا درد ہے۔
ان کے لیے کچھ کر گزرنے کی امنگ ہے اور پھر سب سے اہم وطن عزیز پاکستان کی عزت و وقار کو بلند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اب قومی یکجہتی اور وطن پرستی کے پیغام کا پرچار کرنا ان کا نصب العین ہے۔
ایم کیو ایم اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔ اس نے پی ڈی ایم کی حکومت کو سنبھالا دیا ہوا ہے مگر وفاق نے اس سے جو وعدے کیے تھے وہ اب تک پورے نہیں کیے گئے ہیں، خاص طور پر حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی سے اسے بہت شکایتیں ہیں۔
کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی تعاون نہیں کر رہی ہے۔ سندھ کے عوام کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی صحیح مردم شماری کا نہ ہونا ہے۔ گوکہ ماضی میں ایم کیو ایم سے اس سلسلے میں غلطیاں ہوئی ہیں اس نے کراچی میں پہلے ہونے والی مردم شماری کو درست تسلیم کرلیا تھا جس کا خمیازہ سندھ کے عوام بھگت رہے ہیں۔
تاہم اب اس وقت جاری ڈیجیٹل مردم شماری اس کے ہی مطالبے پر ہو رہی ہے۔ اب امید ہے کہ سندھ کی صحیح مردم شماری ہوسکے گی پہلے جو یہاں کے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو گنتی میں ہی نہیں لایا گیا تھا اب انھیں بھی گن لیا جائے گا۔
اس مردم شماری کے آغاز کا کراچی کے عوام پر مثبت اثر مرتب ہوا ہے کیونکہ اب کراچی کے مسائل حل ہوں گے اور کراچی کے لیے درست وسائل کا تعین ہوسکے گا۔ تاہم سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پیپلز پارٹی اس کی پرزور مخالفت کر رہی ہے سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہی ہیں۔
اس طرح مردم شماری کی جاری مہم کو سخت دھچکا پہنچنے کا احتمال ہے مگر لگتا ہے اس کی پیپلز پارٹی اور قوم پرست پارٹیاں خوامخواہ ہی مخالفت نہیں کر رہی ہیں دراصل اس کے پیچھے ان کا یہ خوف ہے کہ کہیں سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی دیہی علاقوں سے زیادہ نہ ہو جائے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر شہری علاقوں کے لوگوں کو سندھ کی حکومت چلانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
تاہم عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کس کے پاس ہے اصل بات ان کے مسائل کا حل ہونا ہے ان کی محرومیوں کا دور ہونا ہے۔ اس وقت نہ تو شہری مسائل ہی حل ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوامی حقوق کا خیال کیا جا رہا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ پیپلز پارٹی بڑے دل کا مظاہرہ کرے اور مردم شماری کو صوبے اور خاص طور پر کراچی میں مکمل ہونے دے۔ اس سے اسے نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا ثبوت کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں اسے کراچی میں بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔
اس طرح یہ سوچنا کہ نئی مردم شماری سے شہری علاقوں کو برتری حاصل ہو جائے گی اور پرانے سندھی حکومت سازی سے محروم ہو جائیں گے قطعی غلط سوچ ہے۔
ہمارے دشمن کو اچھی طرح پتا تھا کہ کراچی سونے کی چڑیا ہے، یہ پاکستان کی معیشت کا انجن ہے اسی کی کمائی سے پورا ملک چلتا ہے اور غریب و غربا سے لے کر امرا تک مستفید ہوتے ہیں۔
اس غریب پرور شہر کی خوشحالی اس کی آنکھوں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی، ویسے تو وہ پہلے بھی اسے اجاڑنے کی کوششیں کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
اس لیے کہ اسے کوئی اندر کا آدمی نہیں ملا تھا، کہتے ہیں ناں کہ کسی ملک کو کوئی دشمن نہ اجاڑ سکتا ہے اور نہ ہتھیا سکتا ہے جب تک وہاں سے کوئی اپنے ہی ملک سے بے زار اور امن کا دشمن فرد اس کے ہتھے نہیں چڑھ جاتا اور ہوا بھی یہی کہ بدقسمتی سے ہمارا ایک فرد اس کے ہتھے چڑھ گیا۔
