کیا کمال کا آدمی تھا
قومی خان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پیدائشی اداکار تھے او ربچپن ہی سے اداکاری اور مطالعہ ان کی عادت تھی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اترجاوں گا
ہم جیسے لوگوں کا عہد پی ٹی وی کے ڈراموں سے جڑا ہوا ہے ۔ کیا کمال کے فنکاروں نے کیا کیا کمال دیکھائے ۔اگر اداکاروں کا ذکر کریں ، ایسے ایسے نام ہیں جو آج بھی ہماری یادوں کا خوبصورت حصہ ہے۔
شفیع محمد،فردوس جمال، عابد علی، جمشید انصاری، روحی بانو، خالدہ ریاست جیسے لاتعداد نام جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ اداکار قوی خان بھی ایسا ہی فنکار تھا۔ قومی خان محض فن کار ہی نہیں تھے بلکہ اس ملک کی پہچان تھے ۔قومی خان نے فنون لطیفہ کے چاروں شعبوں ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں کام کیا اور اپنے جوہر دکھائے۔
قوی خان نے اگرچہ بہت سے ڈرامو ں , فلموں اور تھیٹر میں کام کیا مگر پی ٹی وی کے ڈرامہ سیریز'' اندھیرا اجالا'' نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔ '' اندھیرا اجالا '' نے قومی خان نے ایک ایسے پولیس افسر کو متعارف کروایا جو نیک شہرت بھی رکھتا اور پولیس کے بارے میں موجود منفی رویوں کے برعکس تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس عہد کے بہت سے بچے کہا کرتے تھے کہ ہم نے بڑے ہوکر قومی خان کی طرح کا پولیس افسر بننا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس دور کے پولیس افیسر ز کے بقول اس ڈرامہ نے پولیس کے بارے میں جہاں مثبت پہلووں کو اجاگر کیا وہیں ہمارے اپنے بچے بھی بطور پولیس افیسر ہمیں قومی خان کے کردار میں ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
اسی ڈرامہ میں جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ بھی کافی مقبول ہوئے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں او رانھوں نے اس کردار کی مدد سے لوگوں کے دلوں میں راج بھی کیا او رکئی انمنٹ نقوش بھی چھوڑے ہیں ۔پاکستان او ربھارت میں یہ ڈرامہ کافی مقبول تھا او رجس وقت یہ ڈرامہ چلتا تھا تو سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔
انھیں نشان امتیاز,پرائڈ آف پرفارمنس صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ,ستارہ امتیاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ نگار ایوارڈ, بہترین اداکار کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔1964 سے لے کر زندگی کے آخری حصہ تک وہ اسی شعبہ سے منسلک رہے ۔ایک بار 1985میں عملی سیاست میںقدم رکھا اور لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا ا ور اس ناکامی کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا اوران کے بقول جو اس ملک میں عملی سیاست کے تقاضے ہیں اس میں وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے ۔
قومی خان کا ایک باوقار شخصیت کے مالک تھخ ۔ عاجزی , انکساری او رملنساری ان کی کما ل کی تھی او رجوبھی ان سے ملتا تووہ ان کا گرویدہ ہی ہوجاتا تھا ۔ وہ عملی طور پر ایک اداکار ہی نہیں بلکہ اس شعبہ کی ایک علمی درسگاہ بھی تھے ا و رجن کی تجربے , کام اور اداکاری سے نئے اداکاروں کو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔قومی خان کے جہاں لاتعداد ڈراموں کی مختلف کردار ادا کیے وہیں فلمی دنیا میں بھی انھوں نے خوب نام کمایا۔
