احتساب و انتخابات ساتھ ساتھ
اس بات کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے نہ صرف یہ فلاحی ریاست ہے بلکہ یہ وفاق بھی ہے
اب کی دفعہ جو بازگشت ہے، اور جو زور پکڑ رہی ہے کہ اب کچھ ایسا ہو ، جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا، پھر ا س بار ہو ہی جائے کورٹ مارشل کی یا پھر آرٹیکل چھ کا اطلاق! کیونکہ اب نہیں تو پھر کبھی بھی نہیں۔
یہاں آمر آتے رہے،آئین ٹوٹتے رہے،وزرائے اعظم مرتے رہے، جلا وطن ہوتے رہے لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا بلکہ سب کو آئینی تحفظ ملتا رہا اور پارلیمنٹ بھی اپنے دستخط کررہی۔ برطانیہ کی تاریخ میں جنرل کروم ویل نے جب شب خوں مارا،وہ مرگئے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی لاش کو قبر سے نکالا گیا او رسر عام لٹکایا گیا تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
رومانیہ کے چا ئسکو کے ساتھ کیا ہوا اور اسی طرح ہٹلر کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،مگر ایسے ڈکٹیٹرز کی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں جنھوں نے شب خوں مارے اورجن کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا ہاں مگر ریاستوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ معیشتیں بگڑ گئیں، افراطِ زر بڑھ گیا،قحط پڑ گئے اور خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔
اب یہ لڑائی تیز ہو چکی ہے۔اب آہستہ آہستہ خبریں آ رہی ہیں کہ کس طرح 2016 ایک جمہوری حکومت کو مفلوج کیا گیا اور ہائبرڈ جمہوریت کا نظام قائم کیا گیا اور ایک ایسا وزیر ِاعظم لیا گیاجس کی پہچان ایک مدبر اورا سٹیٹسمین کے بجائے پلے بوائے کی ہے۔
ایک مخصوص گروہ اس کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور اب بھی یہی کام کررہا ہے، شرفاء کا جو ہمیشہ ٹیبل کے نیچے آمریتوں کا ساتھ دیتا رہا، ان کے ساتھ جڑا رہا اور اب اس ہائبرڈ جمہوریت کا بھی حصہ بنا۔
یوں لگتا ہے کہ اب دور بدل گیا ہے ، ستر سال سے بنا یہ بیانیہ اب آگے چلنے سے معذور ہے اور نیا بیانیہ بنانا مشکل ہے۔یہ غیر جمہوری قوتیں اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں مگر چونکہ ریا ست بھی اب بیٹھ چکی ہے تو وہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سب کا سلسلہ ایک ہے ، جو صف کی اِس طرف ہیں یا پھر اُس طرف مگروہ اگر اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں تو ان کو معافی ملنی چاہیے۔ ہم وسط ایشیا، ایران، افغانستان اور عربستان کی روایات و کلچر کے وارث نہیں ہیں، وہ خود اپنے اپنے کلچر و روایات کے مالک ہیں، انھیں ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہمیں ان کی ضرورت ہونی چاہیے۔
ہم وادی مہران و گندھارا کی تہذیب کے وارث ہیں، وہ بھرپور تہذیب و تمدن کے مالک تھے ،ارتقاء کی ان مسافتوں میں ہم پیچھے رہ گئے، اس لیے ایک معرکہ ہونا ہے، میدان سنبھالنا ہے۔
اگر روس ، یوکرین کو شکست دے دیتا جیسا کہ اس بارے میں شدید قیاس آرائیاں تھیں، تو یہاں آمریت پرست قوتیں اپنا اقتدار مضبوط کر لیتیں اور جمہوریت پسند قوتیں پسپا ہونی تھیں ۔خاں صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ روس کے خلاف تقریر پر جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔خان صاحب اس رات ماسکو بھی گئے تھے جب روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری مکمل کرلی تھی۔
خاں صاحب کو وہ تمام ممالک جو اس کرہ ارض پر ٹکراؤ میں ہیںکوئی اچھا نہیں جانتا، نہ امریکا،نہ چین، نہ ہی ہمارا پرانا دوست سعودی عرب! بند گلی میں پاکستان کو دھکیل دیا گیا، ایک ایسا ملک جو ایٹمی طاقت ہے اور خود اسی کی ایٹمی طاقت پر سوال ا ٹھنے لگے۔ ہم پر الزامات تو بہت لگے ہیں لیکن کبھی دیوالیہ ہونے کا خوف طاری نہیں ہوا لیکن اب یہ خوف بھی طاری ہے۔
اٹھارہویں ترمیم لانے والوں نے اس دفعہ آرٹیکل چھ کی تشریح وسیع کی تھی اور اس میں ان لوگوں کو بھی ڈالا تھا جو نظریہ ضرورت کے تحت ایسے شب خوں مارنے والوں کے سہولت کار تھے۔ اس ملک کے عوام اس وقت بھی کچھ نہ کرسکے جب حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ آئی،اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔
اس وقت دو بیانیہ ہیں ،ایک بیانیہ ہے انارکی کا،انتشار اور افرا تفری پھیلانے کا اور اس بیانیے میں وہ تمام لوگ حصہ ڈالتے ہیں جو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دورسے لے کر آج تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔ان ساٹھ برسوں میں وہ پنپ کر تناور درخت بن چکے ہیں، ان کی زیرزمین جڑیں اور اوپر شاخیں ریاست میں پیوست اور چھائی ہوئی ہیں ۔یہ بات اس وقت سمجھنے کی ہے کہ ہم اب اس دوراہے پر ہیں کہ یا تو ہم یہاں سے اپنی نئی راہیں متعین کریں یا پھر ختم ہوکر تاریخ کا حصہ بن جائیں۔
اس ملک میں آئین محفوظ نہیں۔آئین کو چلنے نہیں دیا جاتا جو مخصوص قوتیں ہیں ان کے مفادات اور اس ملک کے مفادات آپس میں ٹکراؤ میں ہیں ۔بہت تیزی سے turn around کرنے کی ضرورت ہے۔اداروں کو اپنے فطری محور پر جانا ہوگااوراپنی حد میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ایک مضبوط معیشت درکار ہے جو ٹھوس بنیادوں پر کھڑی ہو اور اس حساس مرحلے کو کم از کم دس سال درکار ہیں کہ یہ میچور ہو سکے۔
جمہوری پراسز جاری ہے لیکن توڑ پھوڑ اور انتشار پھیلانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ہائبر ڈ نظام تب تک جاری تھا جب تک ان کے handlers ان اداروں میں موجود تھے مگر جب تبدیلی آئی تو ہم نے جانا کہ ان اداروں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا کہ اس میں سرایت کی ہوئی ایک مخصوص سوچ کا تھا ، ان لوگوں کا تھا جو اس مخصوص سوچ کے اسیر ہیں اوران اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔
جب جنرل مشرف گئے تو جنرل کیانی کے لیے نئے نئے چیلنجز تھے۔ان اداروں کا وقار بھی بحال کرنا تھا ، جو جنرل مشرف کے زمانے میں تکرار ی بن چکا تھا۔جنرل اسلم بیگ پر بھی کچھ اسی طرح کی ذمے داری عائد ہوتی تھی لیکن اس وقت افغان جہاد کا جنون جاری تھا۔انھوں نے بھی strategic depth کی بات کرکے اسی پالیسی کو اپنایا جو جنرل ضیاء الحق چھوڑ گئے تھے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بحال کرنا ہے۔اس بات کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے نہ صرف یہ فلاحی ریاست ہے بلکہ یہ وفاق بھی ہے۔یہ ریاست تمام ثقافتی ، علاقائی اور لسانی اکائیوں اور تمام مذاہب اور فرقوں کو آزادی سے اپنی اپنی عبادات کرنے اور برابر کا شہری ہونے کا حق دیتی ہے۔
یہاں عورتوں کو مردوں کے برابر قانونی اور آئینی حیثیت حاصل ہے جو کہ حقیقتا ہونی بھی چاہیے۔یہاں میٹرک تک مفت تعلیم اور پینے کا صاف پانی بھی مہیا ہوناچاہیے۔انھیں بنیادی سہولیات کو قوم کے لیے یقینی بنایا جائے۔ ہم اس بھنور سے نکل آئیں گے مگر احتساب کا عمل شفاف ہونا چاہیے اوران لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جنھوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچا کر ہائبرڈ جمہوریت کا نظام متعارف کرایا۔
