سارے رنگ
’آئی ایم ایف‘ سے ابھی تک نئے قرضوں کے معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکے ہیں
دیوالیہ ہونے سے بڑھ کر 'دیوالیہ پن'!
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
مختلف اقسام کے ذرایع اِبلاغ کا میدان کتنا وسیع ہے، لیکن کیا آپ کو کہیں کوئی ایسی بات دکھائی اور سنائی دی، جو ہمارے ملک کے خراب تر ہوتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں کوئی ممکنہ حل یا تجویز پر مبنی ہو۔۔۔؟
2 مارچ 2023ء میں روزنامہ ایکسپریس میں یہ خبر جلی حروف میں شایع ہوئی ہے کہ 1974ء کے بعد مہنگائی کی شرح سب سے بلند ہو چکی ہے۔
پھر 'آئی ایم ایف' سے ابھی تک نئے قرضوں کے معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکے ہیں، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث ملکی خزانہ دبائو میں ہے۔۔۔ اور اگر یہ سمجھوتا ہو بھی جائے، تو قرضوں سے کچھ وقت کے لیے گزارا تو ممکن ہے، لیکن یہ دیرپا حل تو درکنار الٹا مستقبل کے لیے شدید معاشی مشکلات کا باعث بنتا ہے اور بن بھی رہا ہے۔
اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں، شاید آج سے پہلے اتنے زیادہ تواتر سے پہلے کبھی نہیں کی گئی ہوں گی، اشیائے ضروریہ متوسط اور نچلے طبقے کی رسائی سے نکلتی چلی جا رہی ہیں۔۔۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف تنخواہ دار طبقے کا گزارا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود ملک کو چلانے والے تمام 'صاحبان اقتدار واختیار' اپنی روایتی دھینگا مشتی اور پنجہ آزمائی میں پوری طرح مصروف ہیں، کہیں بھی کوئی مشترکہ حکمت عملی، یا نیک نیتی سے بتائی جانے والی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔۔۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیا کرسکتے ہیں کہ جس سے ہماری معیشت کو فائدہ ہو! ہمیں کون سی اشیا استعمال کرنی چاہئیں۔
صاحب ثروت افراد کو کیسے اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں، کس شعبے کو توجہ دینی چاہیے، کس شعبے کو فعال کرنا چاہیے! مجال ہے کہ (خاکَم بدہن) ملک ڈوبنے کے خدشات کی ہاہاکار میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا پڑھنے یا سننے کو ملا ہو!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک سے مخلص اہل علم اور اہل دانش بھی اب اٹھ چکے ہیں یا بوجوہ بہت مایوس یا گوشہ نشین ہوگئے ہیں، ورنہ ایسی صورت میں کیا ضروری تھا کہ کوئی اہل حَکم ہی کچھ بات کرے، بطور باشعور شہری یہ دانش وَر اہل فکر اور مخلص حلقے بھی کوئی صلاح کوئی منصوبہ پیش کر سکتے تھے، لیکن بہت دور تک ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ جو نام نہاد تجزیہ نگار یا زیادہ تر کچھ 'صحافی نما' سے جو لوگ دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔
وہ بھی شرم ناک حد تک اپنے اپنے سیاست دانوں یا 'حلقوں' ہی کے نام کی مالا جپ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی خیال نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی کیا حالت ہے اور اس باہمی رنجش اور چپقلش سے کمزور معیشت کی نبض ڈوبتی چلی جانے کا کتنا سخت اندیشہ ہے!
