مقبرہ موتی گہرام
بلوچستان کا تاج محل
یوں تو مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بلوچستان کا نام سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، شرپسندوں کی کارروائیوں اور سرداروں کی بدولت آتا ہی رہتا ہے، لیکن اب سوشل میڈیا کی وساطت سے شاذونادر یہاں کی سیاحت اور خوب صورت جگہوں کو بھی عوام کے سامنے لایا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے خوب صورت پہاڑی سلسلوں، نیلگوں چشموں، ندی نالوں، سیب اور چیری کے باغات اور برف زاروں سے تو آپ سب واقف ہوں گے لیکن یہ دھرتی تاریخ کا ایک بہترین خزانہ بھی ہے، ایسا خزانہ جہاں تک بہت کم لوگ پہنچ پائے ہیں۔
اس دھرتی کے سینے میں کئی اسرار دفن ہیں، کئی تاریخی عمارتیں و مقبرے انتہائی شکستہ حالت میں ہیں جن میں سے ایک کا ذکر اگلی سطور میں کیا جائے گا۔
جھل مگسی بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن کا دوسرا بڑا ضلع ہے جو اپنے خوب صورت قدرتی مقامات جیسے درگاہ و چشمہ پیر چھتل نورانی، دریائے مُولا، اور پیر لاکھہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
مقبرہ میاں صاحب، مقبرہ موتی گہرام، بھوتانی مقبرہ، فتح پور شریف کی درگاہیں، مقبرہ اِلتاز خان اور خانپور اس علاقے کی تاریخی جگہیں ہیں۔ میں یہاں ذکر کروں گا مقبرہ موتی گہرام کا۔
یہ مقبرہ جھل مگسی کے شمال میں میر پور کے بیابانوں اور دریائے مُولا کی پھیلی ہوئی شاخوں میں سے ایک کے قریب واقع ہے۔ سردار گہرام لاشاری اور مائی موتی کے مقبرے کو ایک زمانے میں اس کی خوب صورتی کی وجہ سے ''بلوچستان کا تاج محل'' کہا جاتا تھا۔
ہشت پہلو عمارت پر نیلے رنگ کا خوب صورت کام، چہار جانب ایستادہ محرابیں، دو منزلہ گنبد اور اندر محرابوں پر بنے خوبصورت نقش و نگار۔
اس تاریخی مقبرے کی حالت دیکھ دل کٹ کہ رہ گیا۔ ایک تاریخ تھی جو بس مٹنے کو تھی۔
یہ مقبرہ ایک وسیع چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کے ہر کونے پر کھلی اور گنبد دار خرگاہیں بنی ہیں۔ ان خیمہ نما خرگاہوں کے چہار جانب ایک ایک محراب موجود ہے اور اوپر چھوٹا سا گنبد، جب کہ اس چبوترے کو بھی ہر سمت سے مختلف بند محرابوں سے سجایا گیا ہے۔ ان مربع کھوکھوں کے چار اطراف کھلے ہوئے ہیں جنہیں گنبدوں سے ڈھک کہ چونے کے مارٹر سے پلستر کیا گیا ہے۔
مرکزی مقبرہ ہشت پہلو (آٹھ کونوں والا) طرز پر بنایا گیا ہے۔ ہر ہشت پہلو کے بیچ میں ایک ستون ہے جس کی بنیاد زیادہ چوڑی ہے اور یہ نیچے سے اوپر تنگ ہوتے جاتے ہیں۔
مرکزی داخلی دروازہ مشرق کی طرف ہے جب کہ مرکزی سمتوں میں ایک اور طرف روشنی اور ہوا کی فراہمی کے لیے نچلی سطح پر کھلی محرابیں رکھی گئی ہیں۔
اندرونی طور پر اس ہشت پہلو کے ہر ایک محراب میں ایک گہرا طاق بنایا گیا ہے جو مستطیل و عمودی پینل ڈیزائن والی چمکیلی ٹائلوں کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔ عمودی محراب والے طاقوں کو نوک دار محرابوں کے ساتھ تاج سے سجایا گیا ہے۔
