چین کی کامیاب حکمت عملی
چین نے علاقائی اور عالمی امور میں اقتصادیات اور تجارت کو ہمیشہ اولیت دی ہے
ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، میڈیا کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
یہ پیش رفت خاصی خوش آیند ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان خاصی عرصے سے کشیدگی چلی آ رہی تھی جس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔ سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ مذاکرات ہوئے تھے۔ ان میں چین بھی شریک تھا۔
مذاکرات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلٰی قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ فعال کریں گے، معاہدے میں ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت بھی شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان 'اچھے ہمسایہ تعلقات' کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک اجلاس کریں گے۔
عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے انتہائی مثبت رول ادا کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ برسوں سے بدامنی اور باہمی کشمکش کا شکار چلا آ رہا ہے۔ روایتی طور پر اس خطے کے تمام ممالک امریکا اور یورپ کے اتحادی چلے آ رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا اور مغربی یورپ نے اس خطے میں قیامِ امن کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
اسرائیل کا معاملہ ایک طرف رکھیں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو تنازعات کھڑے ہوئے، امریکا اور مغربی یورپ انھیں ختم کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ایران کے امریکا کے ساتھ بھی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ اسی طرح ایرانی قیادت اور اسرائیلی قیادت کے درمیان بھی معاملات انتہائی خراب ہیں۔ مغربی یورپ اور ایران کے درمیان بھی بہت سے ایشوز پر شدید اختلافات ہیں۔
ادھر عراق اور یمن کے تنازعات کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی اور معاملات اس انتہا تک پہنچ گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔ یہ صورت حال مشرق وسطیٰ کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئی۔ یمن اور سعودی عرب ایک جنگ میں الجھ گئے جب کہ عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے خدشات اور تحفظات میں بھی اضافہ ہو گیا۔
ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں طاقت ور کھلاڑی ہیں۔ اس لیے اس خطے میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو ان دونوں طاقتوں کو اکٹھے بٹھا سکے اور کسی قابل قبول حل پر لے آئے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امریکا اور مغربی یورپ بڑی طاقتیں ہیں لیکن وہ چونکہ اس خطے میں ایک فریق کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اس لیے ایرانی قیادت ان کی ثالثی کو قبول نہیں کر سکتی تھیں۔
روس چونکہ شام کے تنازعے میں موجود ہے، اس لیے سعودی عرب کے لیے روس کی ثالثی کو تسلیم کرنا مشکل تھا۔ دوسرا وہ یوکرائن کی جنگ میں اس بری طرح الجھ چکا ہے کہ وہ کوئی میجر رول ادا نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے میں چین ایک ایسی طاقت کے طور پر سامنے آیا جو مشرق وسطیٰ میں کسی تنازعے میں فریق نہیں ہے۔
ایران بھی چینی پالیسی کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی چین ایران کے بارے میں امریکا کا ہم نوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب بھی چین کی عالمی پالیسی کے خلاف نہیں ہے۔ چین، عراق، یمن اور شام میں بھی کسی فریق کا حصہ نہیں ہے۔ چین کی اسی پوزیشن نے دونوں ملکوں کو اکٹھا بیٹھنے پر تیار کیا۔ یوں ایک بڑا بریک تھرو سامنے آ گیا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین مذاکرات کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ 2001 کے سیکیورٹی تعاون کے معاہدے اور معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے 1998 کے معاہدے کو بھی فعال کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں دورہ سعودی عرب نے چینی صدر کو مشرق وسطیٰ بھر کے رہنماؤں کے ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
گزشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور عمان اور عراق کی جانب سے مذاکرات کے گزشتہ دور کی میزبانی کی تعریف کی۔ سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2016 سے تعلقات منقطع ہیں۔