کاش، جتنی شدت سے اقتدار کی یہ گھٹیا لڑائی اور اختیار حاصل یا برقرار رکھنے کی یہ نہایت بھاری کُشتی لڑی جا رہی ہے، اس کے بہ جائے کوئی توجہ ملک کی معاشی نیّا پار لگانے کو بھی ہو جاتی۔۔۔! کاش، اس ملک کے پالیسی ساز اپنی پچھلی غلطیوں کا جائزہ لیتے، 'غدار' قرار دینے کا معیوب کھیل روکا جاتا، ملک میں داخلی انتشار دور کرنے کی کوئی سعی کی جاتی۔۔۔ زیادہ نہیں تو کم سے کم صوبائی اور قومیتی تنازعات کو حل کیا جاتا، ملک کی تمام قوموں کے احساس محرومیوں، شکایتوں اور باہمی فاصلوں کو پاٹنے کی خاطر ایک مربوط اور مفید مکالمے کی کوشش کی جاتی۔ اہل اقتدار کھلے دل سے یہ بات مانتے کہ ہماری بھی غلطیاں ہیں، ہم اب انھیں بہتر کریں گے، ملک کے تمام ناراض لوگوں کو گلے لگائیں گے۔
مل جل کر اس ملک کی نائو کو بھنور سے نکالنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہاں تو اتنے بڑے بڑے ''دانش ور'' ہیں، انھیں بھی مجموعی طور پر کوئی ہوش نہیں ہے۔
اس پر مستزاد تھوک کے حساب سے تو شہر، شہر ''ادبی میلوں'' کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہاں شاید نشستند، گفتند، برخاستند کے ساتھ تعلقات بنانے، نمود ونمائش، مفادات اور تجارتی مقاصد سے زیادہ کچھ سنجیدہ سوچنے کی سکت سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔۔۔! ورنہ غیر سرکاری تنظیموں، کثیرالقومی اداروں، مخصوص گروہوں کے 'ایجنڈوں' اور سرمایہ داری کی چمک دمک سے زیادہ یہاں قومی مکالمے اور ہنگامی معاشی حالت کی بات کی جاتی۔۔۔ مگر نہ سرکاری سطح پر اقتدار کی جنگ سے زیادہ کچھ سوچنے کی اہلیت ہے اور نہ نجی شعبے میں کوئی درد رکھنے والا ایسا سچا دل باقی رہا ہے۔
جو ملک کی اس تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے کوئی سنجیدہ حل اور قابل عمل بات تو کرنے کے لیے تیار ہو۔ کسی بھی ذریعے سے کم سے کم کوئی بات تو کرے۔ کہیں کوئی تحریر یا کوئی گفتگو تو ایسی نظر سے گزرے، جو شہریوں کو، اس ملک کے رئیس طبقے، پالیسی ساز اور صنعت کاروں کو کوئی راہ دے، کوئی امید دلائے، کوئی آس جگائے۔ ہمارے ملک کے ادب سے صحافت اور معاشرت تک، اس بدترین کیفیت میں بھی روایتی چلن سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ شاید معاشی دیوالیہ نکل جانے سے کہیں بڑھ کر دیوالیہ پن ہے۔ بس اللہ ہی ہمارا حامی وناصر ہو!
۔۔۔
محبت سرخ رو ہوگی!
غلام قادر، سیال کوٹ
کیا سوہنی آج بھی چناب کے پہلو میں رات ہونے کا انتظار کر رہی ہے؟
کیا اس کا گھڑا آج بھی کچا ہے؟
کیا اس کا پیار آج بھی اتنا ہی سچا ہے؟
ہمارے پاس کسی کے پیار کی سچائی ماپنے کا نہ تو اختیار تھا اور نہ ہی پیمانہ۔۔۔لیکن ہم پھر بھی چل پڑے تھے۔ یہ قافلہ شاعر مشرق کی جنم بھومی سے چلا تھا اور اس کی منزل دریائے عاشقاں تھی۔ یہ عاشق کونسی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں۔
مولانا ظفر علی خان کے شہر سے گزرتے ہوئے ہمارا لکھاری ایک مجرمانہ تاسف کا شکار ہو رہا تھا کہ اپنے تئیں اس نے بھی قلم تھام رکھا تھا لیکن اس کا حق ادا کرنے سے سراسر قاصر تھا۔ ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بے باک۔ وہ اسی میں خوش تھا کہ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
میٹلڈ روڈ پر لگژری گاڑی میں ہونے والا یہ سفر تاریخ کا سفر بنتا جا رہا تھا۔ جموں کی پہاڑیوں سے نکلنے والا چندر بھاگ، جو ایک نالے کی شکل میں ہوتا ہے، کیسے آہستہ آہستہ چناب میں ڈھل جاتا ہے۔ سمندر سے وصل ہونے تک تقریباً ایک ہزار کلومیٹر سفر میں اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اور یہ پانی اپنے ساتھ محبت کی داستانیں لیے سفر کرتے رہتے ہیں۔
کہیں اس کے پانیوں میں کشمیر کی مٹی کی مہک ہوتی ہے اور کہیں اس میں سوہنی کے کچے گھڑے کی گھلاوٹ محسوس ہوتی آتی ہے۔ چناب کے کناروں پر وفا کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ سوہنی ڈوب گئی لیکن ڈوب کر بھی امر ہو گئی۔ مصطفی زیدی کہتے ہیں؎
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
موسم بہار میں جب چناب کے کناروں پر سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کائنات ابھی ابھی وجود میں آئی ہو اور چناب کا ایک حوالہ دورحاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ بھی ہیں یا مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ایک حوالہ چناب کے پانی بھی ہیں کہ وہ بھی اس کے کناروں پر واقع ایک گاؤں جو کالیاں میں پیدا ہوئے۔ اور اس مٹی سے محبت نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔
جب ہماری گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو لکھاری کو زمانۂ حال میں واپس آنے میں چند لمحے ہی لگے تھے، لیکن یہ لمحے صدیوں پر بھاری تھے۔ کیا سوہنی نے یہ سوچا ہو گا کہ ایک مدت کے بعد کوئی اس کو یاد کرے گا اور اس کے لمس والے پانیوں کا قصد کرے گا۔
پلے لینڈ میں داخل ہوئے تو بچوں سے زیادہ ان کے بڑے الجھن میں مبتلا ہو گئے کہ کونسا جھولا ہے جو ان کے بچوں کے لیول پر پورا اترے گا۔
اور جب خریدے ہوئے ٹکٹ کئی بار تبدیل کرنے پڑے تو خواتین کی بن آئی کہ خریدے گئے ٹکٹ ضایع تو نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بدقت تمام بچوں کو جھولوں میں بٹھا کر تصویروں سے بہلایا گیا۔ صد شکر کہ ریموٹ کارز نے بچوں کی حسرت پوری کر دی اور اس ایک مسکراہٹ نے تمام کلفت زائل کر دی۔
چناب کے پانیوں میں شام کی سرخی گھل رہی تھی۔ دور دن بھر کی اڑان کے تھکے ہارے پرندوں کے قافلے پانیوں پر اتر رہے تھے۔
شاید ان میں کچھ سائبیریا سے آنے والے مہمان بھی ہوں جو دور دراز کا یہ سفر صرف ان پانیوں کی خاطر کرتے ہوں۔۔
کون جانے اور ان میں کونجیں بھی ہوتی ہیں۔ کہیں لمبی گردنوں والے ہنس ایک ٹانگ پر کھڑے گیان دھیان کی تیاری کر رہے تھے۔ محبتوں کی لہریں سبک خرامی سے رواں تھیں۔ سوہنی ہر دور میں موجود تھی اور ہر دور میں موجود رہے گی۔
بس اس کا نام تبدیل ہوتا رہے گا۔ اس کے محبوب تک پہنچانے والا ہر کچا گھڑا بھی موجود رہے گا۔ بس اس کی ہیئت اور نام زمانے کے مطابق بدلتا جائے گا۔ کہ یہ ایک استعارہ ہے جو محبوب تک وصل میں معاونت کرنے والی ہر چیز کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
اور اگر یہ دونوں موجود رہیں گے، تو سچا پیار بھی موجود رہے گا۔ چاہے جھوٹ کا اندھیرا کتنا ہی بڑھ جائے، سچ کی لو روشنی پھیلاتی ہی رہے گی۔
ہر قسم کے مفادات اور مشکلات سے بالاتر ہو کر۔ ہزاروں مشکلیں آئیں، محبت سُرخ رو ہوگی۔ یہ ہر کُوچے میں ہوگی، کُو بہ کُو اور جُو بہ جُو ہو گی۔ لکھاری کو اس کے سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔
۔۔۔
حاصل سے لا حاصل تک
سائحہ رشدا، پشاور
ہماری زندگی ہر وقت کسی نہ کسی مصروفیت سے دوچار ہوتی ہے کبھی پڑھائی کبھی امتحانات تو کبھی گھر کے کام ہم اتنا مصروف رہتے ہیں کہ خود کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، ایک مشینی زندگی گزارتے ہوئے ہم اپنی ذات بھول بیٹھے ہیں۔
وقت ہی نہیں بچتا کہ اپنے بچپن کے بارے میں سوچیں کچھ لطف اندوز واقعات یاد کریں، اماں کی پٹائی دوستوں کے جھگڑے اور اسی طرح مٹی اور ریت کے وہ گھر یاد کریں، جو بچپن کے ساتھی ہوتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی ہم بچپن میں ایک بار پھر جانا چاہتے ہیں جہاں نہ کوئی فکر نہ دکھ نہ غم نہ ذمہ داری نہ کسی چیز کا ملال تھا۔
اس دنیا کی دوڑ میں ہر شخص دوسرے سے آگے جانا چاہتا ہے۔ کل جس چیز کی آرزو تھی آج جو لاحاصل کی صورت اختیار کر چکا ہے ایک منزل سے دوسری منزل کی جستجو نے ہمارا چین لے کر بے سکونی میں دھکیل دیا ہے۔
ہم ان لمحات کو ان خوشیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے جو اس کے حصول سے پہلے ہماری دعاؤں اور ارمانوں کا حصہ تھے۔ ایک سے بڑھ کر دوسری خوشی کا انتظار کرتے ہیں اور اس کا انجام بھی کچھ بہتر نہیں ہوتا، کیوں کہ شاید ہم ناشکرے ہیں۔
اپنی زندگی کے دس سال بعد شاید ہی ہمارے پاس وہ وقت بچے کہ ہم اپنے ماضی کو یاد کریں، لیکن پھر بھی ہم اس دور کو آج سے بہت پرسکون جانیں گے، چاہ نہ چاہ کر لوٹنا چاہیں گے اور شاید یہ ملال بھی رہے کہ ہم نے زندگی کو جینے کے بہ جائے فقط گزارنے پر ترجیح دی۔
آج کی کام یابی اور خوشی کو منانے کے بہ جائے ایک اور کل پر ہم نے محمول کی اور وہ کل جب آج بن کر ہمارے سامنے آیا، تو ہم وہ حق ادا نہ کر سکیں، جو فرض بنتا تھا۔
لہٰذا خوش رہیں خوشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انداز سے منائیں، جو حاصل کیا اور جو حاصل کریں گے، سب پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کو شکر اور خوشی سے لوٹانا ہم پر فرض ہے۔
''غموں سے فرصت نہیں، خوشیاں بھی منتظر کھڑی۔۔۔ تیرے حوادث دیکھ لیں گے زندگی۔۔۔ ابھی عمر بہت ہے پڑی!''
۔۔۔
انســــان
رئیس امروہوی
٭عام لوگ ان باتوں پر ہنسا کرتے ہیں جن پر رونا چاہیے۔
٭نوع انسانی کا 'منحوس ترین دن' وہ تھا جب قلم ایجاد کیاگیا۔
٭انسان ہمیشہ اس آرزو میں مبتلا رہتا ہے کہ کوئی اسے غلام بنالے۔
٭ اگر موت کا وجود نہ ہوتا تو لوگ خودکشی کرکے مرجایا کرتے۔
٭اگر تم کوئی دیوار بنا نہیں سکتے تو کیا اس پر بھی قادر نہیں کہ کوئی دیوار گرادو۔
٭ شہرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے سر پر دو سینگ اُگالو۔
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
مختلف اقسام کے ذرایع اِبلاغ کا میدان کتنا وسیع ہے، لیکن کیا آپ کو کہیں کوئی ایسی بات دکھائی اور سنائی دی، جو ہمارے ملک کے خراب تر ہوتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں کوئی ممکنہ حل یا تجویز پر مبنی ہو۔۔۔؟
2 مارچ 2023ء میں روزنامہ ایکسپریس میں یہ خبر جلی حروف میں شایع ہوئی ہے کہ 1974ء کے بعد مہنگائی کی شرح سب سے بلند ہو چکی ہے۔
پھر 'آئی ایم ایف' سے ابھی تک نئے قرضوں کے معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکے ہیں، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث ملکی خزانہ دبائو میں ہے۔۔۔ اور اگر یہ سمجھوتا ہو بھی جائے، تو قرضوں سے کچھ وقت کے لیے گزارا تو ممکن ہے، لیکن یہ دیرپا حل تو درکنار الٹا مستقبل کے لیے شدید معاشی مشکلات کا باعث بنتا ہے اور بن بھی رہا ہے۔
اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں، شاید آج سے پہلے اتنے زیادہ تواتر سے پہلے کبھی نہیں کی گئی ہوں گی، اشیائے ضروریہ متوسط اور نچلے طبقے کی رسائی سے نکلتی چلی جا رہی ہیں۔۔۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف تنخواہ دار طبقے کا گزارا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود ملک کو چلانے والے تمام 'صاحبان اقتدار واختیار' اپنی روایتی دھینگا مشتی اور پنجہ آزمائی میں پوری طرح مصروف ہیں، کہیں بھی کوئی مشترکہ حکمت عملی، یا نیک نیتی سے بتائی جانے والی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔۔۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر کیا کرسکتے ہیں کہ جس سے ہماری معیشت کو فائدہ ہو! ہمیں کون سی اشیا استعمال کرنی چاہئیں۔
صاحب ثروت افراد کو کیسے اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں، کس شعبے کو توجہ دینی چاہیے، کس شعبے کو فعال کرنا چاہیے! مجال ہے کہ (خاکَم بدہن) ملک ڈوبنے کے خدشات کی ہاہاکار میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا پڑھنے یا سننے کو ملا ہو!
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک سے مخلص اہل علم اور اہل دانش بھی اب اٹھ چکے ہیں یا بوجوہ بہت مایوس یا گوشہ نشین ہوگئے ہیں، ورنہ ایسی صورت میں کیا ضروری تھا کہ کوئی اہل حَکم ہی کچھ بات کرے، بطور باشعور شہری یہ دانش وَر اہل فکر اور مخلص حلقے بھی کوئی صلاح کوئی منصوبہ پیش کر سکتے تھے، لیکن بہت دور تک ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ جو نام نہاد تجزیہ نگار یا زیادہ تر کچھ 'صحافی نما' سے جو لوگ دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔
وہ بھی شرم ناک حد تک اپنے اپنے سیاست دانوں یا 'حلقوں' ہی کے نام کی مالا جپ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انھیں اس بات کا کوئی خیال نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی کیا حالت ہے اور اس باہمی رنجش اور چپقلش سے کمزور معیشت کی نبض ڈوبتی چلی جانے کا کتنا سخت اندیشہ ہے!
کاش، جتنی شدت سے اقتدار کی یہ گھٹیا لڑائی اور اختیار حاصل یا برقرار رکھنے کی یہ نہایت بھاری کُشتی لڑی جا رہی ہے، اس کے بہ جائے کوئی توجہ ملک کی معاشی نیّا پار لگانے کو بھی ہو جاتی۔۔۔! کاش، اس ملک کے پالیسی ساز اپنی پچھلی غلطیوں کا جائزہ لیتے، 'غدار' قرار دینے کا معیوب کھیل روکا جاتا، ملک میں داخلی انتشار دور کرنے کی کوئی سعی کی جاتی۔۔۔ زیادہ نہیں تو کم سے کم صوبائی اور قومیتی تنازعات کو حل کیا جاتا، ملک کی تمام قوموں کے احساس محرومیوں، شکایتوں اور باہمی فاصلوں کو پاٹنے کی خاطر ایک مربوط اور مفید مکالمے کی کوشش کی جاتی۔ اہل اقتدار کھلے دل سے یہ بات مانتے کہ ہماری بھی غلطیاں ہیں، ہم اب انھیں بہتر کریں گے، ملک کے تمام ناراض لوگوں کو گلے لگائیں گے۔
مل جل کر اس ملک کی نائو کو بھنور سے نکالنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہاں تو اتنے بڑے بڑے ''دانش ور'' ہیں، انھیں بھی مجموعی طور پر کوئی ہوش نہیں ہے۔
اس پر مستزاد تھوک کے حساب سے تو شہر، شہر ''ادبی میلوں'' کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہاں شاید نشستند، گفتند، برخاستند کے ساتھ تعلقات بنانے، نمود ونمائش، مفادات اور تجارتی مقاصد سے زیادہ کچھ سنجیدہ سوچنے کی سکت سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔۔۔! ورنہ غیر سرکاری تنظیموں، کثیرالقومی اداروں، مخصوص گروہوں کے 'ایجنڈوں' اور سرمایہ داری کی چمک دمک سے زیادہ یہاں قومی مکالمے اور ہنگامی معاشی حالت کی بات کی جاتی۔۔۔ مگر نہ سرکاری سطح پر اقتدار کی جنگ سے زیادہ کچھ سوچنے کی اہلیت ہے اور نہ نجی شعبے میں کوئی درد رکھنے والا ایسا سچا دل باقی رہا ہے۔
جو ملک کی اس تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے کوئی سنجیدہ حل اور قابل عمل بات تو کرنے کے لیے تیار ہو۔ کسی بھی ذریعے سے کم سے کم کوئی بات تو کرے۔ کہیں کوئی تحریر یا کوئی گفتگو تو ایسی نظر سے گزرے، جو شہریوں کو، اس ملک کے رئیس طبقے، پالیسی ساز اور صنعت کاروں کو کوئی راہ دے، کوئی امید دلائے، کوئی آس جگائے۔ ہمارے ملک کے ادب سے صحافت اور معاشرت تک، اس بدترین کیفیت میں بھی روایتی چلن سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ شاید معاشی دیوالیہ نکل جانے سے کہیں بڑھ کر دیوالیہ پن ہے۔ بس اللہ ہی ہمارا حامی وناصر ہو!
۔۔۔
محبت سرخ رو ہوگی!
غلام قادر، سیال کوٹ
کیا سوہنی آج بھی چناب کے پہلو میں رات ہونے کا انتظار کر رہی ہے؟
کیا اس کا گھڑا آج بھی کچا ہے؟
کیا اس کا پیار آج بھی اتنا ہی سچا ہے؟
ہمارے پاس کسی کے پیار کی سچائی ماپنے کا نہ تو اختیار تھا اور نہ ہی پیمانہ۔۔۔لیکن ہم پھر بھی چل پڑے تھے۔ یہ قافلہ شاعر مشرق کی جنم بھومی سے چلا تھا اور اس کی منزل دریائے عاشقاں تھی۔ یہ عاشق کونسی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں۔
مولانا ظفر علی خان کے شہر سے گزرتے ہوئے ہمارا لکھاری ایک مجرمانہ تاسف کا شکار ہو رہا تھا کہ اپنے تئیں اس نے بھی قلم تھام رکھا تھا لیکن اس کا حق ادا کرنے سے سراسر قاصر تھا۔ ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بے باک۔ وہ اسی میں خوش تھا کہ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
میٹلڈ روڈ پر لگژری گاڑی میں ہونے والا یہ سفر تاریخ کا سفر بنتا جا رہا تھا۔ جموں کی پہاڑیوں سے نکلنے والا چندر بھاگ، جو ایک نالے کی شکل میں ہوتا ہے، کیسے آہستہ آہستہ چناب میں ڈھل جاتا ہے۔ سمندر سے وصل ہونے تک تقریباً ایک ہزار کلومیٹر سفر میں اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اور یہ پانی اپنے ساتھ محبت کی داستانیں لیے سفر کرتے رہتے ہیں۔
کہیں اس کے پانیوں میں کشمیر کی مٹی کی مہک ہوتی ہے اور کہیں اس میں سوہنی کے کچے گھڑے کی گھلاوٹ محسوس ہوتی آتی ہے۔ چناب کے کناروں پر وفا کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ سوہنی ڈوب گئی لیکن ڈوب کر بھی امر ہو گئی۔ مصطفی زیدی کہتے ہیں؎
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
موسم بہار میں جب چناب کے کناروں پر سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کائنات ابھی ابھی وجود میں آئی ہو اور چناب کا ایک حوالہ دورحاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ بھی ہیں یا مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ایک حوالہ چناب کے پانی بھی ہیں کہ وہ بھی اس کے کناروں پر واقع ایک گاؤں جو کالیاں میں پیدا ہوئے۔ اور اس مٹی سے محبت نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔
جب ہماری گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو لکھاری کو زمانۂ حال میں واپس آنے میں چند لمحے ہی لگے تھے، لیکن یہ لمحے صدیوں پر بھاری تھے۔ کیا سوہنی نے یہ سوچا ہو گا کہ ایک مدت کے بعد کوئی اس کو یاد کرے گا اور اس کے لمس والے پانیوں کا قصد کرے گا۔
پلے لینڈ میں داخل ہوئے تو بچوں سے زیادہ ان کے بڑے الجھن میں مبتلا ہو گئے کہ کونسا جھولا ہے جو ان کے بچوں کے لیول پر پورا اترے گا۔
اور جب خریدے ہوئے ٹکٹ کئی بار تبدیل کرنے پڑے تو خواتین کی بن آئی کہ خریدے گئے ٹکٹ ضایع تو نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بدقت تمام بچوں کو جھولوں میں بٹھا کر تصویروں سے بہلایا گیا۔ صد شکر کہ ریموٹ کارز نے بچوں کی حسرت پوری کر دی اور اس ایک مسکراہٹ نے تمام کلفت زائل کر دی۔
چناب کے پانیوں میں شام کی سرخی گھل رہی تھی۔ دور دن بھر کی اڑان کے تھکے ہارے پرندوں کے قافلے پانیوں پر اتر رہے تھے۔
شاید ان میں کچھ سائبیریا سے آنے والے مہمان بھی ہوں جو دور دراز کا یہ سفر صرف ان پانیوں کی خاطر کرتے ہوں۔۔
کون جانے اور ان میں کونجیں بھی ہوتی ہیں۔ کہیں لمبی گردنوں والے ہنس ایک ٹانگ پر کھڑے گیان دھیان کی تیاری کر رہے تھے۔ محبتوں کی لہریں سبک خرامی سے رواں تھیں۔ سوہنی ہر دور میں موجود تھی اور ہر دور میں موجود رہے گی۔
بس اس کا نام تبدیل ہوتا رہے گا۔ اس کے محبوب تک پہنچانے والا ہر کچا گھڑا بھی موجود رہے گا۔ بس اس کی ہیئت اور نام زمانے کے مطابق بدلتا جائے گا۔ کہ یہ ایک استعارہ ہے جو محبوب تک وصل میں معاونت کرنے والی ہر چیز کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
اور اگر یہ دونوں موجود رہیں گے، تو سچا پیار بھی موجود رہے گا۔ چاہے جھوٹ کا اندھیرا کتنا ہی بڑھ جائے، سچ کی لو روشنی پھیلاتی ہی رہے گی۔
ہر قسم کے مفادات اور مشکلات سے بالاتر ہو کر۔ ہزاروں مشکلیں آئیں، محبت سُرخ رو ہوگی۔ یہ ہر کُوچے میں ہوگی، کُو بہ کُو اور جُو بہ جُو ہو گی۔ لکھاری کو اس کے سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔
۔۔۔
حاصل سے لا حاصل تک
سائحہ رشدا، پشاور
ہماری زندگی ہر وقت کسی نہ کسی مصروفیت سے دوچار ہوتی ہے کبھی پڑھائی کبھی امتحانات تو کبھی گھر کے کام ہم اتنا مصروف رہتے ہیں کہ خود کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، ایک مشینی زندگی گزارتے ہوئے ہم اپنی ذات بھول بیٹھے ہیں۔
وقت ہی نہیں بچتا کہ اپنے بچپن کے بارے میں سوچیں کچھ لطف اندوز واقعات یاد کریں، اماں کی پٹائی دوستوں کے جھگڑے اور اسی طرح مٹی اور ریت کے وہ گھر یاد کریں، جو بچپن کے ساتھی ہوتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی ہم بچپن میں ایک بار پھر جانا چاہتے ہیں جہاں نہ کوئی فکر نہ دکھ نہ غم نہ ذمہ داری نہ کسی چیز کا ملال تھا۔
اس دنیا کی دوڑ میں ہر شخص دوسرے سے آگے جانا چاہتا ہے۔ کل جس چیز کی آرزو تھی آج جو لاحاصل کی صورت اختیار کر چکا ہے ایک منزل سے دوسری منزل کی جستجو نے ہمارا چین لے کر بے سکونی میں دھکیل دیا ہے۔
ہم ان لمحات کو ان خوشیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے جو اس کے حصول سے پہلے ہماری دعاؤں اور ارمانوں کا حصہ تھے۔ ایک سے بڑھ کر دوسری خوشی کا انتظار کرتے ہیں اور اس کا انجام بھی کچھ بہتر نہیں ہوتا، کیوں کہ شاید ہم ناشکرے ہیں۔
اپنی زندگی کے دس سال بعد شاید ہی ہمارے پاس وہ وقت بچے کہ ہم اپنے ماضی کو یاد کریں، لیکن پھر بھی ہم اس دور کو آج سے بہت پرسکون جانیں گے، چاہ نہ چاہ کر لوٹنا چاہیں گے اور شاید یہ ملال بھی رہے کہ ہم نے زندگی کو جینے کے بہ جائے فقط گزارنے پر ترجیح دی۔
آج کی کام یابی اور خوشی کو منانے کے بہ جائے ایک اور کل پر ہم نے محمول کی اور وہ کل جب آج بن کر ہمارے سامنے آیا، تو ہم وہ حق ادا نہ کر سکیں، جو فرض بنتا تھا۔
لہٰذا خوش رہیں خوشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انداز سے منائیں، جو حاصل کیا اور جو حاصل کریں گے، سب پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کو شکر اور خوشی سے لوٹانا ہم پر فرض ہے۔
''غموں سے فرصت نہیں، خوشیاں بھی منتظر کھڑی۔۔۔ تیرے حوادث دیکھ لیں گے زندگی۔۔۔ ابھی عمر بہت ہے پڑی!''
۔۔۔
انســــان
رئیس امروہوی
٭عام لوگ ان باتوں پر ہنسا کرتے ہیں جن پر رونا چاہیے۔
٭نوع انسانی کا 'منحوس ترین دن' وہ تھا جب قلم ایجاد کیاگیا۔
٭انسان ہمیشہ اس آرزو میں مبتلا رہتا ہے کہ کوئی اسے غلام بنالے۔
٭ اگر موت کا وجود نہ ہوتا تو لوگ خودکشی کرکے مرجایا کرتے۔
٭اگر تم کوئی دیوار بنا نہیں سکتے تو کیا اس پر بھی قادر نہیں کہ کوئی دیوار گرادو۔
٭ شہرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے سر پر دو سینگ اُگالو۔