حالانکہ وہ مہاجروں کے نام پر قائم کردہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما تھا، مہاجروں نے اس پر اس لیے اعتبار کیا تھا اور اسے اپنے سر پر بٹھا لیا تھا کہ وہ ان کے شہری مسائل کو حل کرائے گا، ان کے کاروبار کو دوام دے گا۔
بے روزگاروں کی روزی کا بندوبست کرے گا کراچی شہر کو ترقی دے گا اور عوام کی خوشحالی کے لیے ہر ممکن جتن کرے گا، مگر ہوا اس کا الٹ۔ شہری مسائل تو کیا حل ہوتے اور شہر ترقی اور خوشحالی کی کیا منزلیں طے کرتا پورا شہر تباہ و برباد کردیا گیا۔
نوجوانوں کو امن کے بجائے دہشت گردی کے راستے پر گامزن کردیا گیا۔ پورے شہر کو قتل و غارت گری کی آماج گاہ بنا دیا گیا۔ ہڑتالوں نے کاروبار کو تباہ کردیا اور بھتے کی لعنت نے فیکٹریوں اور کارخانوں کو بند کرادیا۔ لوگ اس نظام سے بے زار تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے کیونکہ اس نظام کے خلاف بولنے والوں کی اکثر لاشیں بوریوں میں بند سڑکوں پر ملنا معمول تھا، شہر میں کئی جگہ عقوبت خانے بھی بنائے گئے تھے۔
جہاں مخالفین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اگر بات یہیں تک رہتی تو شاید معاملات زیادہ خراب نہ ہوتے اور خود ایم کیو ایم کے کارکن اور رہنما اس نظام سے بے زار نہ ہوتے اور اس سے نجات کی راہ تلاش نہ کرتے۔ ہوا یہ کہ بعد میں پتا چلا کہ اس شہر کو اجاڑنے کا ٹاسک پڑوسی ملک سے ملا تھا جس پر پرزور طریقے سے عمل درآمد کیا جا رہا تھا اور شہر کو برباد کیا جا رہا تھا جس کا اثر پورے ملک پر پڑ رہا تھا اور پڑنا چاہیے بھی تھا کیونکہ یہی شہر تو ملک کو چلا رہا تھا اور اب بھی چلا رہا ہے۔ دشمن نے اپنے آلہ کار کے ذریعے اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیا تھا۔
گزشتہ دنوں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی نے پورے شہر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رکھا تھا جس سے عوام پر کافی ذہنی دباؤ تھا انھوں نے خود اپنے خاندان کے بارے میں بتایا کہ وہ رات بھر علاقے میں فائرنگ کی آواز سے سو نہیں پاتے تھے۔
کراچی میں 20 سالوں تک یہ ڈراؤنی کیفیت طاری رہی جس سے ہر دوسرا شخص ذہنی مریض بن چکا تھا۔ یہ خوف ناک اور قتل و غارت گری و بربادی کا دور مزید چلتا رہتا اگر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس دور کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا ہوتا اور اس نظام کے ''را'' سے رابطوں کی پول نہ کھولی ہوتی۔ یعنی کہ اس شہر میں جو بھی تباہی و بربادی برپا کی گئی تھی اس کی ماسٹر مائنڈ ''را'' تھی مگر سہولت کار ہمارے اپنے تھے۔
اس دن کے بعد سے ایم کیو ایم کے پرانے نظام کا زوال شروع ہوا اور حتیٰ کہ وہ 21 اگست 2016 کو اپنے عروج پر پہنچ گیا جب ڈاکٹر فاروق ستار اور دیگر ایم کیو ایم کے چوٹی کے رہنماؤں نے خود کو لندن سے علیحدہ کرلیا اور اسے خود چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ایم کیو ایم کو مکمل طور پر یہی نوجوان چلا رہے ہیں اور خود کو پاکستانی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی اور ان کے رفقا ایم کیو ایم میں واپس آگئے ہیں انھیں واپس آنا ہی چاہیے تھا۔
اس لیے کہ ان کی ہی ہمت و جرأت کی بدولت ایم کیو ایم کا پرانا دور ختم ہوا اور نیا امن و سلامتی کا دور شروع ہوا ہے مگر اس میں اس وقت کے ایم کیو ایم کے اہم رہنما بھی قابل تعریف و تحسین ہیں کہ انھوں نے حقیقت کو سمجھا اور خود کو نئے حالات کے تحت ایڈجسٹ کرلیا اب وہ ایم کیو ایم کو خیر وخوبی سے چلا رہے ہیں پھر اب مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے پارٹی میں واپس آنے کے بعد پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ خبریں اندر سے باہمی چپقلش پر مبنی آئی ہیں مگر پارٹی کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ہے۔