یہاں آمر آتے رہے،آئین ٹوٹتے رہے،وزرائے اعظم مرتے رہے، جلا وطن ہوتے رہے لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا بلکہ سب کو آئینی تحفظ ملتا رہا اور پارلیمنٹ بھی اپنے دستخط کررہی۔ برطانیہ کی تاریخ میں جنرل کروم ویل نے جب شب خوں مارا،وہ مرگئے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی لاش کو قبر سے نکالا گیا او رسر عام لٹکایا گیا تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
رومانیہ کے چا ئسکو کے ساتھ کیا ہوا اور اسی طرح ہٹلر کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،مگر ایسے ڈکٹیٹرز کی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں جنھوں نے شب خوں مارے اورجن کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا ہاں مگر ریاستوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ معیشتیں بگڑ گئیں، افراطِ زر بڑھ گیا،قحط پڑ گئے اور خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔
اب یہ لڑائی تیز ہو چکی ہے۔اب آہستہ آہستہ خبریں آ رہی ہیں کہ کس طرح 2016 ایک جمہوری حکومت کو مفلوج کیا گیا اور ہائبرڈ جمہوریت کا نظام قائم کیا گیا اور ایک ایسا وزیر ِاعظم لیا گیاجس کی پہچان ایک مدبر اورا سٹیٹسمین کے بجائے پلے بوائے کی ہے۔
ایک مخصوص گروہ اس کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور اب بھی یہی کام کررہا ہے، شرفاء کا جو ہمیشہ ٹیبل کے نیچے آمریتوں کا ساتھ دیتا رہا، ان کے ساتھ جڑا رہا اور اب اس ہائبرڈ جمہوریت کا بھی حصہ بنا۔
یوں لگتا ہے کہ اب دور بدل گیا ہے ، ستر سال سے بنا یہ بیانیہ اب آگے چلنے سے معذور ہے اور نیا بیانیہ بنانا مشکل ہے۔یہ غیر جمہوری قوتیں اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں مگر چونکہ ریا ست بھی اب بیٹھ چکی ہے تو وہ بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سب کا سلسلہ ایک ہے ، جو صف کی اِس طرف ہیں یا پھر اُس طرف مگروہ اگر اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں تو ان کو معافی ملنی چاہیے۔ ہم وسط ایشیا، ایران، افغانستان اور عربستان کی روایات و کلچر کے وارث نہیں ہیں، وہ خود اپنے اپنے کلچر و روایات کے مالک ہیں، انھیں ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہمیں ان کی ضرورت ہونی چاہیے۔
ہم وادی مہران و گندھارا کی تہذیب کے وارث ہیں، وہ بھرپور تہذیب و تمدن کے مالک تھے ،ارتقاء کی ان مسافتوں میں ہم پیچھے رہ گئے، اس لیے ایک معرکہ ہونا ہے، میدان سنبھالنا ہے۔
اگر روس ، یوکرین کو شکست دے دیتا جیسا کہ اس بارے میں شدید قیاس آرائیاں تھیں، تو یہاں آمریت پرست قوتیں اپنا اقتدار مضبوط کر لیتیں اور جمہوریت پسند قوتیں پسپا ہونی تھیں ۔خاں صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ روس کے خلاف تقریر پر جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔خان صاحب اس رات ماسکو بھی گئے تھے جب روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاری مکمل کرلی تھی۔
خاں صاحب کو وہ تمام ممالک جو اس کرہ ارض پر ٹکراؤ میں ہیںکوئی اچھا نہیں جانتا، نہ امریکا،نہ چین، نہ ہی ہمارا پرانا دوست سعودی عرب! بند گلی میں پاکستان کو دھکیل دیا گیا، ایک ایسا ملک جو ایٹمی طاقت ہے اور خود اسی کی ایٹمی طاقت پر سوال ا ٹھنے لگے۔ ہم پر الزامات تو بہت لگے ہیں لیکن کبھی دیوالیہ ہونے کا خوف طاری نہیں ہوا لیکن اب یہ خوف بھی طاری ہے۔