ان محرابوں کے گرد اور اوپر کی جانب نیلی ٹائل کا کام کیا گیا ہے، جب کہ مختلف نقش و نگار کے لیے نیلے اور سبز رنگ کا سہارا لیا گیا ہے۔
دیواری محرابوں کے اوپر چھوٹے سائز کی سولہ محرابیں بنائی گئی ہیں جن میں آٹھ کھلی اور آٹھ بند ہیں۔ انہی محرابوں پر مقبرے کا گنبد ایستادہ ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے میں کوئی آرائشی کام نہیں ملتا۔
مقبرے کے فن تعمیر اور آرائشی خصوصیات کا وسطی ایشیائی / تیموری فن تعمیر سے گہرا تعلق ہے جو اس کی آرائش میں بھی جھلکتا ہے۔ کاش کہ اس مقبرے کے نقش و نگار اصل حالت میں بچائے گئے ہوتے تو عمارتوں اور تعمیرات سے دل چسپی رکھنے والوں کو یہاں بہت کچھ مل سکتا تھا۔
مقبرے کے اندر دو قبروں کے آثار ملتے ہیں جن پہ کسی قسم کا کوئی کتبہ ناپید ہے۔ ان میں سے گہرام لاشاری اور موتی کی قبر کون سی ہے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ مقبرے سے باہر نکلیں تو چبوترے کی ایک سائیڈ بالکل زمین میں دھنس چکی ہے جس سے نیچے کی کچھ محرابی کھڑکیاں نظر آتی ہیں، یعنی اس مقبرے کے نیچے بھی کوئی تہہ خانہ یا جگہ رہی ہو گی۔
شاید اسی بنا پر مقامیوں کو ہر دوسری تاریخی جگہ کی طرح یہاں بھی قارون کا خزانہ نظر آ گیا۔
مقبرے کے ساتھ مقامیوں کی طرف سے ظلم یہ کیا گیا کہ کسی چھپے ہوئے خزانے (جس کے یہاں دفن ہونے کا دور دور تک سوال نہیں اٹھتا) کی لالچ میں اسے بار بار کھودا گیا۔ کہیں سے اینٹیں اتاری گئیں تو کہیں سے ٹائل اور پتھر اکھاڑے گئے۔
حد تو تب ہو گئی جب میں اپنے بلوچ دوستوں سمیت وہاں پہنچا تو دو تین مقامی مرد وہاں آ دھمکے اور ہمیں کہا کہ اگر یہاں کھدائی سے کچھ ملتا ہے تو ہمیں بھی کچھ حصہ دینا ہو گا (شاید وہ ہمیں خزانے کی تلاش میں یہاں پہنچنے والی کوئی ٹیم سمجھ بیٹھے تھے)۔
میرے دوست محمود کھوسہ نے بتایا کہ یہاں لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ جب موقع ملے اس جگہ کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔
مقبرے کے ساتھ شمالی جانب ایک چھوٹی مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی۔ ایک بلند چبوترے پر تعمیر شدہ یہ دو منزلہ مسجد مربع شکل میں ہے جس کے تین اطراف محرابی دروازے اور مغربی جانب مرکزی محراب ہے۔
دیکھ کر لگتا ہے کہ مسجد کو اندرونی اور بیرونی طور پر صاف ستھری چھوٹی اینٹ سے تیار کیا گیا تھا، جب کہ اوپر چھوٹی محرابوں پر بڑا گنبد موجود تھا جو اب شہید ہو چکا ہے۔ مسجد کے آس پاس اور اندر بس اینٹیں بکھری نظر آتی ہیں۔
میری حکومت پاکستان، محکمۂ آثارِ قدیمہ اور حکومت بلوچستان سے یہ دردمندانہ اپیل ہے کہ خدارا جھل مگسی کے اس ورثے کی حفاظت کے لیے کچھ کریں۔ زیادہ کچھ نہیں تو اس کے گرد چاردیواری دے کر اسے مزید تباہ ہونے سے بچا لیں۔