اگر ایم کیو ایم میں اتحاد قائم رہا تو یقینا مہاجروں نے اس پارٹی کو آج سے 35 سال قبل جن امیدوں سے قائم کیا تھا وہ پوری ہو کر رہیں گی اور نہ صرف مسائل حل ہوں گے بلکہ کراچی پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا۔ اب ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ نئی ایم کیو ایم پہلے والی ایم کیو ایم سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ اس کے رہنماؤں میں سنجیدگی ہے عوام کا درد ہے۔
ان کے لیے کچھ کر گزرنے کی امنگ ہے اور پھر سب سے اہم وطن عزیز پاکستان کی عزت و وقار کو بلند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اب قومی یکجہتی اور وطن پرستی کے پیغام کا پرچار کرنا ان کا نصب العین ہے۔
ایم کیو ایم اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہے۔ اس نے پی ڈی ایم کی حکومت کو سنبھالا دیا ہوا ہے مگر وفاق نے اس سے جو وعدے کیے تھے وہ اب تک پورے نہیں کیے گئے ہیں، خاص طور پر حکومت کی اتحادی پیپلز پارٹی سے اسے بہت شکایتیں ہیں۔
کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی تعاون نہیں کر رہی ہے۔ سندھ کے عوام کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی صحیح مردم شماری کا نہ ہونا ہے۔ گوکہ ماضی میں ایم کیو ایم سے اس سلسلے میں غلطیاں ہوئی ہیں اس نے کراچی میں پہلے ہونے والی مردم شماری کو درست تسلیم کرلیا تھا جس کا خمیازہ سندھ کے عوام بھگت رہے ہیں۔
تاہم اب اس وقت جاری ڈیجیٹل مردم شماری اس کے ہی مطالبے پر ہو رہی ہے۔ اب امید ہے کہ سندھ کی صحیح مردم شماری ہوسکے گی پہلے جو یہاں کے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو گنتی میں ہی نہیں لایا گیا تھا اب انھیں بھی گن لیا جائے گا۔
اس مردم شماری کے آغاز کا کراچی کے عوام پر مثبت اثر مرتب ہوا ہے کیونکہ اب کراچی کے مسائل حل ہوں گے اور کراچی کے لیے درست وسائل کا تعین ہوسکے گا۔ تاہم سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پیپلز پارٹی اس کی پرزور مخالفت کر رہی ہے سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہی ہیں۔
اس طرح مردم شماری کی جاری مہم کو سخت دھچکا پہنچنے کا احتمال ہے مگر لگتا ہے اس کی پیپلز پارٹی اور قوم پرست پارٹیاں خوامخواہ ہی مخالفت نہیں کر رہی ہیں دراصل اس کے پیچھے ان کا یہ خوف ہے کہ کہیں سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی دیہی علاقوں سے زیادہ نہ ہو جائے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر شہری علاقوں کے لوگوں کو سندھ کی حکومت چلانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
تاہم عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کس کے پاس ہے اصل بات ان کے مسائل کا حل ہونا ہے ان کی محرومیوں کا دور ہونا ہے۔ اس وقت نہ تو شہری مسائل ہی حل ہو رہے ہیں اور نہ ہی عوامی حقوق کا خیال کیا جا رہا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ پیپلز پارٹی بڑے دل کا مظاہرہ کرے اور مردم شماری کو صوبے اور خاص طور پر کراچی میں مکمل ہونے دے۔ اس سے اسے نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا ثبوت کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جن میں اسے کراچی میں بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔
اس طرح یہ سوچنا کہ نئی مردم شماری سے شہری علاقوں کو برتری حاصل ہو جائے گی اور پرانے سندھی حکومت سازی سے محروم ہو جائیں گے قطعی غلط سوچ ہے۔