زلزلے سیلاب کیوں نہیں رکتے
اللہ تعالیٰ نے بھی قانون فطرت دیا ہے اور کائنات کی ہر شے کو قیامت تک کام کرنے کا حکم دیا ہے
کلاس میں ایک طالب علم نے سوال کیا کہ'' سیلاب اور زلزلوں میں معصوم بچے بھی درد ناک موت کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ خدا کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا؟''
راقم نے بطور استاد جواب دیا کہ کیونکہ یہاں موجود تقریباً تمام لوگوں کا ایمان سائنس و ٹیکنالوجی پر ہے اور اس کو ہم صد فی صد درست سمجھتے ہیں تو آئیے اس تناظر میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
سائنس دانوں نے صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک بے شمار ریسرچ دنیا کے سامنے پیش کی ہیں اور ان ہی کی بنیادوں پر آج انسان چاند سے بھی آگے پہنچ چکا ہے۔ ان ہی کی تحقیق و ایجادات کی بدولت انسان صراحی کے ٹھنڈے پانی سے نکل کر فریج کے یخ پانی اور سخت گرم موسم میں ٹھنڈے کمرے کی لذت سے آشنا ہوا۔ تاہم ستر کی دہائی میں سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا کہ فریج اور اے سی کے استعمال سے انسان کو سہولت تو اچھی میسر آرہی ہے تاہم ان سے نکلنے والی گیسز اور درجہ حرارت ماحول کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے.
اسی طرح انسان کو پر آسائش زندگی فراہم کرنے والی اشیاء جب مشینوں پر بنتی ہیں تو مشینوں کے چلنے سے بھی ماحولیات کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور زمین کے اوپر تحفظ کے لیے قائم اوزون کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس میں سوراخ ہوجانے کے باعث وہ زہریلے مادے جو پہلے فلٹر ہو جاتے تھے اب براہ راست زمین پر پہنچ رہے ہیں جس کے باعث مزید مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
یہ معاملہ اس قدر خطرناک تھا کہ انیس سو ستاسی میں اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک نے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ایک طرف صنعتی سرگرمیوں کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف درختوں اور جنگلات کاٹ کاٹ کر ختم کیے جا رہے تھے۔ جئیر ڈائمنڈ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس عمل سے زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اور بارشوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
یہ مسائل اس قدر بڑھتے گئے کہ سن دوہزار چودہ میں دنیا بھر کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے تحت '' کلائنمنٹ چینج 2014''' کی رپورٹ شایع کی جو دنیا بھر کے ممالک کے نامور سائنسدانوں نے تیار کی تھی۔اس رپورٹ میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ جدید ترقی اورصنعتی سرگرمیوں کے باعث ماحول کو سخت ترین نقصان پہنچ رہا ہے۔ جدید صنعتی ترقی کے باعث زمین کا درجہ حرارت بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو بہت بڑی تباہی آئے گی۔
دنیا بھر میں خوراک کی فصلیں کم ہو جائیں گی، چاول اور گندم وغیرہ جیسی اہم فصلوں کی پیداوار کم ہو جائے گی، موسم میں تبدیلیاں آئیں گی، بارشوں کا توازن بگڑ جائے گا، قحط اور خشک سالی آجائے گی، طوفانی بارشیں ہونگی، ہوائوں اور سمندری طوفان کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، گلیشئر پگل کر سمندر میں شامل ہو جائیں گے، سطح سمندر بلند ہو جائے گی، زلزلے اور سیلاب بڑھ جائیں گے، وغیرہ۔
سائنسدانوں کی پیش گوئیاں دن بہ دن درست ثابت ہوتی رہیں مگر کسی نے ان کی دی گئی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سائنسدانوں نے خبردار کر دیا ان کی تحقیق نے بھی خطرات کی گھنٹی بجا دی تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟
اس لیے عمل نہیں ہوا کہ اس بڑھتی آلودگی اور درجہ حرارت کی وجہ جدید مشینریز اور صنعتوں کا چلنا تھا اور یہ سب دن رات کئی کئی شفٹوں میں چل رہی تھی جن میں مال تیار ہو رہا تھا اب اگر ان مشینوں کوکچھ وقفے کے لیے بند کر دیا جاتا مثلاً ایک کارخانہ جو روزانہ آٹھ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں چل رہا ہے اس کو ایک شفٹ کے لیے بند کر دیا جاتا تو اس کی پیداوار یعنی مال تیار کرنے کی تعداد کم ہو جاتی یوں اس کے مالک کی آمدن میں کمی آجاتی۔ ظاہر ہے آمدن میں کمی کسی کو منظور نہیں چنانچہ پوری دنیا میں یہ صنعتیں دن رات چل رہی ہیں اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
اب ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ان صنعتوں میں سرمایہ لگانے والے اپنے کارخانوں کو کچھ دیر کے لیے بند کرنے کو تیار نہیں تو پھر کوئی دوسرا طریقہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سے ہمارے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جاسکے؟
