قوم سو رہی ہے

آج اس ملک کی معیشت کو آپ نے اپنی جیبیں اور اپنے اکائونٹ بھرنے کے لیے کہاں لاکھڑا کیا ہے



تاریخ شاہد ہے کہ رات کے ساڑھے تین بجے جب لارڈ مائونٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو کو فون کیا تھا تو پتہ چلا کہ وہ سو رہے ہیں اور اسی وقت جب انھوں نے ہمارے قائداعظم کو کال کی تو پتہ چلا وہ جاگ رہے ہیں تو مائونٹ بیٹن نے استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قائد اتنی رات گئے تک آپ جاگ رہے ہو جب کہ نہرو سو رہا ہے تو قائد کا جواب تھا کہ '' اس کی قوم جاگ رہی ہے اس لیے وہ سو سکتا ہے جب کہ میری قوم سو رہی ہے اس لیے مجھے جاگنا ہوگا''۔

لیکن آج بدقسمتی سے ہمارا قائد بھی اپنی قبر میں سو رہا ہے اور ہماری قوم بھی سو چکی ہے، اس لیے قائد کے جسد خاکی کو پوری دنیا میں جہاں میرے قائدکا پاکستان نظرآئے تو وہاں انھیں مدفن کرنا چاہیے تاکہ اتنے سال بعد انھیں قرار واقعی سکون مل سکے کیونکہ یہ میرے قائد کا پاکستان نہیں اگر یہ پاکستان ہے تو یہ وہ پاکستان نہیں ہوسکتا ، جس کا تصور حضرت علامہ محمد اقبال ؒنے دیا تھا ، جس کے حصول کو صرف و صرف اسلام کے نام پر ہمارے اکابرین نے ہر طرح کے نذرانے دے کر ممکن بنایا۔

آج ہمارے بزرگوں کی روحیں کتنی بے چین و بے قرار ہونگی کہ اتنی قربانیوں کے بعد اس عظیم مملکت کو اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ دور حاضر کے حکمران اس کے چپے چپے کو بیچ کھائیں اقتدار کی نورا کشتی ہو حکمران خاندان اس سے اپنی موروثی جائیداد سمجھیں ہر طرف کرپشن افراتفری لوٹ مارکا بول بالا ہو۔

آج وطن عزیز اس گاڑی کی مانند ہے جس کو چلانے والے طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس سے چلانے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن گاڑی چل ہی نہیں رہی اور اس کے چلانے والوں کو یہ علم ہی نہیں ہورہا کہ گاڑی وہیں کھڑی ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا بس صرف فرق یہ آیا کہ اس کے چلانے والوں کے چہرے بدلتے گئے۔

آج اتنے سالوں میں جو جو پارٹی اقتدار میں آئی سب نے اپنی جیبوں کو ہی بھرا ملک کو کنگال کرکے چھوڑا کیونکہ انھیں وطن عزیز سے کیا غرض، جب کہ وہ نادان نہیں جانتے کہ ان کی شناخت اسی ملک سے ہے پھر عوام نے چہرے نہیں نظام کو بدلو کی خواہش دل میں سجائے ایک ایسی شخصیت کو لے کر آئے جنھوں نے اپنی '' میں نہ مانو '' طبیعت کے تحت ، اپنے عدم تجربے کے باعث رہی سہی کسر پوری کردی۔

ان کی سب سے بڑی خواہش چوروں لٹیروں پر ٹیکس لگانا تھا مگر وہ نادان یہ نہ سمجھ سکے کہ وہ چور چوری میں اتنے ماہر ہیں جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھری سے نہ جائے اور ہوا بھی یہی کہ وہ ان سے ہر معاملے میں دو قدم آگئے ہی ہوتے وہ کبھی نہ ٹیکس دیتے نہ دے رہے ہیں ، ان کے نام نہاد سماجی اصلاحات کا سیدھا سیدھا اثر صرف غریب پسماندہ عوام پر ہی پڑا اور پڑ رہا ہے چاہے وہ بے روزگار ہی کیوں نہ ہو وہی ٹیکس دے رہا ہے۔

آج کی اس مہنگائی کی اصل ذمے داری سالوں کی قیادت سے زیادہ ان پر عائد ہوتی ہے انھوں نے مغربی ممالک سے مرعوبیت کے تمام ریکارڈ توڑ کر ان کی اصلاحات کو اپنے ملک میں رائج کیا ، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی حکومت بے روزگار شہریوں کو الائونس اور سہولتیں دیتی ہے کیا؟ تاکہ وہ عزت کی زندگی گذار سکیں ، نہ کہ ایسے مجبور و بے کس شہریوں سے اینٹھ کر صرف و صرف اپنی تجوری بھرنا۔ پٹرول جو مہنگائی کی ایسی اساس ہے جس کی قیمت اکیلے ہی بڑھ جائے تو خود بخود ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے۔

گیس نہ ملنے کے باوجود بل خوب سے خوب تر گرمی آنے کے بعد بھی گیس کی عدم دستیابی غریب عوام کتنے دن اس مہنگائی کے دور میں باہر سے کھانا کھائیں گے۔ سردی میں بزرگ حضرات ٹھنڈے پانی سے غسل کرکے مسجد تشریف لاتے کیونکہ اس اسلامی مملکت میں جمعہ المبارک کے دن گیس کی خصوصی بندش رہتی ہے ، بزرگی خود ایک آزمائش ہے کیا سرد موسم میں ٹھنڈا پانی ان کے لیے نقصان دہ نہ ہوگا یا ترک نماز جائز ہوگی جب کہ آخرت کی ہی زندگی اصل اور ابدی ہے ۔

2018 سے کراچی میں گیس کی قلت سخت بحرانی صورتحال اختیار کرچکی ہے ، پھر یہ بزرگ ایک جگہ بیٹھ کر تسبیح پڑھتے ہوئے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے سرگوشی کرتے نظر آئے کہ اگر اس کو پتہ چل گیا کہ ہم بناء ٹیکس فری کی قدرتی دھوپ لے رہے ہیں تو شاید یہ دھوپ بھی ہمیں میسر نہ ہو۔

ایک مخصوص ٹولے کو وطن عزیز سے زیادہ وہ شخصیت عزیز ہیں کہ وہ ہونگے تو ہی ملک میں ترقی ہوسکے گی کیونکہ ان کا ہونا مادر وطن کے کسی اہم عہدے پر لازم و منظوم ہے، ملکی استحکام ، ترقی و خوشحالی کے لیے وہ بے چارے کسی عہدے کے بغیر خواہ وہ کتنے ہی دولت مند کیوں نہ ہوں اپنے اور اپنے بچوں کے حوالے سے وہ بحیثیت ایک عام شہری کچھ نہیں کر سکتے۔ کسی بھی ملک کے توشہ خانہ کے تحفے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے وہ ایک سربراہ مملکت دوسرے سربراہ ملک کو خیر سگالی کے طور پر دیتا ہے۔

بہرحال مادر وطن کی سب سے بڑی بدنصیبی کہ اتنے برس گذرنے کے باوجود کوئی حکمران اس ملک کا درد رکھنے والا نصیب نہیں ہوا اولین قیادت کے بعد۔ وطن عزیز کے موجودہ اور سابقہ حکمران اتنی دولت رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے ملک غریب دکھائی پڑتا ہے اگر یہ قرار واقعی ملک کا درد رکھنے والے حکمران ہوتے تو اپنی دھن دولت کا پانچواں حصہ بھی وطن عزیز کو اس امید سے دے دیتے کہ بعد میں پھر لوٹ لیں گے تو آج وطن عزیز کنگالی کی اس ڈگر پر نہ ہوتا۔