اٹھارہویں ترمیم لانے والوں نے اس دفعہ آرٹیکل چھ کی تشریح وسیع کی تھی اور اس میں ان لوگوں کو بھی ڈالا تھا جو نظریہ ضرورت کے تحت ایسے شب خوں مارنے والوں کے سہولت کار تھے۔ اس ملک کے عوام اس وقت بھی کچھ نہ کرسکے جب حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ آئی،اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔
اس وقت دو بیانیہ ہیں ،ایک بیانیہ ہے انارکی کا،انتشار اور افرا تفری پھیلانے کا اور اس بیانیے میں وہ تمام لوگ حصہ ڈالتے ہیں جو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دورسے لے کر آج تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔ان ساٹھ برسوں میں وہ پنپ کر تناور درخت بن چکے ہیں، ان کی زیرزمین جڑیں اور اوپر شاخیں ریاست میں پیوست اور چھائی ہوئی ہیں ۔یہ بات اس وقت سمجھنے کی ہے کہ ہم اب اس دوراہے پر ہیں کہ یا تو ہم یہاں سے اپنی نئی راہیں متعین کریں یا پھر ختم ہوکر تاریخ کا حصہ بن جائیں۔
اس ملک میں آئین محفوظ نہیں۔آئین کو چلنے نہیں دیا جاتا جو مخصوص قوتیں ہیں ان کے مفادات اور اس ملک کے مفادات آپس میں ٹکراؤ میں ہیں ۔بہت تیزی سے turn around کرنے کی ضرورت ہے۔اداروں کو اپنے فطری محور پر جانا ہوگااوراپنی حد میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ایک مضبوط معیشت درکار ہے جو ٹھوس بنیادوں پر کھڑی ہو اور اس حساس مرحلے کو کم از کم دس سال درکار ہیں کہ یہ میچور ہو سکے۔
جمہوری پراسز جاری ہے لیکن توڑ پھوڑ اور انتشار پھیلانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ہائبر ڈ نظام تب تک جاری تھا جب تک ان کے handlers ان اداروں میں موجود تھے مگر جب تبدیلی آئی تو ہم نے جانا کہ ان اداروں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا کہ اس میں سرایت کی ہوئی ایک مخصوص سوچ کا تھا ، ان لوگوں کا تھا جو اس مخصوص سوچ کے اسیر ہیں اوران اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔
جب جنرل مشرف گئے تو جنرل کیانی کے لیے نئے نئے چیلنجز تھے۔ان اداروں کا وقار بھی بحال کرنا تھا ، جو جنرل مشرف کے زمانے میں تکرار ی بن چکا تھا۔جنرل اسلم بیگ پر بھی کچھ اسی طرح کی ذمے داری عائد ہوتی تھی لیکن اس وقت افغان جہاد کا جنون جاری تھا۔انھوں نے بھی strategic depth کی بات کرکے اسی پالیسی کو اپنایا جو جنرل ضیاء الحق چھوڑ گئے تھے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بحال کرنا ہے۔اس بات کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے نہ صرف یہ فلاحی ریاست ہے بلکہ یہ وفاق بھی ہے۔یہ ریاست تمام ثقافتی ، علاقائی اور لسانی اکائیوں اور تمام مذاہب اور فرقوں کو آزادی سے اپنی اپنی عبادات کرنے اور برابر کا شہری ہونے کا حق دیتی ہے۔
یہاں عورتوں کو مردوں کے برابر قانونی اور آئینی حیثیت حاصل ہے جو کہ حقیقتا ہونی بھی چاہیے۔یہاں میٹرک تک مفت تعلیم اور پینے کا صاف پانی بھی مہیا ہوناچاہیے۔انھیں بنیادی سہولیات کو قوم کے لیے یقینی بنایا جائے۔ ہم اس بھنور سے نکل آئیں گے مگر احتساب کا عمل شفاف ہونا چاہیے اوران لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جنھوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچا کر ہائبرڈ جمہوریت کا نظام متعارف کرایا۔