خدارا، اسے ملک کا قیمتی ورثہ سمجھ کے نہ سہی اپنے سرداروں کی قبر سمجھ کہ ہی بچا لیں تاکہ مجھ جیسے سیاحوں کو یہاں آ کر کڑھنا نہ پڑے۔
بلوچستان کے خوب صورت پہاڑی سلسلوں، نیلگوں چشموں، ندی نالوں، سیب اور چیری کے باغات اور برف زاروں سے تو آپ سب واقف ہوں گے لیکن یہ دھرتی تاریخ کا ایک بہترین خزانہ بھی ہے، ایسا خزانہ جہاں تک بہت کم لوگ پہنچ پائے ہیں۔
اس دھرتی کے سینے میں کئی اسرار دفن ہیں، کئی تاریخی عمارتیں و مقبرے انتہائی شکستہ حالت میں ہیں جن میں سے ایک کا ذکر اگلی سطور میں کیا جائے گا۔
جھل مگسی بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن کا دوسرا بڑا ضلع ہے جو اپنے خوب صورت قدرتی مقامات جیسے درگاہ و چشمہ پیر چھتل نورانی، دریائے مُولا، اور پیر لاکھہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
مقبرہ میاں صاحب، مقبرہ موتی گہرام، بھوتانی مقبرہ، فتح پور شریف کی درگاہیں، مقبرہ اِلتاز خان اور خانپور اس علاقے کی تاریخی جگہیں ہیں۔ میں یہاں ذکر کروں گا مقبرہ موتی گہرام کا۔
یہ مقبرہ جھل مگسی کے شمال میں میر پور کے بیابانوں اور دریائے مُولا کی پھیلی ہوئی شاخوں میں سے ایک کے قریب واقع ہے۔ سردار گہرام لاشاری اور مائی موتی کے مقبرے کو ایک زمانے میں اس کی خوب صورتی کی وجہ سے ''بلوچستان کا تاج محل'' کہا جاتا تھا۔
ہشت پہلو عمارت پر نیلے رنگ کا خوب صورت کام، چہار جانب ایستادہ محرابیں، دو منزلہ گنبد اور اندر محرابوں پر بنے خوبصورت نقش و نگار۔
اس تاریخی مقبرے کی حالت دیکھ دل کٹ کہ رہ گیا۔ ایک تاریخ تھی جو بس مٹنے کو تھی۔
یہ مقبرہ ایک وسیع چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے جس کے ہر کونے پر کھلی اور گنبد دار خرگاہیں بنی ہیں۔ ان خیمہ نما خرگاہوں کے چہار جانب ایک ایک محراب موجود ہے اور اوپر چھوٹا سا گنبد، جب کہ اس چبوترے کو بھی ہر سمت سے مختلف بند محرابوں سے سجایا گیا ہے۔ ان مربع کھوکھوں کے چار اطراف کھلے ہوئے ہیں جنہیں گنبدوں سے ڈھک کہ چونے کے مارٹر سے پلستر کیا گیا ہے۔
مرکزی مقبرہ ہشت پہلو (آٹھ کونوں والا) طرز پر بنایا گیا ہے۔ ہر ہشت پہلو کے بیچ میں ایک ستون ہے جس کی بنیاد زیادہ چوڑی ہے اور یہ نیچے سے اوپر تنگ ہوتے جاتے ہیں۔
مرکزی داخلی دروازہ مشرق کی طرف ہے جب کہ مرکزی سمتوں میں ایک اور طرف روشنی اور ہوا کی فراہمی کے لیے نچلی سطح پر کھلی محرابیں رکھی گئی ہیں۔
اندرونی طور پر اس ہشت پہلو کے ہر ایک محراب میں ایک گہرا طاق بنایا گیا ہے جو مستطیل و عمودی پینل ڈیزائن والی چمکیلی ٹائلوں کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔ عمودی محراب والے طاقوں کو نوک دار محرابوں کے ساتھ تاج سے سجایا گیا ہے۔
ان محرابوں کے گرد اور اوپر کی جانب نیلی ٹائل کا کام کیا گیا ہے، جب کہ مختلف نقش و نگار کے لیے نیلے اور سبز رنگ کا سہارا لیا گیا ہے۔