جی ہاں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی میں سادگی کو اپنائیں کیونکہ سادگی اختیار کرنے سے اشیاء کم استعمال ہونگی اور بازار سے خریداری کم ہوگی، جب خریداری کم ہوگی تو اشیاء تیاری بھی کم ہوگی یعنی جب ڈیمانڈ کم ہوگی تو کار خانے اور صنعتیں بھی کم چلیں گی اور یہی بات سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ صنعتی سرگرمیاں کم کریں۔
مگر اس طرف بھی بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح صنعت کار اور کارخانے والا بجائے کم کرنے کے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مشینیں چلانا چاہتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے، اس کو روکنے کی کوشش کی جائے، بالکل ایسے ہی لوگ بھی ماحولیات کے مسائل کی فکر کرنے کے بجائے اپنی ظاہری معاملات پر توجہ دیتے ہیں، مثلاًپہننے کے لیے بیشک گھر میں اچھے جوڑے موجود ہوں لیکن شادی بیاہ وغیرہ جیسی تقریبات کے لیے مزید کئی جوڑے بناتے ہیں۔
اسی طرح جوتے کے کئی جوڑے بھی خریدتے ہیں یہ نہیں سوچتے اگر دنیا کے ایک ارب انسان ایک جوتا جوڑی خریدتے ہیں تو کارخانوں میں ایک ارب جوڑی تیار کرنے کے لیے مشینیں چلیں گی اور اگر وہ دو جوڑی خریدتے ہیں تو ان کی تیاری کے لیے مشینیں د گنا زیادہ چلیں گی جس سے ظاہر ہے کہ آلودگی بھی کئی گنا زیادہ بڑھے گی۔ سائنسدانوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ صرف ایک ای میل کرنے سے اتنی کاربن پیدا ہوتی ہے جتنی کہ کسی کیتلی میں چائے بنانے سے۔
غور کریں ہم سب صبح و شام کس قدر اشیاء استعمال کرتے ہیں، بلاوجہ گھروں اور گاڑیوں میں اے سی استعمال کرتے ہیں، کتنی ہی اشیاء کو استعمال کرتے ہیں جب کہ اس کی ہمیں کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ بس یہی لفظ '' استعمال'' جس کو انگریزی میں ''کنزپشن''کہتے ہیں، سائنسدانوں کی نظر میں اس دنیا کی تباہی کا باعث بن رہا ہے اور اب تو سائنسدان یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم نے تو بہت پہلے وارننگ دے دی تھی، کسی نے عمل نہیں کیا، اب تو صرف نقصان بھگتنا ہے کیونکہ اب حالات قابو میں آنے والے نہیں۔
سائنسدانوں کی باتیں قطعی طور پر درست ثابت ہوئیں، پاکستان میں بھی زلزلے اور سیلاب آئے اور ترقی یافتہ ممالک نے تسلیم بھی کیا کہ ان کی جدید ترقی اورصنعتی سرگرمیوں کے باعث ہی پاکستان میں یہ سب آفتیں آئیں چنانچہ ان ممالک نے حالیہ سیلاب کی تباہی پر پاکستان کو امداد بھی دی۔
اب آئیے ذرا غور کریں کہ یہ زلزلے اور سیلاب وغیرہ کیا ہمارے اپنے ہاتھوں نہیں آئے؟ کشش ثقل کا قانون بھی کہتا ہے کہ ہر شئے زمین کی طرف یعنی نیچے آتی ہے، ہم نے بڑی بڑی عمارتیں بنا ڈالیں اور بقول سائنسدانوں کے زلزلوں کا اہتمام بھی کر لیا تو کیا یہ عمارتیں زمین پر نہیں گرینگی؟ اور اگر لوگ ان میں موجود ہوئے تو وہ ان کے ملبے تلے نہیں دبیں گے؟ ہم نے پانی کے قدرتی راستوں کو بند کردیا تو کیا جب پانی آئے گا تو وہ اپنے راستے سے نہیں گذرے گا؟ یہ سارے قانون سائنسدانوں نے دنیا کو بتائے ہیں۔ گویا یہ تباہی ہمارے ہاتھوں ہی لائی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی قانون فطرت دیا ہے اور کائنات کی ہر شے کو قیامت تک کام کرنے کا حکم دیا ہے اس کے حکم کے مطابق ہی اس دنیا میں کشش ثقل بھی ہے اب اگر کوئی بلند عمارت سے چھلانگ لگا دے یا کسی کشتی سے سمندر میں کود پڑے تو کیا اللہ کا قانون فطرت رک جائے گا؟ بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون تو تا قیامت چلتا رہے گا البتہ معجزات کا الگ معاملہ ہے اور معجزہ نہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے نہ روز روز۔
راقم نے بطور استاد جواب دیا کہ کیونکہ یہاں موجود تقریباً تمام لوگوں کا ایمان سائنس و ٹیکنالوجی پر ہے اور اس کو ہم صد فی صد درست سمجھتے ہیں تو آئیے اس تناظر میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
سائنس دانوں نے صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک بے شمار ریسرچ دنیا کے سامنے پیش کی ہیں اور ان ہی کی بنیادوں پر آج انسان چاند سے بھی آگے پہنچ چکا ہے۔ ان ہی کی تحقیق و ایجادات کی بدولت انسان صراحی کے ٹھنڈے پانی سے نکل کر فریج کے یخ پانی اور سخت گرم موسم میں ٹھنڈے کمرے کی لذت سے آشنا ہوا۔ تاہم ستر کی دہائی میں سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا کہ فریج اور اے سی کے استعمال سے انسان کو سہولت تو اچھی میسر آرہی ہے تاہم ان سے نکلنے والی گیسز اور درجہ حرارت ماحول کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے.
