ریاست کی منشا اور عوام

اپنی خود مختاری اور حقیقی آزادی پر اصرار کا کلچر بھی مضبوط ہو رہا ہے


Ghulam Mohi Uddin March 11, 2023
[email protected]

تاجر نے سرائے میں رات گزاری۔ صبح بیدار ہوا تو مال اسباب، سامانِ تجارت سب لٹ چکا تھا۔ گھر واپس جانے کے وسائل تھے نہ تجارت سے منافع حاصل کرنے کی کوئی سبیل۔ روتا دھوتا اُس شہر میں داخل ہو گیاجہاں قسمت آزمانے آیا تھا۔

دل میں سوچتا تھا کہ سرکاری داد رسی کا کوئی چارہ کرے کہ پیچھے سے کسی نے گردن آدبوچی۔ گھبرا کر پیچھے دیکھا تو مسلح ریاستی اہلکار تھے۔

ان کا سرغنہ تاجر کو جھنجھوڑتے ہوئے بولا ''بدبخت! سارا ملک بادشاہ سلامت کی صحت یابی کا جشن منا رہا ہے اور تم نحوست زدہ چہرے کے ساتھ سارے ماحول کو خراب کر رہے ہو۔ پہلے ہی مالی نقصان سے بوکھلایا ہوا تاجر چُپ چاپ ان کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

جیل انتظامیہ نے اس کا سارا ماجرا سُنا، اسے لکھا اور تاجر کو جیل میں ڈال دیا۔ یہ ایسی صورت حال تھی کہ ایک انجان شہرمیں اپنے دفاع میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ کچھ ہفتے اسی طرح گزر گئے۔ اس دوران سرکاری سطح پر جب نئے قیدیوں کے معاملات کو دیکھا گیا تو اس کا جرم بے ضرر قرار پایا۔ رہائی کا پروانہ اور امدادی رقم جاری ہو گئی۔

اس اچانک خوشی پر مسرور تاجر نئی اُمیدوں اور امنگوں کے ساتھ ہنستا مسکراتا جیل سے روانہ ہوا تو اس دن کے لیے نیا فرمان شاہی جاری ہو چکا تھا۔ اب ریاست کی منشا تھی کہ شہنشاہ کی والدہ کے انتقال کے باعث چہروں پر دُکھ اور سنجیدگی طاری رکھی جائے۔

شہر کے مرکزی چوراہے تک پہنچتے پہنچتے نئے فرمان کے نفاذ کے لیے اہلکار متحرک ہو چکے تھے۔ ایک مرتبہ پھر اس کی گردن دبوچ لی جاتی ہے۔

اہلکار کہتے ہیں تمہیں نہیں پتہ بادشاہ سلامت کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور تم چوراہے میں کھڑے دانت نکال رہے ہو' اور تاجر وہیں جا پہنچتا ہے جہاں سے نکلا تھا۔ اس سے آگے کہانی کے انجام کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

ہمارے اپنے ملک کی تاریخ اس سے ملتے جلتے صدمات سے بھری پڑی ہے۔ معاملات ریاست کے ساتھ بذریعہ ووٹ لوگوں کا واجبی سا تعلق تو ہے، لیکن ریاست کی فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں، بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ریاست کی منشا کو اس لیے سمجھ ہی نہیں پاتے کیونکہ یہ بھی ایک راز ہے کہ درحقیقت ریاست کی منشا کہاں اور کیسے ظہور پذیر ہوتی ہے اور یہ کہ اس منشا کے تقاضے کیسے طے کیے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم پوری دنیا میں اس بات کی تشہیر کرتے ہیں کہ پاکستان کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بنیاد پر کسی ممکنا حل کے لیے از سر نو عالمی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ اس سلسلے میں عملی اقدامات کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔

یہ تشہیر پاکستان میں مقبوضہ کشمیر پر پیش رفت کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ جب اس حوالے سے اچھا خاصا جوش و خروش پیدا ہو جاتا ہے اور پاکستان کے عوام اپنی حکومت کی دلیری اور حب الوطنی کے گُن گانے لگتے ہیں تو ہم اس اقدام سے پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔

لوگ ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے ہیں تو ریاست کی منشا اس طور ظاہر ہوتی ہے کہ پسپائی کے اس اقدام کو قوم ایک عظیم کامیابی تصور کرے۔ محترمہ بینظیر بھٹو ہی کے عہد حکومت میں غالباً 1988ء میں پاکستان نے سارک سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنی تھی۔

