پاکستانی پاپ موسیقی کا فاتح گلوکار

یورپ میں پاپ (pop) موسیقی کی ابتدا وکٹورین دور کی آخری دہائیوں میں ہوئی

khurram.sohail99@gmail.com

KARACHI:
یورپ میں پاپ (pop) موسیقی کی ابتدا وکٹورین دور کی آخری دہائیوں میں ہوئی، جب کہ امریکا میں اس کا آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہوا، جب پاپ گلوکاروں کے گائے ہوئے گیتوں کے ریکارڈز ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہونا شروع ہوئے۔ کہیں انفرادی حیثیت میں گلوکاروں کو شہرت ملی اور کہیں اجتماعی کاوشوں کے نتیجے میں بینڈز میوزک کا تصور مقبول ہوا۔ اس موسیقی میں ویڈیو بنانے کے تصور نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ گیتوں کی ویڈیوز بھی شائقین کے دل میں اپنی جگہ بنانے لگے اور اس انداز موسیقی میں ایک نیا رجحان متعارف ہوا۔ میوزک چارٹس نے اس موسیقی کو مزید بڑھاوا دیا، یوں پوری دنیا میں نوجوان اس کی طرف راغب ہوئے۔ نوجوان نسل کا اس موسیقی میں دلچسپی لینا فطری عمل تھا، کیونکہ یہ میوزک جذبات کے تلاطم پر انحصار کرتا ہے۔ کیفیات کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز سے ہی اس موسیقی کی جمالیات کا تعلق ہے، یہی وجہ ہے، ہر معاشرے نے اسے اپنے ثقافتی رنگ میں سمو کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ پاپ میوزک میں کئی طرح کا میوزک تخلیق کیا گیا، جن میں جیز، بلیوز، راک اور دیگر نوعیت کا میوزک شامل ہے۔

پاکستان میں پاپ موسیقی کی ابتدا 60ء کی دہائی میں فلمی انداز سے ہوئی۔ احمد رشدی کا مقبول گیت ''کوکورینا'' اس کی ایک مثال ہے۔ اسی دور میں رونا لیلیٰ کی گائیکی میں بھی یہ انداز جھلکتا ہے۔ خالصتاً پاپ موسیقی جسے نوجوانوں نے متعارف کروایا، اس کی ابتدا نازیہ حسن اور زوہیب حسن سے ہوتی ہے۔ 80ء کی دہائی میں انھوں نے سماعتوں میں پاپ موسیقی کا طلسم پھونک دیا۔ جب سے موجودہ دور تک سیکڑوں گلوکار اور بینڈز منظرعام پر آئے، جن میں کئی بہت معروف بھی ہوئے، مگر یہاں آج ایک ایسے گلوکار کا تذکرہ ہے، جس نے حقیقی معنوں میں پاکستان کو پاپ اور بالخصوص راک ( rock) میوزک سے آشنا کروایا۔

پاکستان میں جب پاپ اور راک میوزک کا رجحان بڑھا، تو اس کا ایک منفی پہلو یہ تھا کہ اس میں گائیکی سے زیادہ گلوکار اپنے ظاہری حلیے پر محنت کرتے تھے، پاکستان کی پاپ موسیقی میں گلوکاروں نے پھٹی پرانی جینز، بیہودہ انداز کے لمبے بال اور دیگر مختلف فیشن اپنائے، جن سے پاپ موسیقی کی تخلیقی سنجیدگی کو نقصان پہنچا اور لمحہ موجود میں رہی سہی کسر الیکٹرونک آلات اور ٹیکنالوجی نے پوری کر دی۔

پاکستانی پاپ اور راک میوزک کی تاریخ میں ایک ہی گلوکار ایسا نظر آتا ہے، جس نے اپنی زندگی موسیقی کے لیے وقف کر دی اور آج بھی جوش و جذبے کے ساتھ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے۔ اس کے کیریئر میں کئی موڑ آئے، مگر وہ استقامت سے اپنا کام کرتا رہا۔ اس گلوکار کا نام ''علی عظمت'' ہے۔ ممکن ہے کسی کو میری بات سے اتفاق نہ ہو، مگر ایک نظر اس فنکار کے کیرئیر پر ضرور ڈالیے، آپ کو میری وجہ پسندیدگی سمجھ آ جائے گی۔ علی عظمت نے اپنے میوزک کیریئر کی شروعات لاہور کے ایک مقامی بینڈ ''جوپیٹرز'' سے کی۔ اس بینڈ نے پاکستانی پاپ کو چار بہترین گلوکار دیے، جن میں علی عظمت کے علاوہ، جواد احمد، نجم شیراز اور یاسر اختر شامل ہیں۔ کچھ عرصہ کراچی میں بھی گزارا۔ نوے کی دہائی کے آخر میں علی اس بینڈ میں شامل ہوا تھا۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد اس نے نئے بننے والے بینڈ ''جنون'' میں شمولیت اختیار کی، اس بینڈ نے علی عظمت کی زندگی بدل ڈالی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بہت محنت کی۔

''جنون'' بینڈ میں گلوکار کی حیثیت سے اس نے 1990ء سے 2003ء تک تیرہ سال کام کیا۔ 10 البم میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ علی کو اس بینڈ کے ذریعے پوری دنیا میں شہرت ملی۔ کئی بین الاقوامی موسیقی کے چینلوں نے اسے اعزازات سے نوازا۔ جنون بینڈ ٹوٹنے سے پہلے موسیقی کی دنیا میں اپنی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ 1999ء میں اس بینڈ کو نیو دہلی میں چینل وی کی طرف سے ''بہترین بین الاقوامی بینڈ'' کا خطاب ملا، جب کہ اسی برس بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ان کو وہاں مدعو کر کے اس گیت کی فرمائش کی گئی اور پاکستان بھارت کی دوستی کے لیے یہ گیت گایا گیا۔2001ء میں علی عظمت کا کمپوز کیا ہوا پرانا گانا ''دوستی'' جس کو پھر سے ایک مرتبہ اقوام متحد ہ کی اسمبلی میں گایا گیا۔ یہ واحد بینڈ تھا، جس نے وہاں اپنی گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ علی ہی وہ واحد پاکستانی گلوکار ہے، جو 2002ء میں مغربی موسیقی کے سب سے بڑے ایوارڈ ''گریمی'' کے لیے نامزد ہوا۔


علی عظمت نے ایک پاکستانی ڈرامے ''تلاش'' کے لیے گایا اور پھر ''آنسو'' جیسے ڈرامے میں وقار علی کی موسیقی میں اس نے کمال کر دکھایا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کا گیت ''گرج برس'' بھارتی فلم ''پاپ'' میں پوجا بھٹ کی خواہش پر شامل ہوا اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کر دیے۔ اس کے بعد پوجا بھٹ کی ایک اور فلم ''جسم ٹو'' میں اس نے ''مولا'' اور ''یہ جسم ہے توکیا'' جیسے گیت گا کر خود کو فلمی گائیکی میں بھی منوا لیا۔ حتی کہ کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔

علی پاکستان کے ان چند گلوکاروں میں سے ہے، جس نے اونچے سروں میں بھی خود کو سُر میں رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاپ اور راک میوزک میں جس خاص انداز پر مرکوز ہونا پڑتا ہے، علی کی گائیکی اسی مدار پر محو سفر رہی۔ اس نے ہر طرح کا فیشن کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی گائیکی کو بھی پختہ کرتا چلا گیا۔ اس کو جب یہ محسوس ہوا کہ بینڈ کی گائیکی یکسانیت کا شکار ہو رہی ہے تو اس نے انفرادی حیثیت میں اپنے کیرئیر کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، اس کا یہ قدم اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ باصلاحیت گلوکار تھا، لیکن اس عرصے میں جو گیت علی نے گائے وہ ہمیں کسی اور علی کا چہرہ دکھاتے ہیں۔

عمومی طور پر علی کی شخصیت مزاح سے بھرپور رہی ہے، مگر اس عرصے میں اس کے اندر ایک تبدیلی آئی، وہ یہ کہ علی کی گائیکی صرف انٹرٹینمنٹ تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس کا رخ معاشرتی مسائل کی طرف ہو گیا۔ جس کا نتیجہ ''سوشل سرکس'' البم کی صورت میں نکلا، پھر دوسری البم ''کلاشنکوف'' ریلیز ہوئی۔ علی کا ایک گیت ''بم پھٹا'' مزاح کے انداز میں پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں کا رزمیہ ہے۔ اس کے دیگر گائے ہوئے گیت، مثلاً دیوانہ، نہ رے نہ، تیری پرچھائیاں اور دیگر گیت ایک پوشیدہ درد کی زبان بولتے محسوس ہوتے ہیں۔ حال ہی میں کوک اسٹوڈیو میں گایا ہوا اس کا گیت ''سانول'' بھی اس بات کی آئینہ داری کرتا ہے۔17 برس کی عمر میں گائیکی شروع کرنے والے اس گلوکار نے دنیا دیکھی۔ کئی غیر ملکی فنکاروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ درجنوں البمز میں اپنی آواز جگائی۔ دنیا کے بہترین اعزازات کے لیے نامزد ہوا، ان میں سے کئی ایک اپنے نام بھی کیے۔ کئی ڈراموں میں اداکاری کی ۔ جمیل دہلوی کی فلم ''جناح'' کا ٹائٹل گیت گا کر حب الوطنی کی گائیکی میں اپنا نام امر کر لیا۔

زندگی میں اتنی کامیابیاں سمیٹنے والے علی عظمت کو وقت نے کافی تبدیل کیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے اور نظام سے ناراض لگتا ہے۔ اس غصے کا اظہار اپنے کئی انٹرویوز میں برملا کر چکا ہے۔ اس کے گیت بھی اس غصے کی گواہی ہیں۔ ایسالگتاہے، اب اس نے غصے کے اظہار کے لیے بھی صرف موسیقی کو ذریعہ بنا لیا ہے، جب ہی ''بم پھٹا'' جیسے گیت تخلیق ہوتے ہیں۔ بھارتی فلم ''جسم ٹو'' میں گائے ہوئے گیتوں میں اس کے اندر کی اداسی پوری طرح شامل ہے، یہ وہی اداسی ہے، جو ہمیں، تیری پرچھائیاں، دیوانہ، سیونی، تارا جلا جیسے گیتوں میں نظر آتی ہے۔ یہ وہی گلوکار ہے، جس نے ''ہیریے نی'' جیسا شوخی سے بھرا ہوا گیت گایا تھا۔

25 برس سے علی عظمت اپنی آواز سے ہماری سماعتوں کو مسحور کر رہا ہے۔ اس نے سیکڑوں گیت گائے اور لاتعداد لوگوں کے ساتھ کام کیا، مگر اب یہ گوشہ نشین ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے گیت زمانے کی تلخیوں، معاشرے کی بے حسی، سیاسی بددیانت چہروں کا عکس لیے ہوئے ہیں۔ نیند آتی نہیں ساری رات، بھیگی یادیں، چلے تھے ساتھ ساتھ، حسن والو، میرا ماہی اور پپو یار تنگ نہ کر جیسے گیت علی کی گائیکی سے محو ہو گئے ہیں ۔

معاشرے میں پھیلی ہوئی بے چینی اور بدامنی کو جتنا عام آدمی محسوس کرتا ہے، ویسا ہی احساس فنکار کے دل میں بھی ہوتا ہے۔ علی عظمت جیسا شوخ فنکار اگر خاموش ہو گیا ہے اور اس کی گائیکی میں آنے والی تبدیلی، نہ جانے یہ شعوری ہے یا لاشعوری مگر یہ تبدیلی ہمیں ہمارے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات دکھا رہی ہے۔
Load Next Story