بلوچ قوم کا تاریخی پس منظر پہلاحصہ

بلوچ مرد، خواتین اور بچے اپنے روایتی لباس میں ملبوس رنگا رنگ ریلیاں نکالتے ہیں

shabbirarman@yahoo.com

بلوچ یوم ثقافت امسال 2 مارچ کو پاکستان، ایران، افغانستان دبئی مسقط، بحرین، سعودی عرب اور بھارت میں شایان شان انداز سے منایا گیا ہے۔

بلوچ اس دن کو روایتی جذبہ سے مناتے ہیں۔ بلوچ مرد، خواتین اور بچے اپنے روایتی لباس میں ملبوس رنگا رنگ ریلیاں نکالتے ہیں۔ مختلف اجتماعات کا بندوبست ہوتا ہے اور جشن کاسماں ہوتا ہے۔ اس مخصوص دن کی تیاری بھر پور انداز سے ہوتی ہے تاکہ دنیا کو بلوچ ثقافت زبردست طریقے سے پیش کیا جائے۔

بے شک ثقافت ہر قوم کی غمازی کرتی ہے لیکن بلوچ اپنی ثقافت کو ایک کشش ثقل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تا کہ پوری بلوچ قوم یکجا ہو کر نازاں ہو سکے۔ برطانوی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے بلوچ ثقافت کو دنیا میں ایک منفرد، مخصوص اور دوسری قدیم ثقافتوں کے مقابلے میں مضبوط ثقافت قرار دیا ہے۔

بلوچ قوم اپنی مہمان نوازی، جرأت اور ایفائے عہد کی وجہ سے مشہور ہیں۔ بلوچی خواتین اپنے حسین وجمیل ملبوسات خود تیار کرتی ہیں۔ بلوچ لباس اپنی خوبصورت کڑھائی اور ڈیزائن کے باعث قیمتی اور مشہور ہیں۔ بلوچ مرد بھی اپنے روایتی لباس زیب تن کرکے تلواروں کے سائے میں پر جوش بلوچی رقص پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پر شکوہ بلوچ ثقافت دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اوربلوچ یوم ثقافت اس کا آئینہ ہے۔

بلوچ دین اسلام کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ثقافتی شناخت میں مذہب ایک اہم جز ہے انھیں یکجا کرنے اور متحدہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔ بلوچ مردوں کی مقبول پوشاک میں پگڑی شامل ہے، ڈ ھیلی چوڑے گھیرکی شلوار اور گھٹنوں سے نیچی ڈھیلی قمیص شوق سے پہنی جا تی ہے۔

بلوچ یوم ثقافت بلوچستان کے دارا لحکومت کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان، ساھیوال،ڈیرہ غازی خان اور کراچی میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن متنوع بلوچ ثقافت کو سمجھنے اور اجاگر کر نے کے لیے اچھا موقع ہے۔ اس میں بلوچ ادب اور موسیقی بھی مضبوط روایات اور ثقافتی اقدار کا حصہ ہیں۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ امریکی، جرمن اور چند یورپی سفارت خانوں میں بھی بلوچ یوم تقریبات کا انتظام ہوتا ہے۔

بلوچ ثقافت کی عکاسی کی خاطر بلوچ کھانے، لوک گا نے اور رقص و موسیقی کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ 2009میں دنیا بھر میں بلوچ قوم کی آبادی 39.98 ملین شمار کی گئی ہے ۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔ 2013ء میں پاکستان میں بلوچ قوم کی آبادی 6,90,000,000 شمار کی گئی تھی ۔

ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران میں بلوچوں کی آبادی 4,95,557,000ہے۔2009 میں سلطنت عمان میں بلوچوں کی آبادی 434,000 شمار کی گئی تھی۔ اسی سال یعنی 2009 تک ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں 000،000 ،1بلوچ آباد ہیں، متحدہ عرب امارات میں500,000 ، بھارت میں 600,000 اور ترکمانستان میں 300,000 بلوچ آباد ہیں۔

بلوچ کے لفظی معنی ہیں ''بلند تاج''تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں۔اس نظم میں آیا ہے کہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔


بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔

532 قبل مسیح میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہو گئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے لیے خطرہ بن گئے۔

اس لیے انھوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب''دی بلوچ ریس'' اور گینکووسکی نے اپنی کتاب'' پیپل آف پاکستان'' میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔

بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔ ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب'' دی بلوچ ریس'' میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)''یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی۔

پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ دوسری بار انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سندھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی۔

دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لیے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کر دیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے ''بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔

یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے۔ اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔محمد سردار خان بلوچ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بلوچ روایت کے مطابق سردار امیر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جو گیارہویں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔

سردار امیر جلال خان بلوچ کے چار بیٹے رند، کورائی، لاشار اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا۔ جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتے ہیں۔ سردار میر چاکر خان رند بن سردار امیر شہک رند بن سردار امیر اسحاق رند بن سردار امیر کا لو رند بن سردار امیر رند بن سردار امیر جلال خان رند بلوچ۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story