نوجوانوں کے ہاتھوں ہے قوم کی تقدیر

نوجوان جوملک کے معمار ہیں وہ اپنی ڈگریاں لے کرجگہ جگہ انٹرویواورٹیسٹ دیتے پھرتے ہیں۔

نوجوان جوملک کے معمار ہیں وہ اپنی ڈگریاں لے کرجگہ جگہ انٹرویواورٹیسٹ دیتے پھرتے ہیں۔ گرافکس: منظرالہٰی

KARACHI:
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفردہے ملت کے مقدرکاستارہ

کہا جاتا ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں نوجوانوں ترقی اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ان کے پاس ترقی کا کوئی سیدھا اور صاف شفاف راستہ موجود ہو۔پاکستان کے نوجوانوں کا اس وقت سب سے بڑامسئلہ بیروزگاری ہے۔ جو عرصہ دراز سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔روزبروزبڑھتی ہوئی کرپشن نے ملک میں ناانصافی کوپروان چڑھادیاہے جس کی وجہ ہرادارے میں میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔

نوجوان جوملک کے معمار ہیں وہ اپنی ڈگریاں لے کرجگہ جگہ انٹرویواورٹیسٹ دیتے پھرتے ہیں۔ بلاشبہ وہ اچھی نوکریوں کے اہل ہوتے ہیں کیونکہ جب کوئی بھی نوجوان سیکنڈری بورڈیایونیورسٹی سے میٹرک ،ایف اے ، بی اے یاایم اے کی ڈگری حاصل کرتاہے تووہ بیشمارٹیسٹ دے کر اورانتھک محنت کے بعدحاصل کرتاہے۔لیکن اس کے باوجود اس ملک میں نوکریاں صرف اُنہی نوجوانوں کوملتی ہیں جن کی جیبیں گرم ہوں۔ یااُن کے پاس کوئی بھاری بھرکم سفارش ہو پھر چاہے وہ اس نوکری کے اہل ہویانہ ہوں ان کو باآسانی نوکری مل جاتی ہے۔اور اسی وجہ سے ملک کے تمام ادارے تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔

وہ افراد جوسیاستدانوں اوراعلیٰ عہدوں پرفائزافرادکی چاپلوسی کرتے رہتے ہیں اوران کے حق میں نعرے لگاتے رہتے ہیں وہ اپنی اس چاپلوسی کافائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ان سب عناصرکے وجہ سے بہت سے نوجوان طلبہ وطالبات کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ اور طلبا تعلیم حاصل کرنے کی بجائے مزدوری کرنے یاکوئی دوسراہنر سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کاسیدھااثرملک کی شرح خواندگی پرپڑتاہے جوگزشتہ دہائیوں سے بہت کم ہوتی جارہی ہے۔ جب ناانصافی ملک میں راج کررہی ہواورحقداراپناحق حاصل کرنے کیلئے پیچھے رہ جائیں تووہ ملک ترقی کی جانب کبھی گامزن نہیں ہوسکتا، جبکہ ان مسائل کی وجہ سے ملک میں رہنے والوں کی ملک سے محبت اورحب الوطنی میں بھی کمی آجاتی ہے اور نوجوان طبقہ دہشتگردی وچوری جیسی سرگرمیوں میں مبتلاہو کہ ملک کو فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچاتے ہیں۔


ٓتقریباََ5کروڑکے قریب پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں جن میں سے بے شمارافرادپڑھے لکھے ہونے کے باوجود وہاں پرمختلف مزدوریاں کررہے ہیں۔ جب اپنے ہی ملک میں اُن کوروزگارنہیں ملے گا تومجبوراََاُن کودوسرے ممالک میں دھکے کھانے کیلئے جاناپڑتاہے، کچھ نوجوان ایسے ہیں جوکہ پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سڑکوں کی خاک چھانتے رہتے تھے اور کوئی بھی ادارہ بغیر کسی شفارش کے ان کی قابلیت سے فیضیاب ہونے کو تیار نہ تھا۔ جبکہ بیرون ملک یہی نوجوان اعلیٰ عہدوںپرفائز اپنے اداروں کو فائدہ پہچارہے ہیں۔

دوسری جانب جب ملک کی باگ ڈور جعلی ڈگری والوں کے ہاتھوں میں آجائے توپھرتباہی وبربادی کے سواکچھ حاصل نہیں بچتا۔ وہ لوگ جن کوتعلیم ایک ٹماٹرکی طرح لگتی ہوجس کوکسی بھی بازارسے 100روپے کلوکے حساب سے خریدلیاجائے ان کوتعلیم یافتہ نوجوانوں کی محنت کااحساس کیسے ہوسکتاہے۔ جوخودپیسوں سے ڈگریاں خریدتے ہوں وہ بھرتیاں بھی ایک منافع بخش کاروبارسمجھ کرتے ہیں۔

جب بھی کسی ادارے میں نئی بھرتیاں شروع ہوتی ہیں تواُن کے ساتھ ایک بڑاسالفظ "میرٹ"بھی لگایاجاتاہے۔ جوصرف ایڈورٹائزنگ یاتقریروں میں استعمال کرنے کیلئے ہوتاہے۔ ہمارے ملک میں قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے ، یہی قابل اگر میرٹ کی بنیاد پر ملک کے نظام کا حصہ بن جائے تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان ترقی کی نئی راہوں سے ہمکنار ہوگا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں نوجوان نسل کے حوصلوں سے ہی انقلاب برپا ہوسکتا ہے اوراداروں کواسی ایک طریقے سے ہی بچایاجاسکتاہے بشرطیکہ پہلے نوجوانوں کواُن کے حقوق فراہم کئے جائیں اورآگے بڑھنے کے مواقع بھی دئیے جائیں تاکہ نوجوان نسل اپنی قابلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر دنیا میں ترقی کی ایک نئی مثال رقم کردے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story