وہ ایک درد جو آنکھوں میں ڈھل گیا ہے میاں
ذرا سوچیے کہ جانوروں میں جب حسن سلوکِ کامظاہرہ ہو سکتا ہے
اُردو کو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ اسے ایک تہذیب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ کیا یہ اس زبان کا حسن نہیں ہے کہ اگر ہم کسی کے گھر جاتے ہیں تو اِسے جناب ِ والاکے دولت خانے پر حاضری کہا جاتا ہے اور اگر اس کے برعکس کوئی ہمارے ہاں آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت نے غریب خانے کو رونق بخشی۔
2005کا واقعہ ہے کہ ہم کراچی سے ممبئی روانگی کے لیے ایئرپورٹ کے لائونج میں تھے کہ کارندوں سے ایک خاتون کسی مسئلے پراُلجھی ہوئی اور خاصی تیز آواز سے بول رہی تھیں۔ اسی اثنا میں کسی افسر کا اُدھر سے گزر ہوا تو انھوں نے اُس خاتون سے کہا کہ ''بی بی! آپ نرمی سے اپنی بات کہیں گی تب بھی ہم آپ کی شکایت سنیں گے، آپ کیوں اس طرح اپنے بلڈ پریشر کو متاثر کر رہی ہیں۔ دیکھیے آپ کا چہرہ سُرخ ہوا جاتا ہے۔ ارے بھائی بی بی کو ذرا پانی تو پیش کیجیے۔''
مختصر یہ کہ مذکورہ افسر کی جانب سے شائستگی اور نرمی کے ساتھ لفظ...بی بی...کی تکرارنے مذکورہ خاتون کا لہجہ ہی نہیں بدلا بلکہ کچھ دیر بعد وہ خاموش ہوگئیں۔
ہم بات بات میں اپنے مذہب کی تعریف اور اس کے محاسن بیان کرتے ہیں مگر غور کریں تو اکثر عمل میں ہمارے ہاں نہ مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی شائستگی۔ البتہ دوسروں سے ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نرمی اور شائستگی کا سلوک کرے۔ ظاہر ہے مد مقابل جو شخص ہے وہ بھی ہمارے اسی معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ہمارا لہجہ ہی نرم نہیں ہوگا تو وہ کیوں کر شائستگی سے پیش آئے گا۔ یہاں مولانا انجم فوقی بدایونی کاایک شعر بھی یاد آتا ہے۔ حضرت کہہ گئے ہیں:
غیر کا لہجہ نرم نہ ہوگا
جب تک اپنا زور نہ ٹوٹے
ایثار اور درگزر کی جتنی تعلیم اسلام میں ہے شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہو۔ بچپن میں پڑھا ہوا ایک سبق آموختہ چاہتا ہے کہ کسی چھوٹے سے پُل پر جس کی چوڑائی بہت ہی کم تھی۔ آمنے سامنے سے بیچوں بیچ دو بکریاں(پُل پر) پہنچیں۔ چند ساعتیں گزری ہونگی کہ ان میں سے ایک بکری بغیر کسی مِیں مِیں کے بیٹھ گئی اور دوسری بکری چپ چاپ اسے کراس کر کے پل عبور کر چکی تھی، ظاہر ہے کہ جوبکری بیٹھی تھی وہ اٹھی اور خاموشی سے اس نے بھی اپنی راہ لی۔ اس واقعے میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایثار کا جو سبق پوشیدہ ہے وہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔
ذرا سوچیے کہ جانوروں میں جب حسن سلوکِ کامظاہرہ ہو سکتا ہے تو ابن ِ آدم جسے اشرف المخلوق کہا گیا ہے اس سے کس کس طرح کے حسن ِ سلوک کی توقع کی جانی چاہیے۔
بات شروع ہوئی تھی اُردوزبان اور حسن ِ بیان سے۔ اس زبان ِ اُردو کی چاشنی کا بھی ہم تذکرہ کرتے کبھی نہیں تھکتے مگر جب اس چاشنی کا عملاً مظاہرے کا موقع آتا ہے تو اکثر ہمارے ہاں ''چاشنی'' کو تلخی میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔
ٓاُردو تہذیب و معاشرت کا ایک نمونہ جو، اب ہمارے یہاں نایاب ہو تا جارہا ہے۔ یہاں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ہمارے جانی دوست اور ممبئی کے ادبی حلقوں میں شعرو ادب کے ساتھ اپنی شائستگی کے لیے امتیازی شناخت رکھنے والے شاہد ندیم کی آنکھ کا موتیا کے سبب آپریشن ہوا ہے چونکہ ہمارے ان سے ذاتی تعلقات بھی ہیں سو ہم نے فوری طور پر فون کے ذریعے ان کی عیادت کی۔ یہا ں ایک وضاحت غیر ضروری نہیں کہ آنکھ کے اس عارضے جسے عام طور پر موتیا کہا جاتا ہے اسی (موتیا) نام کا ایک پھول بھی ہوتا ہے اور یوپی کے بعض اضلاع میں اس عارضے کو پھول بھی کہتے ہیں مثلاً ''خمار صاحب کی آنکھ میں ''پھول'' آگیا ہے جس کے آپریشن کے لیے وہ پریشان ہیں۔''
ہم نے شاہد ندیم سے آپریشن کی تفصیل جاننے کے بعد ان سے کہا''برادر! کس کو دیکھ لیا تھا جس کے جرم میں آپریشن کی سزا ملی، برادر! اطہر شاہ جیدی کا ایک شعر بھی سن لو۔
ہم نے پھولوں کا خواب دیکھا تھا
آنکھ میں موتیا اُتر آیا
شعر سن کر شاہد ندیم پھڑک اٹھے اور ایک ساعت کی تاخیر کے بغیر بولے کہ ندیم! جسے تم نے جرم کہا ہے وہ جرم نہیں ہے بلکہ بقول جاں نثار اختر۔:
تمام عمر کی نظارگی کا حاصل ہے
وہ ایک درد جو آنکھوں میں ڈھل گیا ہے میاں
یہ حسنِ ذوق یہ برجستگی اور شائستگی ہم اُردو والوں کی میراث تھی میراث...
اب اس کے وارث اور اس ورثے کے مظاہر شاید و باید ہی نظر آتے ہیں۔ کیا یہ اُردو پر بُرا وقت نہیں ہے۔ ہم یہاں عوام کی بات نہیں کرتے۔ وہ تو جدھر ہانک دِیے جائیں اُدھر چل پڑتے ہیں۔ بھارت میں ہمارے دَور کے اکثرمدرسوں، صحافیوں، شاعروں،ادیبوں کو کیا ہوگیا ہے وہ زبان کے حسن اور اس کی نزاکتوں کو کیوں بھول رہے ہیں۔ہاں ایک بات اور یاد آئی کہ زبان میں اضافہ اور بات ہے اور اپنی زبان کے الفاظ کو نظر انداز کرنا دوسری بات بلکہ اپنی زبان کے ساتھ... زیادتی... سے کم نہیں۔
کسی شاعر کے ایک اچھے شعر پر یہ کالم تمام ہوتا ہے جس میں ہم جیسے اُردو والوں کا درد بھی مخفی ہے۔
مری آنکھوں میں کائی جم رہی ہے
کوئی آنسو کہیں ٹھہرا ہوا ہے