اخلاص اور حُسن نیّت
’’اے رسول (ﷺ)!<br />
لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔‘‘
اسلام میں اخلاص اور حُسن نیّت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیّت کی ترغیب دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اور احادیث نبوی میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیّت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
بلاشبہ! تمام اعمال کا دار و مدار اخلاصِ نیّت پر ہی ہوتا ہے اور اچھی نیّت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے۔
چناں چہ نیّت اگر خالص ہوگی تو اعمال جان دار ہوں گے اور نیّت اگر خراب ہوگی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔ اچھی نیّت سے اعمال اچھے اور بُری نیّت سے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں۔
نیّت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور اگر نیّت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہوجائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔
اخلاصِ نیت کی اہمیت پیش نظر قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:
''اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔'' (سورۃ البینہ)
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:
''اﷲ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔'' (سورۃ الحج)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں، مفہوم:
''اے رسول (ﷺ)! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔''
(سورۂ آلِعمران)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیّت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے، چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''ہر عمل کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لیے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لیے شمار کی جاتی ہے۔'' (بخاری۔ مسلم)
دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔'' (سنن نسائی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ''بیدائ'' نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیّتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لیے گئے تھے، اُن کی نیّت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔''
(بخاری۔ مسلم)
ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہوگا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیّت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا۔''
(جامع ترمذی)
ایک اور حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیّت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہوا، تب بھی اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔'' (بخاری۔ مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیّت کی کہ رات کو تہجّد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو اُس کے لیے تہجّد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ سونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پر رہا۔''
(سنن نسائی)
جہانگیر بادشاہ نے اپنی ''تزک'' میں لکھا ہے کہ ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اُس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا:
'' کیا اِس باغ میں انار ہے؟''
باغبان نے کہا: ''جی موجود ہے''
سلطان نے کہا: ''ایک پیالا انار کا رَس لاؤ!''
باغبان کی ایک لڑکی جو صورت کے جمال اور سیرت کے حسن سے بھی آراستہ تھی، باغبان نے اُس سے انار کا رَس لانے کو کہا، وہ گئی اور ایک پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، پیالے پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اُس کے ہاتھ سے پیالا لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا: ''پیالے کے رَس کے اوپر تم نے پتیاں کس لیے رکھ دی تھیں؟''
لڑکی نے عرض کیا: ''اِس گرمی میں آپ پسینے میں غرق تھے، رَس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لیے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اِس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اِس کو نوشِ جان فرمائیں۔
سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اُس کے بعد اُس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اِس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟''
اُس نے جواب دیا: ''تین سو دینار''
سلطان نے پوچھا: ''حکومت کو کیا دیتے ہو؟''
باغبان نے کہا: میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا، بلکہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔''
سلطان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں، اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہوسکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا، اِس لیے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے، یہ سوچ کر اُس نے انار کا رَس پھر پینے کو مانگا، لڑکی رَس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پیالا لائی تو سلطان نے کہا:
''پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اِس بار دیر بھی کی اور رَس بھی کم لائیں۔''
لڑکی نے کہا: ''پہلی بار ایک انار میں پیالا بھر گیا تھا، اِس بار میں نے پانچ چھے انار نچوڑے پھر بھی رَس پورا نہیں ہوا۔''
یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا:
''محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیّت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ باد شاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اُسی وقت آپ کی نیّت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی۔''
یہ سن کر سلطان متاثر ہوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دُور کردیا، اِس کے بعد پھر انار کا رَس مانگا ، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اُس لڑکی کا خواست گار ہوا۔
(بہ حوالہ: تزکِ جہانگیری)
یقیناً اِنسان کی نیّت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے، نیّت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہوگی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی۔
عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اﷲ تعالیٰ کا دھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا، اور اگر نیّت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہُوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا۔
مال و دولت میں کمی واقع ہوجائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