کوچۂ سخن
غزل
اپنی مرضی کے ہیں ہم، اپنا کہا مانتے ہیں
تیرے کہنے سے کہاں تجھ کو خدا مانتے ہیں
کل تلک گھر کی سہولت جنہیں درکار نہ تھی
وہ پرندے بھی پلٹنے کی دعا مانگتے ہیں
پہلے نادان تھے، صر صر کو صبا لکھتے تھے
اب وہ پاگل ہیں کہ سورج کو دیا مانتے ہیں
سَر پہ ہو دستِ محبت تو بھلا لگتا ہے
ہاتھ پیروں تلک آئیں تو برا مانتے ہیں
اپنے جیسے ہمیں دو چار برے ہیں مطلوب
تم سے اچھوں کی رفاقت کو سزا مانتے ہیں
لوگ کل تک مجھے تسلیم کہاں کرتے تھے
پھر مرے شعر سنے اور کہا''مانتے ہیں''
جن گھروں میں یہاں مائیں نہیں رہتیں ایماں
ہم انہیں خلد نہیں، صرف خلا مانتے ہیں
(ایمان قیصرانی۔ ڈی جی خان)
۔۔۔
غزل
نجانے کیا ہوئی خطا مجھے پتہ چلا نہیں
وہ ہوگیا جو بے وفا مجھے پتہ چلا نہیں
محبتوں کے درمیاں رفاقتوں کے درمیاں
کب آگئی مری انا مجھے پتہ چلا نہیں
میں انتظارِ یار میں تھا خوش گمان اس قدر
دیا بجھا گئی ہوا مجھے پتہ چلا نہیں
گلاب تھا کہ خار تھا بہار تھی کہ تھی خزاں
وہ کون تھا وہ کیا بلا مجھے پتہ چلا نہیں
وہ بولتا چلا گیا میں دیکھتا رہا اسے
کہا گیا برا بھلا مجھے پتہ چلا نہیں
فلک سے کب زمین پر میں آگیا تھا ناگہاں
اتر گیا مرا نشہ مجھے پتہ چلا نہیں
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، بھارت)
۔۔۔
غزل
تیرے جانے سے یہ جوبن پہ کہانی آئی
تیری فرقت سے غزل میں بھی روانی آئی
وہ تو واقف میری الفت سے رہا تھا لیکن
سارا جیون نہ مجھے بات بتانی آئی
تیرے کاکل میرے شانوں پہ کبھی بکھرے تھے
جب گھٹا چھائی تو اک یادپرانی آئی
تیرے گالوں سے وہ پہلی سی دمک رخصت ہے
میرے بالوں میں بڑھاپے کی نشانی آئی
دن تو گزرا ہے معیشت کی ریاضت کرتے
تیری یادوں کو لیے شام سہانی آئی
اب ہے درپیش سفر ملکِ عدم کا ساجدؔ
کس سمے یاد تری یاد دہانی آئی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)
۔۔۔
غزل
زہرِ غمِ فراق نے مارا نہیں مجھے
کیا ہے اگر کسی نے پکارا نہیں مجھے
کشتی مرے جنون کی گرداب میں ہے غرق
حاصل محبتوں کا کنارہ نہیں مجھے
جس کے لئے رقیب کی ہر بات سہہ گیا
اس نے دیا کوئی بھی اشارہ نہیں مجھے
اے رنجشِ حبیب مجھے آزمانا چھوڑ
بزمِ طرب میں کوئی اشارہ نہیں مجھے
اب تو بغاوتوں کی اڑانوں میں مست ہوں
اب تو کوئی بھی شخص گوارا نہیں مجھے
تیرے لیے میں اپنے ہی معیار سے گروں
تو اس قدر بھی دوستا پیارا نہیں مجھے
احمد مجھے فراق کی لذت سے کام ہے
کرنی کسی کی چاہ دوبارہ نہیں مجھے
(احمد حجازی۔ لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
میرے اعصاب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
نت نئے خواب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
اپنے مرنے پہ یقیں مجھ کو نہ آئے گا کبھی
آ کے احباب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
شاعری، چائے، کتابیں،مری سگریٹ کا دھواں
سارے اسباب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
خودکشی جان سے جانے بھی کہاں دیتی ہے
پیش گرداب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
زندگی اشکِ مسلسل کی ہے صورت کاوشؔ
جاری سیلاب بتاتے ہیں کہ میں زندہ ہوں
(زمان کاوش۔ مظفر گڑھ)
۔۔۔
غزل
روتے ہو مِثلِ میر سرِ ابتدائے عشق
سولی پہ جھولتے ہیں میاں مبتلائے عشق
حائل تھا درمیان میں پھر قُلزمِ فراق
پھرآگیا میں ہاتھ میں لے کر عصائے عشق
تجھ پر بھی راز ِ گردش و رقص ِ ازل کھلے
تجھ کو بھی چاک ہِجر پہ رکھ کر گھمائے عشق
کچے گھڑوں کی خیر ہو،کچے گھروں کی خیر
بپھرا ہے مثل ِآبِ رواں اژدہائے عشق
تخلیق ِ کائنات کو بس حادثہ نہ جان
رمزِ صدائے کُن ہے مری جاں صدائے عشق
