پاتال

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ شہباز شریف صاحب قوم کو یہ خوش خبری سنا چکے ہیں کہ ابھی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا

mjgoher@yahoo.com

عظیم فلسفی اور مورخ ابن خلدون 1332 میں پیدا ہوئے اور 1406 میں وفات پائی۔ گویا ان کا زمانہ آٹھ دہائیاں قبل کا ہے۔ ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے ان کی سا لمیت، استحکام اور فلاح کی بنیاد اپنے فلسفے اور نظریات کے مطابق ''عصبیت'' پر رکھی ہے۔

عصبیت سے ابن خلدون کی مراد وہ قوت ہے جو کسی گروہ یا قوم میں محبت، یگانگت، اتفاق، اتحاد اور یک جہتی کے شدید احساسات اور جذبات پیدا کرکے اسے منظم اور متحد رکھتی ہے۔ ان کے بقول جب اس قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے تو اس کے نتیجے میں قوم میں بدنظمی، بے سمتی، انتشار، بے ترتیبی، اضطراب، بے چینی اور گھبراہٹ سے تتر بتر ہونے، پھیلنے اور بکھرنے کی کیفیت کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو اس کی کمزوری، انحطاط، تنزل، ادبار، ہلاکت، تباہی اور زوال کا باعث بنتا ہے۔

ابن خلدون کے مطابق اس عصبیت کو قائم رکھنے میں مذہب اور دیگر فکری و تہذیبی عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں، تاہم کچھ معاشی اسباب ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے قوم کی عصبیت متاثر ہوتی ہے۔

ابن خلدون کہتا ہے کہ ''جب کسی قوم کا برسر اقتدار گروہ ملک کے بیشتر وسائل پر قبضہ کرلیتا ہے تو دیگر طبقات میں بے چینی، گھبراہٹ اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ سب مل کر حاکم گروہ کے خلاف متصادم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح محنت کش طبقے کی عصبیت حاکم گروہ کی عصبیت سے ٹکرا جاتی ہے اور دونوں کے درمیان عدم تعاون شروع ہو جاتا ہے۔ یوں بہ حیثیت مجموعی قوم کی عصبیت یا دوسرے الفاظ میں قوم کی سالمیت پر شدید ضربات پڑتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ قومی شکست و زوال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔''

مفکرین کے مطابق تعجب خیز امر یہ ہے کہ ابن خلدون کے بعض بنیادی نظریات ایک حد تک وہی ہیں جو تقریباً پانچ سو سال بعد کارل مارکس نے پیش کیے حالانکہ ابن خلدون کے زمانے میں ذرایع پیداوار کے مسائل اس قدر پیچیدہ نہیں تھے جن کا مطالعہ کرنے کا کارل مارکس کو موقع ملا تھا۔

ابن خلدون کے نزدیک جس طرح انسان بچپن، جوانی اور ضعیفی کے مدارج سے گزرتا ہے، بعینہ قومیں بھی ان مراحل سے گزرتی ہیں اور یہ مدارج عموماً تین نسلوں میں طے ہو جاتے ہیں۔ قوموں کے عروج کے بعد ان کی ضعیفی یا زوال لازمی ہے لیکن اس کی مختلف النوع وجوہات ہوتی ہیں جن میں بنیادی وجہ ذہنی انتشار اور معاشی کشمکش ہے۔

اس ضمن میں مارکس کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرہ دو منزلوں پر قائم ہے۔ پہلی منزل جوکہ معاشرے کی بنیاد ہے معاشی منزل ہے، یعنی انسان کی معاشی ضروریات کی تکمیل۔ اس منزل کی تعمیر انسان کی مادی ضروریات غذا، لباس اور رہائش وغیرہ کو حاصل کرنے کے ذرایع سے ہوتی ہے، جب کہ دوسری منزل جو پہلی منزل پر تعمیر ہوتی ہے، اسے قانونی یا سیاسی منزل کہا جاسکتا ہے۔


سیاسی اور سماجی قوانین مل کر ایک معاشرے کی تعمیر کرتے ہیں اور پھر حکومت یا ریاست وجود میں آتی ہے اور اسی طرح دیگر سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی ادارے وجود میں آتے ہیں۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کی تعمیر میں بنیادی اہمیت اس کی مادی ضروریات اور ذرایع پیداوار کو حاصل ہے جب کہ باقی اجزا ان ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسان کی بیش تر ذ ہنی اور جذباتی زندگی کی اصل محرک اس کی معاشی زندگی قرار دی جاتی ہے جسے تاریخی مادیت کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔

اسی نظریے کی روشنی میں تاریخ کی تشریح کرنے والے مفکرین نے متعدد مثالیں دے کر یہ بتایا اور سمجھایا ہے کہ تاریخ کے اہم واقعات، فتوحات، انقلابات، قوموں کا عروج و زوال، حتیٰ کہ فنون لطیفہ اور اکثر و بیشتر مذہبی تصورات بھی معاشی وجوہات کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ آپ ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ آج کا معاشی نظام دو واضح طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے۔

ایک طبقہ وہ ہے جو زیادہ تر کام کرتا ہے یعنی مزدور اور اس طرح وہ دولت یعنی سرمایہ پیدا کرتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ سرمایہ داروں کا ہے جو اس مزدور کی پیدا کردہ دولت اور سرمایہ کو خود پر خرچ کرتا ہے اسے کلی طور پر مزدوروں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اس طرح اب ان طبقوں یعنی سرمایہ داروں اور مزدوروں میں معاشی کشمکش جاری ہے۔ ایک طبقہ استحصال کر رہا ہے اور دوسرے طبقے کا استحصال ہو رہا ہے۔ آج کا سرمایہ دار طبقہ مختلف اشکال کی صورت میں اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہے اور عام آدمی کا بری طرح استحصال کر رہا ہے۔

آپ قیام پاکستان سے آج تک ایوانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طبقے کے لوگ اقتدار کی راہداریوں پر قابض رہے ہیں۔ عام آدمی تو الیکشن لڑنے اور آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں اور اشرافیہ نے عام آدمی کو روزی روٹی کے چکر میں لگا کر انھیں محکوم بنا رکھا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشی زندگی کی آسودگی کے بغیر انسان کوئی دوسرا قدم اٹھانے کا سوچ سکتا ہے۔ اور آج کے اس دور میں تو مہنگائی کے امڈتے ہوئے طوفان نے تو ہر آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

پی ڈی ایم کی حکومت اس دعوے کے ساتھ آئی تھی کہ عمران حکومت کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، عوام خوش حال ہونے کے بجائے بدحال ہو رہے ہیں، خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں روز اضافہ ہو رہا ہے، عمران خان عوام کو ''ریلیف'' فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، لہٰذا ان کے اقتدار کا خاتمہ ضروری ہے۔

ہم حکومت میں آ کر عوام کو غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلائیں گے۔ پی ڈی ایم کی خواہش پوری ہوگئی اور عمران حکومت ختم ہوگئی انھیں اقتدار مل گیا۔ شہباز شریف آج پی ڈی ایم کے وزیر اعظم ہیں، لیکن آج پاکستان کے معاشی حالات تاریخ کے بدترین دوراہے پر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں قومی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، ڈالر بلندیوں کو چھو رہا ہے، اندرونی و بیرونی قرضوں کا بار بھی بلند ترین ہے۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی وجہ شہباز شریف صاحب قوم کو یہ خوش خبری سنا چکے ہیں کہ ابھی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، معیشت ڈوب رہی ہے، لیکن قوم کو یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل آئے گا لیکن آئی ایم ایف جو شکنجہ کس رہا ہے اور پی ڈی ایم حکومت اس کے سامنے جس طرح گھٹنے ٹیک رہی ہے اور جو معاشی منظرنامہ ابھرتا نظر آ رہا ہے وہ عام آدمی کو پاتال میں پہنچا دے گا۔
Load Next Story