امریکا، عراق اور عمان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے،عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی، ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کے احترام اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے روڈ میپ ترتیب دے دیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ سطح کے حکام کے درمیان بغداد میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جو 2021 میں عراق میں انتخابات کے دوران رک گئی تھیں۔تاہم دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو جاری رہی اور اب چین میں ہونے والی ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ امریکا نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے حالیہ بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے جمعہ کو کہا کہ امریکا نے دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے براہ راست بات چیت کی حوصلہ افزائی کی ہے، اہلکار نے ایک سعودی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اعلان کیا گیا روڈ میپ بالکل اسی طرح دکھائی دیتا ہے جس پر 2021 اور 2022 میں بغداد اور مسقط میں ہونے والے مذاکرات کے متعدد ادوارکے دوران سعودیوں اور ایرانیوں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت خطے اور اس سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔ ہم اس تاریخی معاہدے کو مربوط کرنے میں چین کی دور اندیش قیادت کے کردار کو سراہتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس مثبت پیش رفت پر مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت کو سراہتے ہیں۔
دونوں برادر ممالک کے درمیان خلیج کو پر کرنے کے لیے مسلسل تعاون اور ہم آہنگی کی کوششوں کی تاریخ کے ساتھ، پاکستان مشرق وسطیٰ اور خطے میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ہمیں امید ہے کہ یہ مثبت قدم علاقائی تعاون اور ہم آہنگی کے لیے ایک سانچے کو متعین کرے گا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی بناء پر عالمی اقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنا پڑا ہے۔
چین نے دونوں ملکوں کو قریب لانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے عالمی امور میں چین کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین اور برطانیہ، مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کو ختم تو کرانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ سارے فریق انھیں ثالث تسلیم کر لیں۔ چین نے اس معاملے میں ثابت کیا ہے کہ عالمی امور میں فوجی حکمت عملی نقصان کا باعث ہے جب کہ معاشی اور تجارتی حکمت عملی زیادہ اثر رکھتی ہے۔
چین نے علاقائی اور عالمی امور میں اقتصادیات اور تجارت کو ہمیشہ اولیت دی ہے۔ جب کہ تنازعات کے فوجی حل کی طرف کبھی نہیں گیا۔ آج اس کی یہ پالیسی کامیاب جا رہی ہے، چین کے بھارت کے ساتھ بھی شدید تنازعات ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور دونوں ملک باہمی تجارت کو زیادہ مؤثر اور متحرک بنانے کے لیے انفرااسٹرکچر میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
یہ پیش رفت خاصی خوش آیند ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان خاصی عرصے سے کشیدگی چلی آ رہی تھی جس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔ سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ مذاکرات ہوئے تھے۔ ان میں چین بھی شریک تھا۔
مذاکرات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلٰی قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ معاہدے کی رو سے دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ فعال کریں گے، معاہدے میں ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت بھی شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان 'اچھے ہمسایہ تعلقات' کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک اجلاس کریں گے۔
عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے انتہائی مثبت رول ادا کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ برسوں سے بدامنی اور باہمی کشمکش کا شکار چلا آ رہا ہے۔ روایتی طور پر اس خطے کے تمام ممالک امریکا اور یورپ کے اتحادی چلے آ رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا اور مغربی یورپ نے اس خطے میں قیامِ امن کے لیے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
اسرائیل کا معاملہ ایک طرف رکھیں، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو تنازعات کھڑے ہوئے، امریکا اور مغربی یورپ انھیں ختم کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ایران کے امریکا کے ساتھ بھی تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ اسی طرح ایرانی قیادت اور اسرائیلی قیادت کے درمیان بھی معاملات انتہائی خراب ہیں۔ مغربی یورپ اور ایران کے درمیان بھی بہت سے ایشوز پر شدید اختلافات ہیں۔
ادھر عراق اور یمن کے تنازعات کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہو گئی اور معاملات اس انتہا تک پہنچ گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔ یہ صورت حال مشرق وسطیٰ کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئی۔ یمن اور سعودی عرب ایک جنگ میں الجھ گئے جب کہ عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے خدشات اور تحفظات میں بھی اضافہ ہو گیا۔
ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں طاقت ور کھلاڑی ہیں۔ اس لیے اس خطے میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو ان دونوں طاقتوں کو اکٹھے بٹھا سکے اور کسی قابل قبول حل پر لے آئے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امریکا اور مغربی یورپ بڑی طاقتیں ہیں لیکن وہ چونکہ اس خطے میں ایک فریق کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اس لیے ایرانی قیادت ان کی ثالثی کو قبول نہیں کر سکتی تھیں۔
روس چونکہ شام کے تنازعے میں موجود ہے، اس لیے سعودی عرب کے لیے روس کی ثالثی کو تسلیم کرنا مشکل تھا۔ دوسرا وہ یوکرائن کی جنگ میں اس بری طرح الجھ چکا ہے کہ وہ کوئی میجر رول ادا نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے میں چین ایک ایسی طاقت کے طور پر سامنے آیا جو مشرق وسطیٰ میں کسی تنازعے میں فریق نہیں ہے۔
ایران بھی چینی پالیسی کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی چین ایران کے بارے میں امریکا کا ہم نوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب بھی چین کی عالمی پالیسی کے خلاف نہیں ہے۔ چین، عراق، یمن اور شام میں بھی کسی فریق کا حصہ نہیں ہے۔ چین کی اسی پوزیشن نے دونوں ملکوں کو اکٹھا بیٹھنے پر تیار کیا۔ یوں ایک بڑا بریک تھرو سامنے آ گیا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین مذاکرات کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ 2001 کے سیکیورٹی تعاون کے معاہدے اور معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے 1998 کے معاہدے کو بھی فعال کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں دورہ سعودی عرب نے چینی صدر کو مشرق وسطیٰ بھر کے رہنماؤں کے ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
گزشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور عمان اور عراق کی جانب سے مذاکرات کے گزشتہ دور کی میزبانی کی تعریف کی۔ سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2016 سے تعلقات منقطع ہیں۔
امریکا، عراق اور عمان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے،عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی، ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کے احترام اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے روڈ میپ ترتیب دے دیا گیا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ سطح کے حکام کے درمیان بغداد میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں جو 2021 میں عراق میں انتخابات کے دوران رک گئی تھیں۔تاہم دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو جاری رہی اور اب چین میں ہونے والی ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ امریکا نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے حالیہ بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے جمعہ کو کہا کہ امریکا نے دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے براہ راست بات چیت کی حوصلہ افزائی کی ہے، اہلکار نے ایک سعودی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اعلان کیا گیا روڈ میپ بالکل اسی طرح دکھائی دیتا ہے جس پر 2021 اور 2022 میں بغداد اور مسقط میں ہونے والے مذاکرات کے متعدد ادوارکے دوران سعودیوں اور ایرانیوں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت خطے اور اس سے باہر امن و استحکام میں معاون ثابت ہوگی۔ ہم اس تاریخی معاہدے کو مربوط کرنے میں چین کی دور اندیش قیادت کے کردار کو سراہتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس مثبت پیش رفت پر مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت کو سراہتے ہیں۔
دونوں برادر ممالک کے درمیان خلیج کو پر کرنے کے لیے مسلسل تعاون اور ہم آہنگی کی کوششوں کی تاریخ کے ساتھ، پاکستان مشرق وسطیٰ اور خطے میں تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ہمیں امید ہے کہ یہ مثبت قدم علاقائی تعاون اور ہم آہنگی کے لیے ایک سانچے کو متعین کرے گا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی بناء پر عالمی اقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنا پڑا ہے۔
چین نے دونوں ملکوں کو قریب لانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے عالمی امور میں چین کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ امریکا اور یورپی یونین اور برطانیہ، مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کو ختم تو کرانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ سارے فریق انھیں ثالث تسلیم کر لیں۔ چین نے اس معاملے میں ثابت کیا ہے کہ عالمی امور میں فوجی حکمت عملی نقصان کا باعث ہے جب کہ معاشی اور تجارتی حکمت عملی زیادہ اثر رکھتی ہے۔
چین نے علاقائی اور عالمی امور میں اقتصادیات اور تجارت کو ہمیشہ اولیت دی ہے۔ جب کہ تنازعات کے فوجی حل کی طرف کبھی نہیں گیا۔ آج اس کی یہ پالیسی کامیاب جا رہی ہے، چین کے بھارت کے ساتھ بھی شدید تنازعات ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور دونوں ملک باہمی تجارت کو زیادہ مؤثر اور متحرک بنانے کے لیے انفرااسٹرکچر میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