پولیس نے پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی ارسلان تاج کی گرفتاری ظاہر کردی

گرفتاری سائٹ اے تھانے سے ظاہر کی جبکہ ارسلان تاج گھمن کو ڈی سی آفس میں توڑ پھوڑ کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا

ارسلان تاج کے گھر3 پولیس کی گاڑیاں آئیں، سادہ لباس کپڑوں میں پولیس اہلکارگھر میں داخل ہوئے اورتوڑ پھوڑبھی کی، ترجمان۔ فوٹو: فائل

تحریک انصاف کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ارسلان تاج گھمن کی گرفتاری سائٹ اے تھانے سے ظاہر کردی گئی۔

ذرائع کے مطابق ارسلان تاج گھمن کو ڈی سی آفس میں توڑ پھوڑ کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا جس میں تحریک انصاف کے دیگر رہنما اور کارکنان بھی نامزد ہیں۔

خیال رہے گلستان جوہر بلاک 14 میں علی الصبح پولیس کی وردیوں میں ملبوس اہلکاروں نے تحریک انصاف کے رہنما ارسلان تاج گھمن کو اُٹھا کر ساتھ لے گئے تھے۔ ارسلان تاج گھمن کے گھر سے حاصل ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی ارسلان تاج گھمن کے گھر کے باہر موجود ہے جس میں سے پولیس کی وردیوں میں ملبوس اہلکار اُترتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں ارسلان تاج گھمن کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھے اور روانہ ہوگئے۔

ارسلان تاج گھمن کو گھر سے حراست میں لیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی بڑی تعداد ارسلان تاج کے گھر پہنچ گئی، کراچی پولیس کی جانب سے ارسلان تاج کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔


بعدازاں تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان ارسلان تاج کی بازیابی کیلئے موچکو اور پاک کالونی تھانے پہنچے جہاں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جس کے بعد پولیس نے ارسلان تاج گھمن کی گرفتاری ایک مقدمے میں سائٹ اے تھانے سے ظاہر کردی ہے۔

دوسری جانب گلستان جوہر بلاک 19 میں بھی پولیس موبائل اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس افراد نے پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی راجہ اظہر کے سسرال میں مبینہ طور پر چھاپہ مارا ہے جس کی بھی فی الحال کوئی تصدیق نہیں کی جاسکی ہے

سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی سامنے آچکی ہیں جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس کی دو سے تین موبائلز موقع پر موجود ہیں تاہم پولیس موبائلز کس تھانے کی ہیں اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے ۔

اس ضمن میں ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ارسلان تاج کے گھر تین پولیس کی گاڑیاں آئیں جس میں سادہ لباس کپڑوں میں پولیس اہلکار تھے وہ گھر میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ بھی کی۔

ترجمان پاکستان تحریک انصاف نے ارسلان تاج کی گرفتاری کی مذمت کی ہے تاہم سندھ حکومت اور پولیس کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
Load Next Story