مردم شماری وفاق اور صوبوں میں تعاون
وفاقی حکومت نے ان اعتراضات پر توجہ نہیں دی تو سندھ وفاق کا ساتھ نہیں دے گا
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری قبول نہیں۔ سیلاب متاثرین سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے،انھوں نے کہا کہ سندھ وہ صوبہ ہے جس کو ڈیجیٹل مردم شماری پر اعتراض ہے۔ وفاقی حکومت نے ان اعتراضات پر توجہ نہیں دی تو سندھ وفاق کا ساتھ نہیں دے گا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ جب ڈیجیٹل مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کی ہے تو مجھے اسی دن اس فیصلہ کا پتہ چلا جب ایک وفاقی وزیر کو اس فیصلہ کا اچانک علم ہوگا تو عوام کو کیسے معلوم ہوگا؟ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری سے متعلق تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے۔
جسے شمار کیا جائے اس کا ڈیٹا صوبائی حکومت کو فراہم کیا جائے۔ مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ 2017میں ہونے والی مردم شماری میں سندھ سے زیادتی ہوئی تھی۔
اس وقت سندھ کی آبادی 7 کروڑ کے قریب ہے مگر مردم شماری میں سندھ کی آبادی 4 کروڑ ظاہر کی گئی تھی۔ مردم شماری انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ سندھ اسمبلی نے اکثریتی ووٹوں سے ڈیجیٹل مردم شماری پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
سندھ کی مخصوص لسانی صورتحال کی بناء پر یہ مسئلہ زیادہ حساس ہوجاتا ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے اعداد و شمار کو سندھ کی تمام جماعتوں نے مسترد کیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ مردم شماری کے نتائج کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی تھی۔
عمران خان کی سابقہ حکومت میں دوبارہ مردم شماری کا وعدہ ان نکات میں شامل تھا جس کی بنیاد پر ایم کیو ایم نے عمران خان کی وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر حمایت کی تھی مگر گزشتہ حکومت اس وعدہ کو عملی شکل نہ دے سکی، جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے ایم کیو ایم کی قیادت سے عمران خان سے علیحدگی کے لیے رابطہ کیا تھا تو پارٹی رہنماؤں کے مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت پر آمادہ کیا تو پھر معاہدہ میں یہ مطالبہ سرفہرست تھا۔مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے مردم شماری کو مکمل کرنے اور شفاف بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر فنڈز کی عدم دستیابی، بیوروکریسی کی روایتی سستی اور موجودہ حکومت کی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی طاقت میں کمی کی بناء پر مردم شماری کا کام دیر سے شروع ہوا اور ہمیشہ کی طرح مردم شماری کے عمل میں مجموعی طور پر خامیاں رہ گئیں۔
سندھ کے معروف دانشوروں فضل اﷲ قریشی اور نصیر میمن نے اس اہم مسئلہ پر ایک مختصر مقالہ تحریر کیا تھا۔ اس مقالہ میں اس موضوع پر اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ان صاحبان علم و دانش نے لکھا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر نے اپنی کتاب 2017میں مردم شماری اور کیس آف سندھ میں ڈیفیکٹو Defacto (جہاں دستیاب ہو وہاں گنتی) کے طریقہ کار پر زور دیا تھا، جب کہ 2017 میں مردم شماری پر مشاورتی کمیٹی نے ڈیجیرو سسٹم کے تحت کرانے کی سفارش کی تھی (جہاں ہے وہاں گنتی) ڈیجرو سسٹم کے تحت انسانی گنتی کرفیو کے ساتھ یا اس کے بغیر کرنے کی ضرورت ہے۔
فضل اﷲ قریشی اور نصیر میمن صاحب کا مدعا ہے کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری میں غیر قانونی تارکین وطن اور ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں سے کام کی تلاش میں آنے والے غیر مقامی افراد کو سندھ کی آبادی کا حصہ شمار کیا جائے گا، یوں مقامی سندھی آبادی کا تناسب دیگر غیر مقامی آبادی کے مقابلہ میں درہم برہم ہوجائے گا۔
ڈیجیٹل مردم شماری میں نہ جانے کیوں خاندان کا شناختی کارڈ طلب نہیں کیا جارہا بلکہ موبائل نمبر ٹیبلٹ میں درج کیا جارہا ہے۔
شناختی کارڈ بنیادی دستاویز ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ٹیبلٹ میں فرد کا موبائل نمبر درج کرنے سے فرد کا شناختی کارڈ کا نمبر ظاہر ہوتا ہے مگر ایسے ہزاروں لاکھوں افراد ہیں جن کا موبائل نمبر کی سم کسی دوسرے فرد کے نام پر ہے، یوں اس فرد کا شناختی کارڈ نمبر ٹیبلٹ پر ظاہر ہوگا۔ فضل قریشی اور نصیر میمن نے ایک اور نکتہ اٹھایا کہ مردم شماری کے لیے کل 10 دن کا وقت دیا گیا ہے اور مردم شماری کے عملہ کو اوسط ایک سے دو بلاکس دیے گئے ہیں۔
(ایک سے دو بلاکس میں 200 سے 250 مکانات ہیں)۔ 10 دنوں میں یہ کام ممکن نہیں ہے۔ مردم شماری کرنے والے رکن کو 33 بنیادی سوالات کے جوابات ٹیبلٹ میں اندراج کرنے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے مردم شماری کی مدت بڑھادی ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ 30 اپریل تک مردم شماری کے نتائج آجائیں گے۔