پاذیب، سرفروش، محبت زندگی ہے، سرکٹا انسان، نیلام، روشنی، وطن، چوری چوری، محبت مرنہیں سکتی، محبت زندگی ہے سمیت کئی فلموں میں کام کیا۔اسی طرح '' اندھیرا اجالا '' کے علاوہ ان کے اہم ڈراموں میں آشیانہ، من چلے کا سودا، سہلیاں، آڑان، مرزا اینڈ سنز، دل موم کا دیا، لاہوری گیٹ او رر انگار وادی, دن سمیت کئی ڈرامے ان کے نام سے تھے۔ ان کاسفر سات دہائیوں تک محیط رہا اور وہ 80برس کی عمر میں جگر کے سرطان میں مبتلا ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ان کا انتقال کینیڈا میں ہوا جہاں ان کے بچے مقیم ہیں۔
قومی خان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پیدائشی اداکار تھے او ربچپن ہی سے اداکاری اور مطالعہ ان کی عادت تھی ۔ان کے بقول انھوں نے اخبارات کو پڑھنا بھی ابتدائی عمر میں ہی شروع کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریبا 250فلموں او رکئی سو ڈراموں میں کام کرنے والے قومی خان نے فلموں کی ہدایت کاری اور پروڈکشن بھی کی ۔ ان کے بقول ان کی ذندگی کا ایک مشکل کردار اشفاق احمد کے ڈرامے میں مرزا غالب کا کردار تھا جو ان کے لیے واقعی مشکل کردار تھا۔
یہ اشفاق احمد کا لکھاہوا ڈرامہ '' کوئی نہ آدھا سچ ملا'' تھا ۔اس سے قبل بھارت میں نصیر الدین شاہ اسی کردار کو ادا کرچکے تھے ۔قومی خان کی ایک بڑی خوبی ان کی صبح کی سیر او رہلکی پھلکی ورزش تھی ۔ وہ باقاعدگی سے صبح کی سیر ماڈل ٹاون پارک میں کیا کرتے تھے۔ واک اور ایکسرسائز کے بعد وہیں دوستوں کی مجلس لگانا ان کی بڑی خوبی بھی تھی ۔قومی خان حقیقی معنوں میں ایک بھرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں او رہم سب ان پر فخر کرسکتے ہیں۔
میں تو دریا ہوں سمندر میں اترجاوں گا
ہم جیسے لوگوں کا عہد پی ٹی وی کے ڈراموں سے جڑا ہوا ہے ۔ کیا کمال کے فنکاروں نے کیا کیا کمال دیکھائے ۔اگر اداکاروں کا ذکر کریں ، ایسے ایسے نام ہیں جو آج بھی ہماری یادوں کا خوبصورت حصہ ہے۔
شفیع محمد،فردوس جمال، عابد علی، جمشید انصاری، روحی بانو، خالدہ ریاست جیسے لاتعداد نام جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ اداکار قوی خان بھی ایسا ہی فنکار تھا۔ قومی خان محض فن کار ہی نہیں تھے بلکہ اس ملک کی پہچان تھے ۔قومی خان نے فنون لطیفہ کے چاروں شعبوں ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں کام کیا اور اپنے جوہر دکھائے۔
قوی خان نے اگرچہ بہت سے ڈرامو ں , فلموں اور تھیٹر میں کام کیا مگر پی ٹی وی کے ڈرامہ سیریز'' اندھیرا اجالا'' نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔ '' اندھیرا اجالا '' نے قومی خان نے ایک ایسے پولیس افسر کو متعارف کروایا جو نیک شہرت بھی رکھتا اور پولیس کے بارے میں موجود منفی رویوں کے برعکس تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس عہد کے بہت سے بچے کہا کرتے تھے کہ ہم نے بڑے ہوکر قومی خان کی طرح کا پولیس افسر بننا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بہت سے اس دور کے پولیس افیسر ز کے بقول اس ڈرامہ نے پولیس کے بارے میں جہاں مثبت پہلووں کو اجاگر کیا وہیں ہمارے اپنے بچے بھی بطور پولیس افیسر ہمیں قومی خان کے کردار میں ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