اسی طرح انسان کو پر آسائش زندگی فراہم کرنے والی اشیاء جب مشینوں پر بنتی ہیں تو مشینوں کے چلنے سے بھی ماحولیات کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور زمین کے اوپر تحفظ کے لیے قائم اوزون کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس میں سوراخ ہوجانے کے باعث وہ زہریلے مادے جو پہلے فلٹر ہو جاتے تھے اب براہ راست زمین پر پہنچ رہے ہیں جس کے باعث مزید مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
یہ معاملہ اس قدر خطرناک تھا کہ انیس سو ستاسی میں اقوام متحدہ کے تحت مختلف ممالک نے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ایک طرف صنعتی سرگرمیوں کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا تھا تو دوسری طرف درختوں اور جنگلات کاٹ کاٹ کر ختم کیے جا رہے تھے۔ جئیر ڈائمنڈ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس عمل سے زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اور بارشوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
یہ مسائل اس قدر بڑھتے گئے کہ سن دوہزار چودہ میں دنیا بھر کے ممالک نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے تحت '' کلائنمنٹ چینج 2014''' کی رپورٹ شایع کی جو دنیا بھر کے ممالک کے نامور سائنسدانوں نے تیار کی تھی۔اس رپورٹ میں کھل کر بتایا گیا تھا کہ جدید ترقی اورصنعتی سرگرمیوں کے باعث ماحول کو سخت ترین نقصان پہنچ رہا ہے۔ جدید صنعتی ترقی کے باعث زمین کا درجہ حرارت بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو بہت بڑی تباہی آئے گی۔
دنیا بھر میں خوراک کی فصلیں کم ہو جائیں گی، چاول اور گندم وغیرہ جیسی اہم فصلوں کی پیداوار کم ہو جائے گی، موسم میں تبدیلیاں آئیں گی، بارشوں کا توازن بگڑ جائے گا، قحط اور خشک سالی آجائے گی، طوفانی بارشیں ہونگی، ہوائوں اور سمندری طوفان کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، گلیشئر پگل کر سمندر میں شامل ہو جائیں گے، سطح سمندر بلند ہو جائے گی، زلزلے اور سیلاب بڑھ جائیں گے، وغیرہ۔
سائنسدانوں کی پیش گوئیاں دن بہ دن درست ثابت ہوتی رہیں مگر کسی نے ان کی دی گئی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سائنسدانوں نے خبردار کر دیا ان کی تحقیق نے بھی خطرات کی گھنٹی بجا دی تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟
اس لیے عمل نہیں ہوا کہ اس بڑھتی آلودگی اور درجہ حرارت کی وجہ جدید مشینریز اور صنعتوں کا چلنا تھا اور یہ سب دن رات کئی کئی شفٹوں میں چل رہی تھی جن میں مال تیار ہو رہا تھا اب اگر ان مشینوں کوکچھ وقفے کے لیے بند کر دیا جاتا مثلاً ایک کارخانہ جو روزانہ آٹھ آٹھ گھنٹوں کی شفٹ میں چل رہا ہے اس کو ایک شفٹ کے لیے بند کر دیا جاتا تو اس کی پیداوار یعنی مال تیار کرنے کی تعداد کم ہو جاتی یوں اس کے مالک کی آمدن میں کمی آجاتی۔ ظاہر ہے آمدن میں کمی کسی کو منظور نہیں چنانچہ پوری دنیا میں یہ صنعتیں دن رات چل رہی ہیں اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
اب ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ان صنعتوں میں سرمایہ لگانے والے اپنے کارخانوں کو کچھ دیر کے لیے بند کرنے کو تیار نہیں تو پھر کوئی دوسرا طریقہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سے ہمارے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جاسکے؟
جی ہاں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی میں سادگی کو اپنائیں کیونکہ سادگی اختیار کرنے سے اشیاء کم استعمال ہونگی اور بازار سے خریداری کم ہوگی، جب خریداری کم ہوگی تو اشیاء تیاری بھی کم ہوگی یعنی جب ڈیمانڈ کم ہوگی تو کار خانے اور صنعتیں بھی کم چلیں گی اور یہی بات سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ صنعتی سرگرمیاں کم کریں۔
مگر اس طرف بھی بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جس طرح صنعت کار اور کارخانے والا بجائے کم کرنے کے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مشینیں چلانا چاہتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے، اس کو روکنے کی کوشش کی جائے، بالکل ایسے ہی لوگ بھی ماحولیات کے مسائل کی فکر کرنے کے بجائے اپنی ظاہری معاملات پر توجہ دیتے ہیں، مثلاًپہننے کے لیے بیشک گھر میں اچھے جوڑے موجود ہوں لیکن شادی بیاہ وغیرہ جیسی تقریبات کے لیے مزید کئی جوڑے بناتے ہیں۔
اسی طرح جوتے کے کئی جوڑے بھی خریدتے ہیں یہ نہیں سوچتے اگر دنیا کے ایک ارب انسان ایک جوتا جوڑی خریدتے ہیں تو کارخانوں میں ایک ارب جوڑی تیار کرنے کے لیے مشینیں چلیں گی اور اگر وہ دو جوڑی خریدتے ہیں تو ان کی تیاری کے لیے مشینیں د گنا زیادہ چلیں گی جس سے ظاہر ہے کہ آلودگی بھی کئی گنا زیادہ بڑھے گی۔ سائنسدانوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ صرف ایک ای میل کرنے سے اتنی کاربن پیدا ہوتی ہے جتنی کہ کسی کیتلی میں چائے بنانے سے۔
غور کریں ہم سب صبح و شام کس قدر اشیاء استعمال کرتے ہیں، بلاوجہ گھروں اور گاڑیوں میں اے سی استعمال کرتے ہیں، کتنی ہی اشیاء کو استعمال کرتے ہیں جب کہ اس کی ہمیں کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ بس یہی لفظ '' استعمال'' جس کو انگریزی میں ''کنزپشن''کہتے ہیں، سائنسدانوں کی نظر میں اس دنیا کی تباہی کا باعث بن رہا ہے اور اب تو سائنسدان یہ کہنے لگے ہیں کہ ہم نے تو بہت پہلے وارننگ دے دی تھی، کسی نے عمل نہیں کیا، اب تو صرف نقصان بھگتنا ہے کیونکہ اب حالات قابو میں آنے والے نہیں۔
سائنسدانوں کی باتیں قطعی طور پر درست ثابت ہوئیں، پاکستان میں بھی زلزلے اور سیلاب آئے اور ترقی یافتہ ممالک نے تسلیم بھی کیا کہ ان کی جدید ترقی اورصنعتی سرگرمیوں کے باعث ہی پاکستان میں یہ سب آفتیں آئیں چنانچہ ان ممالک نے حالیہ سیلاب کی تباہی پر پاکستان کو امداد بھی دی۔
اب آئیے ذرا غور کریں کہ یہ زلزلے اور سیلاب وغیرہ کیا ہمارے اپنے ہاتھوں نہیں آئے؟ کشش ثقل کا قانون بھی کہتا ہے کہ ہر شئے زمین کی طرف یعنی نیچے آتی ہے، ہم نے بڑی بڑی عمارتیں بنا ڈالیں اور بقول سائنسدانوں کے زلزلوں کا اہتمام بھی کر لیا تو کیا یہ عمارتیں زمین پر نہیں گرینگی؟ اور اگر لوگ ان میں موجود ہوئے تو وہ ان کے ملبے تلے نہیں دبیں گے؟ ہم نے پانی کے قدرتی راستوں کو بند کردیا تو کیا جب پانی آئے گا تو وہ اپنے راستے سے نہیں گذرے گا؟ یہ سارے قانون سائنسدانوں نے دنیا کو بتائے ہیں۔ گویا یہ تباہی ہمارے ہاتھوں ہی لائی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھی قانون فطرت دیا ہے اور کائنات کی ہر شے کو قیامت تک کام کرنے کا حکم دیا ہے اس کے حکم کے مطابق ہی اس دنیا میں کشش ثقل بھی ہے اب اگر کوئی بلند عمارت سے چھلانگ لگا دے یا کسی کشتی سے سمندر میں کود پڑے تو کیا اللہ کا قانون فطرت رک جائے گا؟ بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون تو تا قیامت چلتا رہے گا البتہ معجزات کا الگ معاملہ ہے اور معجزہ نہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے نہ روز روز۔