مردم شماری کے تناظر میں ایک اہم یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اندرون سندھ خاص طور پر شمالی سندھ بالخصوص لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے اضلاع میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
پولیس کی بہت سی کارروائیوں کے باوجود No Go Area موجود ہیں۔ ان علاقوں میں انسانوں کی گنتی کا عمل شفاف ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس مردم شماری کے تناظر میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے بعد سندھ اور بلوچستان دونوں صوبوں میں انفرااسٹرکچر کی حالت نازک بھی ہے اور تسلی بخش بھی نہیں ہے۔
بہت سے علاقے اب بھی زیر آب ہیں۔ مردم شماری کے بارے میں سندھ میں پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتوں کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کے رہنما اعتراضات اٹھارہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں غیر ملکی شہری بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں اور دیگر صوبوں سے روزگار کے لیے لاکھوں لوگ آباد ہیں۔ پھر ہزاروں لاکھوں افراد وہ بھی ہیں جو رہتے تو یہاں پر ہیں مگر چھ ماہ سے سال بعد اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔
ان کی شادیاں بھی اپنے آبائی علاقوں میں ہوئی ہیں اور مرنے والوں کی میتیں بھی آبائی علاقوں میں جاتی ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ اپنے آبائی علاقوں کا درج ہوتا ہے۔ سندھ میں آباد غیر ملکی باشندوں کی فہرست علیحدہ مرتب ہونی چاہیے۔
دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کی تعداد کے مطابق وفاق کو سندھ کی گرانٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ فضل قریشی اور نصیر میمن نے اپنے مقالہ میں جن اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کی خرابی کی طرف مبذول کرائی ہے۔ وہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کی سکھر برانچ میں دو نامور ججوں نے سندھ میں امن و امان کی صورتحال پر سخت ریمارکس دیے ہیں۔
اندرون سندھ ایسے علاقوں کا وجود ہے جو نوگو ایریاز کہلاتے ہیں۔ حکومت سندھ کے لیے اس بناء پر شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کہ ان علاقوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین سے لے کر منتخب بلدیاتی قیادت کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔
اب اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ان علاقوں میں امن و امان کا مقامی نظام قائم نہیں کرسکی تو وہ سندھ کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ ابھی تک کچھ علاقوں سے پانی نہ نکالنے کی ذمے داری نہ لینے سے حکومت نہیں بچ سکتی۔ سیلاب آئے ہوئے تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں۔ اب تو ان علاقوں کو دوبارہ آباد ہونا چاہیے تھا۔
اب بھی پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین کی ذمے داری ہے کہ وہ اس علاقہ کے ہر فرد کا اندراج یقینی بنائیں۔ خاص طور پر بلدیاتی اداروں کے منتخب اراکین کو اپنے علاقہ کے ایک ایک فرد کے اندراج کو یقینی بنانا چاہیے۔ صوبائی حکومت کو انٹرنیٹ کی فراہمی ،مردم شماری کرنے والے عملہ کے تحفظ اور انھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ مردم شماری کے محکمہ کے ضلعی افسر کا ڈپٹی کمشنر سے رابطہ ہونا چاہیے۔
مردم شماری کے نتائج مرتب کرنے کا عمل سنجیدہ اور وقت طلب ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مردم شماری کے لیے خطیر رقم اس معاشی بحران کے باوجود فراہم کی ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی اس مقصد کے لیے خدمات حاصل کی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سروے کے نتائج کی صداقت کو جانچنے کے لیے جدید ترین سوفٹ ویئر موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار سے صرف بلدیاتی، صوبائی اور قومی حلقے ہی نہیں بنائے جاتے بلکہ تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتوں اور انفرااسٹرکچر کی ترقی میں یہ اعداد و شمار بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بنیادی اعداد وشمار جتنے درست ہونگے غربت کے خاتمہ اور معیارزندگی کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی زیادہ بہتر اور مؤثر ہوگی، اگر پاکستان کو امداد دینے والے ممالک اور مالیاتی اداروں کے سامنے یہ منظرنامہ پیش ہوگا کہ پاکستان کے آبادی سے متعلق اعداد و شمار ہی درست نہیں ہیں تو پھر ان ممالک اور مالیاتی اداروں کی دلچسپی کم ہوجائے گی۔
بلاول بھٹو زرداری کو وفاق سے علیحدہ ہونے کی دھمکی کے بجائے سندھ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی حکومت کی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
آخری خبر یہ آئی ہے کہ مردم شماری کے شعبہ کے سربراہ نے سندھ کے وزیر اعلیٰ سے رابطہ قائم کیا ہے۔ اب صوبائی حکومت کو مردم شماری کو کامیاب کرنے کے لیے مکمل توجہ دینی چاہیے۔