(فخر لالہ۔ میاں چنوں)
۔۔۔
غزل
نہ آنگن کو کبھی ویران رکھا
تبھی چوکھٹ پہ اک گلدان رکھا
ہر اک شے سے کنارہ کر لیا تھا
محبت کا مگر امکان رکھا
اداسی میرے اندر رچ گئی تھی
سرہانے میر کا دیوان رکھا
جسے جادو گری آتی نہیں تھی
اسی نے عمر بھر حیران رکھا
کسی نے دل سرائے میں محبت
کسی نے درد کا سامان رکھا
رکھا رندوں سے بھی گہرا تعلق
خدا پر بھی مگر ایمان رکھا
ہوائے تازہ دم آئے گی ساجدؔ
مقفل گھر میں روشن دان رکھا
(ساجد رضا خان۔ کوٹ بہادر)
۔۔۔
غزل
کیا ہوا جو جل گئے،روشنی تو ہوگئی
درد ہی میں ڈھل گئے، زندگی تو ہوگئی
تجربہ غلط نہیں سیکھنے کی چاہ میں
سیکھ کر سنبھل گئے،یہ خوشی تو ہوگئی
اژدہے نصیب کے کھا گئے غریب کو
خواب تک نگل گئے، خودکشی تو ہوگئی
خیر دوستوں کی جو آستیں کا داغ تھے
گو لباس دھل گئے، گندگی تو ہوگئی
بادِ برشگال میں رنگ چھٹ گئے سبھی
بھید جب کھلے تو بے چہرگی تو ہوگئی
اے دلِ خراب حال چھوڑ وقت کا ملال
آ چلیں اب اپنے گھر رات بھی تو ہو گئی
(زوہا ذکاء ۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
خود ہی چل کر تو مرے پاس وہ آنے سے رہا
میں بھی اب اپنی انا چھوڑ کے جانے سے رہا
میری آنکھوں میں چراغاں ہے یہی کافی ہے
تیرے قدموں میں نئے پھول بچھانے سے رہا
تم اسے جا کے کہو آ کے منائے مجھ کو
خود سے روٹھا ہوں تو میں خود کو منانے سے رہا
آستینوں سے کہو اپنی حفاظت کر لیں
یار سانپوں، سے تو میں ان کو بچانے سے رہا
رائیگانی کا سفر مجھ سے نہیں ہو سکتا
اب محبت میں نیا رنج اٹھانے سے رہا
ریت بھی چومتی رہتی ہے مرے پاؤں صفی
میں سمندر کو تو منظر یہ دکھانے سے رہا
(ڈاکٹر افضل صفی، فتح پور۔لیہ)
۔۔۔
غزل
یہ ذات مستحق جو نہ تھے ان میں بٹ گئی
کس کو بتاؤں میں مری مقدار گھٹ گئی
یہ کیا کہ کائنات مجھے مل گئی کہ تو
بانہوں میں آ گیا ہے تو دنیا سمٹ گئی
جیسا بنایا تونے ہمیں وہ بنے رہے
اپنی تو عمر ایک ہی حلیے میں کٹ گئی
اک حکم پر نثار ہوئے سب تغیرات
اس نے کہا پلٹ! مری کایا پلٹ گئی
سب سے زیادہ نکلیں گے اس سے تمہارے خواب
طارق یہ میری آنکھ کسی دن جو پھٹ گئی
(محمد طارق عزیز سلطانی ۔ گڑھ موڑ)
۔۔۔
غزل
دو چار ہی ٹوٹے ہیں ابھی خواب ہمارے
بیکار سمجھ بیٹھے ہیں احباب ہمارے
مہتاب سے سیکھا ہے بھٹکنے کا سلیقہ
یہ رات بتا سکتی ہے آداب ہمارے
وہ کھل کے سِمٹ جاتی ہے بانہوں میں ہماری
اِس ڈر سے کھنچے رہتے ہیں اعصاب ہمارے
جس شوق سے پڑھتا ہے سلیبس کی کتابیں
کھل جائیں گے اُس دل پہ کبھی باب ہمارے
پہلے ہی کہا تھا کہ نہ ساحل سے پکارو
خشکی پہ نکل آئے ہیں گرداب ہمارے
اِس طرح بکھرتے ہیں سبھی چاہنے والے
پھولوں سے بھرے رہتے ہیں تالاب ہمارے
مہتاب کہاں جائے گا دریا سے نکل کر
بن جائیں اگر نقش سرِ آب ہمارے
زائر کوئی پڑھ پاتا نہیں ٹھیک سے ہم کو
یہ کون بدل جاتا ہے اعراب ہمارے
(ریحان زائر۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
آباد ہیں شہر کی سب گلیاں اور لوگوں کا آنا جانا ہے
موسم کی سہانی راتوں میں ہر شخص ترا دیوانہ ہے
تھک ہار کے اک دن ٹوٹیں گے آکاش پہ روشن تارے بھی
یہ چاند اداس دریچوں میں اک دھوکا ہے افسانہ ہے
آنکھوں کے دیے روشن کر کے نکلا ہوں اندھیری بستی میں
ہر گھر میں اجالا کرنا ہے ہر طاق میں دیپ جلانا ہے
ہر شب تیری بکھری زلفوں کے پھیلیں گے اندھیرے آنکھوں میں
ہر شب تجھے خوابوں میں ہم نے آکاش پہ ڈھونڈنے جانا ہے
ان سونے رستوں میں حامدؔ تم ڈھونڈتے ہو ناکام اسے
وہ گزری رت کا جھونکا تھا کب لوٹ کے اس نے آنا ہے
(سید حامد حسین شاہ۔ مانسہرہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی