بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخابی منشور
تھاانتظارجس کاوہ شاہکارآگیا لیجیے،بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے 2014 کے عام چناؤ کے لیے اپنی پارٹی کا منشورجاری کردیا
تھا انتظار جس کا وہ شاہکارآگیا لیجیے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے 2014 کے عام چناؤ کے لیے اپنی پارٹی کا منشورجاری کردیا۔اس کام میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی اس کا کوئی تسلی بخش جواب تو پارٹی کی جانب سے سامنے نہیں آیا مگر عوام کو یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ ''ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا'' بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کا آغاز گزشتہ پیر 8 اپریل کو ہوگیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی اور اس پوری مشق کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ انتخابی نتائج کو fool proof بنایا جاسکے۔بی جے پی کے منشور میں گورننس کے ویژن، معاشی اصلاحات، مرکز اور صوبوں کے تعلقات، تعلیمی نظام،ٹیکسوں کے نظام اور خارجہ پالیسی کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے جوکہ ایک فطری امر ہے کیونکہ یہ تمام شعبے بنیادی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
اگرچہ بی جے پی کی انتخابی مہم میں کرپشن کے خاتمے کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے لیکن عملاً تمام تر توجہ جس چیز پر مرکوز رہی ہے وہ ہے نریندر مودی کی شخصیت جنھیں ان کی جماعت کی جانب سے ایک کرشماتی شخصیت کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کی کامیابی سے بھارت کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو حلقوں میں نریندر مودی کو شروع سے ہی بہت مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گجرات کے ظالمانہ مسلم کش فسادات کے مرکزی کردار ہونے کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں میں ان کی ساکھ میں کوئی کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوا ہے اور ان کی دنیا بھر میں بدنامی کو ان کی سیاسی جماعت نے نیک نامی سے ہی تعبیر کیا ہے ۔گویا بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔
ہندوستان میں عام تاثر یہی ہے کہ ملک کے درمیانی طبقے کا ہندو ووٹ ان ہی کی حمایت میں پڑے گا۔ بھارت کے حالیہ عام چناؤ کا ایک نیا اور انتہائی اہم عنصر نوجوان ووٹرز کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے جن کی تعداد 10 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ رائے دہندگان اپنا وزن کس سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالیں گے یہ بڑا اہم سوال ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ ووٹرز اسی پارٹی کا رخ اختیار کریں گے جس کے بارے میں انھیں یہ یقین ہوگا کہ اس کے دور حکمرانی میں ترقی ہوگی اور ملک میں استحکام قائم ہوگا۔ ظاہرہ آثار یہی ہیں کہ بھارت کے نوجوانوں کا 10 کروڑ رائے دہندگان پر مشتمل یہ اہم حلقہ حکمراں کانگریس پارٹی کے طرز حکمرانی اور اس کی سابقہ کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی کو آزمایا جائے۔ یہ صورت حال کانگریس کے لیے پریشان کن اور بی جے پی کے لیے امید افزا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور پر اگر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پارٹی منشور سے زیادہ ذائقے دار ڈشوں پر مشتمل ایک مینیو ہے جس میں غالب اکثریت پر مشتمل رائے دہندگان کے لیے بڑی زبردست کشش موجود ہے۔ اس منشور کو اگر بارہ مسالے کی چاٹ کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس وسیع تر مینیو میں شامل آئٹموں کی فہرست بہت طویل ہے جو تمام اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں کرپشن کے خاتمے سے لے کر معاشی ترقی سمیت وہ تمام باتیں اور پہلو شامل ہیں جن میں عوام کو گہری دلچسپی ہے۔
اس میں خواتین کی فلاح و بہبودکو بھی نمایاں اہمیت دی گئی ہے اور سوشل سیکیورٹی کے متعدد پروگراموں کو اس مقصد سے شامل کیا گیا ہے جس میں روزگار کی فراہمی اور فوڈ سیکیورٹی کے کئی اہم پروگرام بھی شامل ہیں۔ ان پروگراموں کا سب سے زیادہ توجہ طلب اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں معذور افراد کی بحالی اور امداد کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس منشور کی ایک اور قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں ملک کی دیہی آبادی کو زیادہ سے زیادہ شہری سہولتیں فراہم کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ہمیں وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب حکمراں کانگریس پارٹی کی انتخابی مہمات کا سب سے زیادہ زور بھارت کے کسان پر ہوا کرتا تھا اور دو بیلوں کی جوڑی اس پارٹی کا انتخابی نشان اور ''کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی، ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی'' کانگریس کا مقبول انتخابی نعرہ ہوا کرتا تھا۔کانگریس کی کسانوں میں گرتی ہوئی ساکھ کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اب بی جے پی نے اپنی توجہ بھارت کے دیہی عوام پر مرکوز کردی ہے۔ دوسری جانب اس کی انتخابی مہم میں مزدور عوام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جن کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ بی جے پی کی یہ دو رخی انتخابی پالیسی اس کے انتخابی منشور کی کنجی ہے۔بی جے پی کے انتخابی منشور کی ایک اور اہم غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں خوردہ فروشوں کی حوصلہ افزائی کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا ہے کیونکہ ہندوستان میں خوردہ فروشی کا کاروبار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت میں گروسری شاپس کی تعداد کروڑوں پر مشتمل ہے۔ بی جے پی کی اس پالیسی پر جہاں خوردہ فروشوں کی صفوں میں خوشی کی بڑی زبردست لہر دوڑ گئی ہے وہیں دوسری جانب والی مارٹ اسٹورز جیسی دیگر بہت سی غیر ملکی ریٹیل کمپنیوں میں اس حوالے سے بڑی تشویش اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ اگر بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں پر نظر ڈالی جائے تو یہ محض Mission Statements دکھائی دیتے ہیں اور ان میں انتخابی منشور والی کوئی خوبی یا خصوصیت نظر نہیں آتی۔
بی جے پی کا منشورچار صفحات پر مشتمل ایک جامع دیباچے سے شروع ہوتا ہے جسے پارٹی کے بزرگ رکن مرلی منوہر جوشی نے تحریر کیا ہے جنھیں بی جے پی کے حلقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جوشی نے اس دیباچے میں ہندوستان کے تاریخی پس منظر اور اس کی اہمیت کی تصویر کشی کی ہے اور بڑے فخریہ انداز میں یہ بیان کیا ہے کہ ماضی میں بھارت کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔اپنی تمام جملہ خوبیوں اور خصوصیات سے قطع نظر بی جے پی کے انتخابی منشور کا سب سے بڑا عیب یا خامی یہ ہے کہ اس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہندوستانی مسلمانوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا جو بھارت کے تمام انتخابات میں ہمیشہ سے ایک توازن پیدا کرنے والی قوت رہے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ بھارتی مسلمان ہی تھے جن کے بل بوتے پر بھارت کی بانی حکمراں جماعت انڈین نیشنل کانگریس ایک طویل عرصے تک ایک ناقابل شکست سیاسی قوت بن کر مسند اقتدار پر پورے ٹھاٹ باٹ اور دھڑلے کے ساتھ براجمان رہی۔
اس وقت ہمیں بھارت کے جانے مانے بزرگ سیاست داں اور آزاد ہندوستان کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل آنجہانی سی راج گوپال آچاریہ کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو انھوں نے دہلی کے کمپنی گارڈن میں شام کے وقت مغرب میں ڈھلتے ہوئے سورج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہے تھے:''آپ دیکھ رہے ہیں کہ آب و تاب سے چمکتا ہوا سورج غروب ہو رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب اسی طرح کانگریس کا سورج بھی غروب ہوجائے گا۔'' کانگریس کے سالہا سال زوال میں سب سے بڑا تصور خود اس کی اپنی قیادت کا ہے جس نے نہ صرف بھارتی عوام کا بلکہ بھارتی مسلمانوں کا اعتماد اپنی غلط پالیسیوں اور غفلت کی وجہ سے کھودیا۔ اگرچہ بابری مسجد کا سانحہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی مکروہ اور انتہائی قابل مذمت سوچی سمجھی پالیسیوں کے نتیجے میں پیش آیا تھا تاہم اس دل خراش سانحے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس بنیادی طور پر ذمے دار ہے کیونکہ جس وقت ہندو غنڈے بابری مسجد کا انہدام کر رہے تھے اس وقت کانگریس پارٹی کا وزیر اعظم نرسیمہا راؤ پوجا پاٹ کا ڈراما رچا کر چپ سادھے ہوئے بیٹھا تھا۔ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