28برس کے طویل عرصہ بعد کوئی بھارتی سربراہ حکومت، پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ راجیو گاندھی کی اسلام آباد آمد پر وفاقی دارالحکومت کو ایسے تمام نشانات اور نعروں سے پاک کردیا گیا جن کا تعلق پاکستان کے کشمیر پر سرکاری اورقومی موقف کے ساتھ ہے۔

ایک سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھٹیا عمل سے حاصل کیا ہوا۔ یہ درست کہ سارک دوطرفہ تنازعات کا فورم نہیں لیکن بینر اور بل بورڈز اتارنے کے تردد کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی جب کہ پاکستان بظاہر اپنے موقف پر بدستور قائم تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کو ایسی کوئی اطلاع تھی کہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی کوئی جھلک دیکھتے ہی راجیو گاندھی چلتے چلتے چکرا کر گر جاتے ہیں۔

ایک اور مثال دیکھیے۔ 2013کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے الیکشن میں دھاندلی پر طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ بات تحقیقات کی طرف گئی تو ضرورت مندوں کے لیے بیانیے اور اصطلاحیں گھڑنے والوں کی جانب سے 'منظم دھاندلی' کی حیران کردینے والی اصطلاح سامنے آ گئی۔ شاید ریاست کی منشا تھی کہ منظم دھاندلی ہی کو اصل دھاندلی سمجھا جائے۔

یعنی اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے لامحدود اثر و رسوخ کی بنا پر منظم دھاندلی کو غیر منظم دھاندلی کا رنگ دینے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کوئی بہت زیادہ تشویش کی بات نہیں ہونی چاہیے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی انتخابی دھاندلی عوامی نمایندگی کی روح کو انتہائی متاثر کرتی ہے۔ دھاندلی منظم ہو یا غیرمنظم منفی اثرات ایک جیسے ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں ریاست کی منشا سے عوامی مطابقت میں ناکامی کی ایک اور مثال سامنے آئی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا اس سارے کھیل میں امریکی ایما بھی شامل تھی یا نہیں۔ ریاستی منشا کے اثبات میں دلائل جوڑنے والوں نے یہ تک کہہ دیا کہ سائفر نام کی کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جب اس سے بات نہ بنی تو یہ بات پھیلائی گئی کہ سائفر آیا تو ہو گا لیکن اس کا مطلب وہ نہیں لینا چاہیے جو لیا جا رہا ہے۔

عوام اگر پوچھیں کہ، کیا حکومت امریکی ایما پر گرائی گئی؟ تو اس پر ریاست کہتی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ جاننے کے لیے تحقیقات ہی نہیں ہوئی۔ دوسری طرف عمران خان ہیں جنھوں نے اس سائفر سنگینی سے عوام کو آگاہ کیا۔ لیکن اب نہ جانے کس مصلحت کے زیر اثر وہ امریکا کے اس حوالے سے کردار کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش میں یہ تک کہہ گئے کہ دراصل سابق آرمی چیف نے امریکا کو گمراہ کیا تھا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا عالمی تعلقات کے حساس ترین معاملات میں امریکا کو اتنی آسانی سے گمراہ کیا جانا ممکن ہے۔

اب برطانیہ کے ایک سابق سفارتکار اور تاریخ دان 'کریگ مرے' نے ایک ٹویٹ کے ذریعے تمام ابہام دور کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں بزور حکومت کی حالیہ تبدیلی امریکا کی خطے میں موجودگی کے راستے میں رکاوٹ بننے کا نتیجہ ہے اور میڈیا نے اسے اس واقعے کو ویسی اہمیت نہیں دی جس کا یہ متقاضی تھا۔ امریکا کے حوالے سے کچھ مواقع چھوڑ کر ریاست کے روئیے کی بالکل درست تصویر کشی اس شعر سے ہوتی ہے:

اک وہ کہ اُن کی یاد ہو جیسے خُدا کی یاد

اور ایک ہم، کہ جیسے ہمارا خُدا نہیں

ہم پہلے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی داخلی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کی وجوہات داخلی کم اور خارجی زیادہ ہیں جسے پاکستان کے اندر سے حمایت مل جاتی ہے۔

لیکن داخلی طور پر اب ہم ایسے دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جن میں سے ایک عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے دھارے میں بہتے چلے جانے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں جب کہ دوسری طرف اپنی خود مختاری اور حقیقی آزادی پر اصرار کا کلچر بھی مضبوط ہو رہا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ ہم بہت جلد ریاست اور عوام کے موقف میں قربت کے حصول کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں