سازش بے نقاب لنک ڈسکرپشن

ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو اب سمجھداری کی طرف لے جایا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو اب سمجھداری کی طرف لے جایا جائے۔ فوٹو : فائل

سازش بے نقاب لنک ڈسکرپشن یہ جملہ اب سوشل میڈیا کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔ کسی پوسٹ میں چاہے کوئی کام کی بات ہو یا نہ ہو لوگ اسے پھیلانے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور تلاش کر لیتے ہیں۔ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کی ترویج سے پہلے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ الزام عائد تھا کہ یہ صرف اپنی "ریٹنگ" کے لیے کچھ بھی شائع یا نشر کر دیتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے جڑپکڑنے کے بعد غیر ذمہ داری کا یہ عنصر چند اداروں سے ہر فرد کے ہاتھوں منتقل ہوتا چلا گیا۔

سوشل میڈیا ایک ایسی سہولت ہے جو آہستہ آہستہ ہر کسی کو با آسانی فراہم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہی سہولت جب کچھ کاروباری ذہنوں تک پہنچی تو انہوں نے اس سے بھی کاروبار بنانے کی ٹھان لی۔ یہیں سے" سوشل میڈیا مارکیٹنگ "کی اصطلاح وجود میں آئی۔ سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے لیے ضروری تھا کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے کسی نے شاعری کا سہارا لیا، کسی نے تصاویر کا اور جس سے کچھ نہ بن پڑا انہوں نے سازشیں بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔

انسان کی طبیعت کچھ اس قسم کی ہے کہ وہ عام طور پر سنسنی خیز خبروں یا واقعات کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ چناچہ سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا طبقہ صرف اسی شغل میں مصروف ہو گیا کہ اپنے شائع کردہ مواد کو زیادہ سے زیادہ پر کشش بنایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دوڑ میں بہت سے لوگوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر چیز کا حل فیس بک شیر نکالا ہے، وہ کسی بھی خبر یا بات کی تصدیق کئے بغیر اسے شیر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد جوں جوں بڑھتی چلی گئی توں توں غیر ذمہ داری کا یہ ہاتھی بھی مست ہوتا چلا گیا۔اس نے"زبیدہ آپا " جیسی معمر اور باعزت خواتین سے لے کربزرگ شاعروں تک کو نہ بخشا۔ جس کے ہاتھ جو لگتا گیا وہ اسے پھیلاتا ہی چلا گیا۔ آج آپکو علامہ محمد اقبال کے نام سے کئی ایسے اشعار ملیں گے جو انہوں نے کبھی کہے ہی نہیں تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام سے کئی ا قول وارشادات ملیں گے جن کے ساتھ کوئی حوالہ موجود نہ ہوگا اور اگر اگر کسی سے حوالہ مانگ بھی لیا جائے تو وہ خود کو "مہان" ثابت کرتے ہوئے فیس بک کے ہی کسی پیج یا اسی قسم کی کسی دوسری ویب سائٹ کا حوالہ دے کرخود کو شیخ سعدی کا جانشینِ خاص ثابت کرڈالے گا۔

بات صرف بہیں تک اختتام پزیر نہیں ہوتی یہاں بہت سے لوگوں نے تو قرآنی آیات اور احادیث تک کو بھی نہ بخشا۔ جس کو جو تفسیر وتشریح سمجھ میں آئی اس نے وہ کی اور بڑے ہی فخر سے اسے دوسروں تک پہنچانا کارِ ثواب سمجھا۔ بہت سے پیجز ایسے بھی وجود میں آئے جن کی بنیاد خالصتَا فرقہ واریت پر رکھی گئی اور یہاں ہونے والے بے مقصد مباحثوں سے نفرت کی آگ مزید بھڑکتی جاتی ہے۔

یونہی سیاسی میدان میں بھی کب کے "مولانا " اور موجودہ حکومت باہم شیروشکر ہو چکے، لیکن سوشل میڈیا پر ان کے فین اب بھی ایک دوسرے کے گریبان پکڑے نظر آتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے جو لوگ "خان صاحب " پر بھرپور ایمان لا چکے تھے اب ایک نظریے (طالبان سے مذاکرات )کی حمایت پر انہیں گالیاں بکتے نظر آتے ہیں۔


یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی حثیت جانے بنا کسی کے بھی گریبان پر باآسانی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ لیکن اس کا اپنا محاسبہ کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے بہت سے ایسے موضوعات پر آواز اٹھائی جن پر کمرشل میڈیا کبھی بھی بولنے کی جرات نہ کرتا۔

سوشل میڈیا کے استعمال سے بہت سے مسائل حل بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے استعمال کرنے والوں کو اس بات کی تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے کہ اس کے مزید مثبت استعمال کو ممکن بنایا جاسکے۔ اور اس امر میں لیے پہلی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو لوگ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر مختلف قسم کی ویب سائٹس ،پیجز اور بلاگ وغیرہ چلاتے ہیں۔ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی بھی مواد شائع کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں۔ خاص طور پر مذہبی معلومات دوسروں تک پہنچانے سے میں انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ ہم لوگوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں کوئی بھی قرآنی آیت ،حدیثِ مبارکہ یا کسی ہستی کا قول اگر بغیر حوالے کے نظر آئے تو شائع کرنے والی کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے اس طرح کے مواد شائع کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

سوشل میڈیا کی ایک اور بڑی وجہ جلد بازی بھی ہے۔ کوئی خبر ٹی وی یا اخبارات میں شائع ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگتی ہے۔ اب حالیہ لاپتا ملائشین طیارے کی ہی مثال کو ہی لے لیجئے۔ شوشل میڈیا پر ہر روز ملائشین طیارہ کسی نئی جگہ کھڑا ہوا ملتا ہے۔ پوری دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود اس کا سراغ نہ لگا سکی، لیکن سوشل میڈیا کے صحافی آج اسے "کابل" میں کھڑا دیکھ رہے ہیں۔ اسی قسم کی اور بہت سی خبریں ہیں جو مضحکہ خیز حد تک عجیب ہیں۔ بہت سی خبریں بعد میں غلط بھی ثابت ہوتی ہیں اور اس خبر سے متعلق افراد کو بلاوجہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو اب سمجھداری کی طرف لے جایا جائے ۔ورنہ یہ ٹیکنالوجی کا ایک ایسا سانپ ہے جو اپنے اندر بے اعتباری ، بے یقینی اور نفرت کا زہر لیے ہوئے پوری دنیا کو برباد کردے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story