دیواری محرابوں کے اوپر چھوٹے سائز کی سولہ محرابیں بنائی گئی ہیں جن میں آٹھ کھلی اور آٹھ بند ہیں۔ انہی محرابوں پر مقبرے کا گنبد ایستادہ ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے میں کوئی آرائشی کام نہیں ملتا۔
مقبرے کے فن تعمیر اور آرائشی خصوصیات کا وسطی ایشیائی / تیموری فن تعمیر سے گہرا تعلق ہے جو اس کی آرائش میں بھی جھلکتا ہے۔ کاش کہ اس مقبرے کے نقش و نگار اصل حالت میں بچائے گئے ہوتے تو عمارتوں اور تعمیرات سے دل چسپی رکھنے والوں کو یہاں بہت کچھ مل سکتا تھا۔
مقبرے کے اندر دو قبروں کے آثار ملتے ہیں جن پہ کسی قسم کا کوئی کتبہ ناپید ہے۔ ان میں سے گہرام لاشاری اور موتی کی قبر کون سی ہے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ مقبرے سے باہر نکلیں تو چبوترے کی ایک سائیڈ بالکل زمین میں دھنس چکی ہے جس سے نیچے کی کچھ محرابی کھڑکیاں نظر آتی ہیں، یعنی اس مقبرے کے نیچے بھی کوئی تہہ خانہ یا جگہ رہی ہو گی۔
شاید اسی بنا پر مقامیوں کو ہر دوسری تاریخی جگہ کی طرح یہاں بھی قارون کا خزانہ نظر آ گیا۔
مقبرے کے ساتھ مقامیوں کی طرف سے ظلم یہ کیا گیا کہ کسی چھپے ہوئے خزانے (جس کے یہاں دفن ہونے کا دور دور تک سوال نہیں اٹھتا) کی لالچ میں اسے بار بار کھودا گیا۔ کہیں سے اینٹیں اتاری گئیں تو کہیں سے ٹائل اور پتھر اکھاڑے گئے۔
حد تو تب ہو گئی جب میں اپنے بلوچ دوستوں سمیت وہاں پہنچا تو دو تین مقامی مرد وہاں آ دھمکے اور ہمیں کہا کہ اگر یہاں کھدائی سے کچھ ملتا ہے تو ہمیں بھی کچھ حصہ دینا ہو گا (شاید وہ ہمیں خزانے کی تلاش میں یہاں پہنچنے والی کوئی ٹیم سمجھ بیٹھے تھے)۔
میرے دوست محمود کھوسہ نے بتایا کہ یہاں لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ جب موقع ملے اس جگہ کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔
مقبرے کے ساتھ شمالی جانب ایک چھوٹی مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی۔ ایک بلند چبوترے پر تعمیر شدہ یہ دو منزلہ مسجد مربع شکل میں ہے جس کے تین اطراف محرابی دروازے اور مغربی جانب مرکزی محراب ہے۔
دیکھ کر لگتا ہے کہ مسجد کو اندرونی اور بیرونی طور پر صاف ستھری چھوٹی اینٹ سے تیار کیا گیا تھا، جب کہ اوپر چھوٹی محرابوں پر بڑا گنبد موجود تھا جو اب شہید ہو چکا ہے۔ مسجد کے آس پاس اور اندر بس اینٹیں بکھری نظر آتی ہیں۔
میری حکومت پاکستان، محکمۂ آثارِ قدیمہ اور حکومت بلوچستان سے یہ دردمندانہ اپیل ہے کہ خدارا جھل مگسی کے اس ورثے کی حفاظت کے لیے کچھ کریں۔ زیادہ کچھ نہیں تو اس کے گرد چاردیواری دے کر اسے مزید تباہ ہونے سے بچا لیں۔
خدارا، اسے ملک کا قیمتی ورثہ سمجھ کے نہ سہی اپنے سرداروں کی قبر سمجھ کہ ہی بچا لیں تاکہ مجھ جیسے سیاحوں کو یہاں آ کر کڑھنا نہ پڑے۔