اسی ڈرامہ میں جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ بھی کافی مقبول ہوئے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں او رانھوں نے اس کردار کی مدد سے لوگوں کے دلوں میں راج بھی کیا او رکئی انمنٹ نقوش بھی چھوڑے ہیں ۔پاکستان او ربھارت میں یہ ڈرامہ کافی مقبول تھا او رجس وقت یہ ڈرامہ چلتا تھا تو سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔
انھیں نشان امتیاز,پرائڈ آف پرفارمنس صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ,ستارہ امتیاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ نگار ایوارڈ, بہترین اداکار کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔1964 سے لے کر زندگی کے آخری حصہ تک وہ اسی شعبہ سے منسلک رہے ۔ایک بار 1985میں عملی سیاست میںقدم رکھا اور لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا ا ور اس ناکامی کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا اوران کے بقول جو اس ملک میں عملی سیاست کے تقاضے ہیں اس میں وہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے ۔
قومی خان کا ایک باوقار شخصیت کے مالک تھخ ۔ عاجزی , انکساری او رملنساری ان کی کما ل کی تھی او رجوبھی ان سے ملتا تووہ ان کا گرویدہ ہی ہوجاتا تھا ۔ وہ عملی طور پر ایک اداکار ہی نہیں بلکہ اس شعبہ کی ایک علمی درسگاہ بھی تھے ا و رجن کی تجربے , کام اور اداکاری سے نئے اداکاروں کو بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔قومی خان کے جہاں لاتعداد ڈراموں کی مختلف کردار ادا کیے وہیں فلمی دنیا میں بھی انھوں نے خوب نام کمایا۔
پاذیب، سرفروش، محبت زندگی ہے، سرکٹا انسان، نیلام، روشنی، وطن، چوری چوری، محبت مرنہیں سکتی، محبت زندگی ہے سمیت کئی فلموں میں کام کیا۔اسی طرح '' اندھیرا اجالا '' کے علاوہ ان کے اہم ڈراموں میں آشیانہ، من چلے کا سودا، سہلیاں، آڑان، مرزا اینڈ سنز، دل موم کا دیا، لاہوری گیٹ او رر انگار وادی, دن سمیت کئی ڈرامے ان کے نام سے تھے۔ ان کاسفر سات دہائیوں تک محیط رہا اور وہ 80برس کی عمر میں جگر کے سرطان میں مبتلا ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔ان کا انتقال کینیڈا میں ہوا جہاں ان کے بچے مقیم ہیں۔
قومی خان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پیدائشی اداکار تھے او ربچپن ہی سے اداکاری اور مطالعہ ان کی عادت تھی ۔ان کے بقول انھوں نے اخبارات کو پڑھنا بھی ابتدائی عمر میں ہی شروع کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریبا 250فلموں او رکئی سو ڈراموں میں کام کرنے والے قومی خان نے فلموں کی ہدایت کاری اور پروڈکشن بھی کی ۔ ان کے بقول ان کی ذندگی کا ایک مشکل کردار اشفاق احمد کے ڈرامے میں مرزا غالب کا کردار تھا جو ان کے لیے واقعی مشکل کردار تھا۔
یہ اشفاق احمد کا لکھاہوا ڈرامہ '' کوئی نہ آدھا سچ ملا'' تھا ۔اس سے قبل بھارت میں نصیر الدین شاہ اسی کردار کو ادا کرچکے تھے ۔قومی خان کی ایک بڑی خوبی ان کی صبح کی سیر او رہلکی پھلکی ورزش تھی ۔ وہ باقاعدگی سے صبح کی سیر ماڈل ٹاون پارک میں کیا کرتے تھے۔ واک اور ایکسرسائز کے بعد وہیں دوستوں کی مجلس لگانا ان کی بڑی خوبی بھی تھی ۔قومی خان حقیقی معنوں میں ایک بھرپور زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں او رہم سب ان پر فخر کرسکتے ہیں۔