کراچی میں عسکری پارک (پرانی سبزی منڈی) سے صفورا گوٹھ تک اتنی وسیع و عریض خوبصورت روڈ پر جو ترقیاتی کام رواں دواں ہے وہ عوام کو کیا فائدہ دے گی جن کے پاس اس مہنگائی میں کھانے کے پیسے نہیں روزگار نہیں ان ہی ٹیکس کے پیسوں سے جس سے وہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کے ادا کرتے ہیں اور جس کے لیے حکمران ان کو جواب دہ ہیں ، وہاں یہ سڑکیں بنانے کا مشن صرف ٹھیکے کھانے کے سوا کچھ نہیں۔ بنگلہ دیش کا جائز حق نہ دیکر 71ء میں ہم نے بنگلہ دیش کو گنوا دیا آج وہاں کتنی ترقی ہوگئی وہاں کی کرنسی اور پاکستانی کرنسی میں کتنا فرق آگیا۔

پڑوسی ملک میں اشیاء خورونوش پٹرول وغیرہ کہاں ہیں اور ہمارے پاس کہاں ہیں وہاں بجلی کے بیس یونٹ اور لوکل کالز بالکل فری ہیں آج وہ اپنے ہر چینل پر مادر وطن کی حالت زار کا دل کھول کر مذاق اڑا رہے ہیں مگر افسوس صد افسوس ہمارے حکمرانوں کو ذرا غیرت محسوس نہیں ہورہی کہ وہ وطن عزیز سے لی ہوئی کچھ دولت قربان کرکے آئی ایم ایف کی غلامی سے جان چھڑوائیں۔

کراچی کے نوحے پر بھی توجہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے محترم حکمران برادر اسلامی ممالک میںجا کر ہمدردی کرتے ہیں بلاشبہ ہمارے مذہب کی آفاقی تعلیمات ہمیں غم گساری کا درس دیتی ہے لیکن جب آپ اپنے ملک کے لیے دوسروں سے قرضہ لینے پر انتہائی مجبور ہیں تو اتنا بڑا وفد لے کر امداد سے امداد کیسے کی جاسکتی ہے جب کہ قدرت نے قرض خواہوں پر قربانی کے احکامات تک لاگو نہیں کیے ، ہاں اگر آپ اپنی ذاتی ملکیت سے اتنے بڑے وفد کو لے جاتے اور اپنی تنخواہ سے اپنے مسلمانوں بھائیوں کے لیے کچھ کرتے تو خدائے عظیم کے پاس بڑے اجر و ثواب کے مستحق ہوتے۔

آج نجانے بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے کتنے والدین مجبور ہو کر اپنے لخت جگروں کو اپنے سے دور کررہے ہیں عمر بھر کے بے سہارا ہونے کے لیے۔ خدارا رحم کرو اس ملک پر اس میں بسنے والی خلق خدا پر۔ آپ سب کے مطلبی اشتراک کی وجہ سے یہ ملک کہاں پہنچ گیا ہے خدارا کبھی تو اس کی بھلائی کا سوچیں۔

آج اس ملک کی معیشت کو آپ نے اپنی جیبیں اور اپنے اکائونٹ بھرنے کے لیے کہاں لاکھڑا کیا ہے، ساری سہولتیں اور مراعات حکمران اشرافیہ کے لیے ہیں۔ عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور حساب کتاب کا وقت جس کا وعدہ ہے وہ بھی تقریبا آن پہنچا یاد رکھو نہ کفن میں کوئی جیب ہے نہ قبر میں کوئی الماری لوٹ کھسوٹ کا پیسہ لوٹ کھسوٹ میں ہی چلا جاتا ہے۔

جس پیسے سے آپ اپنی اولاد کی اٹھان کررہے ہو وہ صرف اٹھان ہی رہے گی وہ صرف عمر اور قد میں بڑھ جائیں گے مگر آپ کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث نہیں ہونگے جب آپ کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی وہ آپ کے لیے کچھ نہ کرسکیں گے جب کہ ایسے نازک وقت انسان کو خدا کے بعد اپنی تربیت کا ہی سہارا ہوتا ہے اور وہ بھی لوگوں کی سسکیوں اور آہوں کے سبب آپ کے کام نہ آوے گی۔ خدائے بزرگ اس وقت سے پہلے سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں