اسلام میں امانت و دیانت

وہ یقیناً اس کا حساب لے گا اور اس دن جب کہ ہر شخص ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگاi

فوٹو : فائل

اسلام میں امانت و دیانت کی جس قدر اہمیت ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں اس کا مقام ہو، نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی اعلان نبوت سے قبل بھی شہرت اسی دیانت، امانت اور صداقت کی تھی۔

امانت داری ایمان کا حصہ ہے، جو شخص اﷲ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا کیوں کہ اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر میں نے کسی کا حق دبا لیا یا اس کی ادائی میں کمی اور کوتاہی کی تو میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔

وہ یقیناً اس کا حساب لے گا اور اس دن جب کہ ہر شخص ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگا، حق تلفی کے عوض میری نیکیاں دوسروں کو تقسیم کردی جائیں گی، پھر میری مفلسی پر وہاں کو ن رحم کرے گا ؟

اس طرح کے تصورات سے اہل ایمان کا دل کانپ اٹھتا ہے اور پھر خیانت یا حق تلفی کر نے سے باز آجاتا ہے، لیکن جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو یا ماحول اور حالات نے ایمان کی روشنی سلب کر لی ہو تو خیانت کر نے میں ایسے شخص کو کوئی تردد نہیں ہوتا، اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے امانت داری کو ایمان کی علامت اور پہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدے کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔'' (سنن بیہقی)

اﷲ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری ہے، مفہوم: ''تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور چاہیے کہ اپنے پروردگار اﷲ سے ڈرے۔'' (بقرۃ)

اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں امانت داری کو تقویٰ سے جوڑ دیا ہے یعنی جس کو موت کے بعد کی زندگی حساب و کتاب اور عدالت الٰہی پر یقین ہو جس کے دل میں خوف خدا اور اس کی گرفت کا احساس ہو ا سے چاہیے کہ امانت میں خیانت نہ کرے جس کا جو حق ہے پورا ادا کردے۔

اس لیے کہ اس دنیا میں خیانت کر نے والا قیامت کے دن چین و سکون سے نہیں رہ سکتا، وہاں ہر ایک کا حق ادا کر نا ہوگا اور بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ لیکن جس کو آخرت پر یقین نہیں وہ جو چاہے کرے، دنیا میں چند روزہ زندگی کے بعد آخر اپنے کیے ہوئے پر افسوس ہوگا اور وہ بڑے خسارے میں ہوگا۔

رسول اکرم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ زمانہ، جیسے جیسے قیامت سے قریب ہوگا ایمانی قوت کم ہوتی چلی جائے گی اس کے نتیجے میں امانت داری بھی اٹھ جائے گی اور حال یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہوں گی لیکن امانت دار آدمی پوری آبادی میں ایک آدھ بڑی مشکل سے دست یاب ہوگا اور وہ بھی حقیقت میں امین نہ ہوگا۔ لوگ مثال کے طور پر کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک امانت دار شخص ہے۔

اسی طرح فرمایا کہ کسی آدمی کی تعریفیں ہوں گی کہ کیسا عقل مند، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے، حالاں کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان داری نہ ہوگی۔

(صحیح بخاری' کتاب الفتن)

آج کے حالات بھی کچھ اسی طرح ہیں، امانت داری کی اس قدر اہمیت کے باوجود آج کے معاشرے میں اسے کوئی وزن نہیں دیا جاتا، اچھے لوگ بھی (الاماشاء اﷲ) جو عرف میں دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی امانت اور حق کی ادائی کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے، انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ امانت کی حفاظت اور اس کا مکمل طور پر ادا کرنا دینی و شرعی فریضہ ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر خانۂ کعبہ کی کنجی جب کلید بردار کو دینے اور ان کی امانت ان کو واپس کر نے کی تاکید کی گئی تو امانت کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیا گیا، ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو۔'' (النسائی)

قابل غور بات یہ ہے کہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں، بلکہ یہ خانۂ کعبہ کی خدمت کی نشانی ہے جس کا تعلق مال سے نہیں عہد ے سے ہے، پھر بھی اس کو امانت سے تعبیر کیا گیا اور پھر جمع کا صیغہ استعمال کر کے اسے عام حکم بنادیا گیا۔

معلوم ہُوا کہ عہدے، مراتب اور ذمے دریاں بھی امانت ہیں لیکن عوام الناس تو کجا خواص بھی امانت و دیانت کا تصور صرف مال تک محدود رکھتے ہیں، چناں چہ وہ ان امانتوں میں خیانت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور انہیں کسی معصیت کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ حالاں کہ شریعت کی نظر میں ان چیزوں میں بھی خیانت قبیح اور موجب گناہ عمل ہے، نااہلوں کو عہدے اور مناصب سپرد کرنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی ہے۔


جس عہدہ اور منصب کا جو اہل ہو اسی کو وہ عہدہ سپرد کیا جائے، اس کے لیے سب سے پہلے غور کر نا چاہیے کہ اس کے ماتحتوں میں کون ایسا شخص ہے، جس میں پیش نظر ملازمت یا عہدے کی مکمل شرطیں پائی جارہی ہیں، ایسا کوئی شخص مل جائے تو وہی اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔

لہٰذا کسی پس و پیش کے بغیر وہ عہدہ اور ملازمت اس کو سپرد کریا جائے اور اگر مطلوب صلاحیت کا حامل کوئی شخص دست یاب نہ ہو تو موجودہ لوگوں میں جو سب سے زیادہ لائق فائق ہو اس کو منتخب کیا جائے، غرض یہ کہ حکومت کے ماتحت جتنے بھی عہد ے اور مناصب ہوتے ہیں وہ امانت ہیں اور ارباب حکومت اس کے امین ہیں، اگر حکومت نے اپنے ماتحت کسی شخص کو اس کا مجاز بنایا ہے تو وہ بھی امین ہے۔

ان سب کو چاہیے کہ عہدے اور منصب پوری دیانت داری سے تقسیم کریں' صلاحیت اور شرائط کو اس کے لیے معیار بنایا جائے نہ کہ قرابت اور تعلق کو۔ اگر کسی شخص کو ذاتی تعلق یا سفارش کی بنیاد پر یا رشوت لے کر کوئی عہدہ اور منصب سپرد کیا جاتا ہے تو یہ خیانت ہے اور تمام ذمہ دار اس خیانت کے مرتکب ہوں گے۔

ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمے داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کے پیش نظر دے دیا، اس پر اﷲ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنّم میں داخل ہو جائے۔'' (جمع الفوائد)

نااہلوں کو عہدے سپر د کر نے سے گناہ تو ہو تا ہی ہے خود دنیوی اعتبار سے بھی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اس سے مستحقین اور باصلاحیت افراد کے بہ جائے ناکارہ اور نااہل لوگ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ان میں کام کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے پورا شعبہ بگڑ جاتا ہے اور پھر عوام کے لیے یہ اذیت رسانی کا باعث ہوتا ہے۔

آج کل ملکی حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام شعبوں میں کہیں رشوت اور سفارش اور کہیں تعلق اور قرابت کی بنیاد پر عہدے اور ملازمت تقسیم کی جارہی ہیں، یہاں تک کہ عصری تعلیم گاہوں میں اساتذہ کی تقرری میں رشوت کا لین دین عام ہوگیا ہے، اس کے نتیجے میں یہ تعلیم گاہیں باصلاحیت افراد سے محروم ہیں۔ تقریباً تمام شعبوں کا یہی حال ہے، اس لیے حکومت کا نظام فساد کا شکار ہوگیا ہے اور آج ہر شخص اپنی جگہ بے چین و مضطرب نظر آرہا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے اس کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے، مفہوم:

''جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی جو ان کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو۔'' (صحیح بخاری)

یعنی جب نااہل افراد کو کوئی ذمے داری یا عہدہ اور منصب سپرد کیا جائے تو فساد یقینی ہے اور اب دنیوی نظام کو فساد سے کوئی بچا نہیں سکتا، اس لیے اب قیامت کا انتظار کرو، اس میں اعلی حکومتی عہدے سے لے کر ایک ادنیٰ ملازمت بھی شامل ہے۔

اس کا تعلق صرف حکومتی عہدوں سے ہی نہیں ہے بلکہ نجی کمپنیاں، دعوتی و اصلاحی انجمنیں اور عوامی فلاحی اداروں سے بھی ہے جو ان اداروں اور کمپنیوں کو مفید اور بافیض بنانا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ جس کام کے جو لائق اور اہل ہے، اسے وہیں رکھا جائے، کسی بھی وجہ سے اگر کم تر صلاحیت والے افراد کو فوقیت دی جائے تو ادارہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا، اقرباء پروری کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے صاحب زادے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کو ان کی جلالت علمی اور فضیلت کے باوجود ناصرف اپنا جانشین نامزد نہیں کیا بلکہ اس کمیٹی تک میں شامل نہیں فرمایا جس نے آئندہ کے لیے خلیفہ کا چناؤ کرانا تھا۔ آج کچھ دینی اداروں، مدارس اور مساجد تک میں یہ جانشینی نظام جاری ہوچکا ہے۔

باپ کے بعد بیٹا یعنی ولی العہد والا بادشاہی نظام کی اسلام میں کہاں کوئی گنجائش ہے۔۔۔ ؟ اگر کوئی یہ مثال دیتا ہے کہ اگر باپ کے بعد بیٹا لائق اور فائق ہو تو کیوں جانشین نہیں ہوسکتا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لائق فائق اور علم و فضل کا حامل ان ولی العہد کے علاوہ کیا کوئی موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کے امور (وامرھم شوریٰ بینھم) کے حکم کے تحت باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں۔

یہ امر انتہائی افسوس کا باعث ہے کہ آج مسلمانوں کے ملک میں بھی امانت و دیانت عنقاء و مفقود ہوچکی ہے کوئی کسی پر اعتماد و اعتبار کرنے کو تیار و آمادہ نہیں ہے۔

ہم سب کو مل کر اس صورت حال کا تدارک کرنا ہوگا اور سب سے پہلے خود امانت و دیانت میں ہر قسم کے لیت و لعل سستی و کوتاہی کی روش کو ترک کرکے اپنے ایمان کی حفاظت کرنی ہوگی۔
Load Next Story