بلوچستان سے ایک خبر

خبر کی عمومی تعریف کا معروف مقولہ ہے کہ کتا اگر انسان کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں لیکن انسان اگر کتے کو کاٹ لےتو یہ خبرہے

khanabadosh81@gmail.com

اصل قصے سے پہلے آئیے اصل 'خبر' پہ بات کرتے ہیں۔

خبر کی عمومی تعریف کا معروف مقولہ ہے کہ کتا اگر انسان کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں لیکن انسان اگر کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے۔اس تعریف کی رو سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں ایک اسکول کے طلبہ امتحانات میں نقل کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو یہ خبر نہیں ہو گی لیکن اگر ایک اسکول کے طلبہ بنا ایک لفظ نقل کیے امتحان پاس کر لیں تو اسے خبر ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان کے مرکزی ذرایع ابلاغ میں جیسے بلوچستان کی کئی خبریں 'خبر' کے زمرے میں ہی نہیں آتیں، اسی طرح یہ خبر بھی کسی شہ سرخی میں جگہ نہ بنا سکی۔حالانکہ یہ اس زاویے سے بھی مرکزی خبر بنتی ہے کہ یہ خبر بلوچستان کے اُس خطے سے ہے، جو ان دنوں مسلح تصادم کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات ہے تربت کی، جس کی ان دنوں بری طرح درگت بنی ہوئی ہے۔یہاں کے ایک نجی اسکول کی انتظامیہ نے نقل کلچر کی روک تھام کے لیے اپنے تئیں ایک کوشش کی۔ اس کا آغاز انھوں نے اپنے گھر سے کیا۔

اس اسکول میں شروع سے ہی نقل نامی مخلوق کو سے طلبہ کو دور رکھا گیا۔ انھوں نے میٹرک کے اپنے پہلے بیچ کے طلبہ کو ذہنی طور پر تیار کیا کہ بورڈ کے امتحانات میں بھی نقل نہ ہو گی۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ نویں جماعت کے امتحانات کے دوران امتحانی سینٹر میں سوائے ان چند طلبہ کے باقی سب نقل کے تمام ذرایع استعمال کرتے رہے۔ اس سے ایک تو نقل نہ کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں تو دوسری طرف دیگر نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچے پڑھانے والے والدین نے سوالات اٹھائے کہ جب ایک اسکول کے بچے نقل کے بغیر امتحان دے سکتے ہیں تو ہمارے بچے کیوں نہیں د ے سکتے۔ یوں منڈی کی مسابقت کا معاملہ درپیش ہوا۔ اسکول انتظامیہ کے پاس اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے طلبہ کے لیے الگ امتحانی سینٹر کا انتظام کرے۔ اس میں دو قباحتیں تھیں۔ اول یہ کہ محض پندرہ ،بیس طلبہ کے لیے بورڈ الگ سینٹر کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا، دوم الگ سینٹر کے لیے ایک الگ فیس جمع کرانی پڑتی ہے جو لاکھوں روپے میں تھی۔ اسکول انتظامیہ نے بورڈ کو تمام اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی۔ نیز چیئرمین بلوچستان بورڈ کے سامنے اصل معاملہ بھی گوش گزار کیا۔ اس مردِ مومن نے بھی اس نیک کام میں اسکول انتظامیہ کا ساتھ دیتے ہوئے الگ امتحانی سینٹر کی منظوری دے دی۔

یوں میٹرک کے رواں سال کے امتحانات میں اس اسکول کے طلبہ نے الگ سینٹر پہ امتحان دیا۔ جہاں بورڈ کے عملے کے ساتھ اسکول کے پرنسپل بھی موجود رہے۔ اور ایک لفظ نقل کیے بنا طلبہ نے اپنے تمام پرچے نہایت سکون سے حل کیے ۔میں نے اس امتحان میں شریک ایک طالب علم سے امتحان کاحال پوچھا تو اس کا جواب تھا، 'اس سال ہم نے نہایت سکون سے پرچے دیے، کیونکہ ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ پرچے خود سے حل کرنے ہیں، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ ' یہ طلبہ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ اب وہ کہیں بھی بنا نقل کے کسی بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ پہلی جماعت سے ان کے ذہن میں نقل کا کوئی تصور نہیں رہا۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کی تعلیمی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے اور بلاشبہ کامیاب تجربہ ہے۔آئیے اب اس خبر سے جڑی کچھ اور خبریں دیکھتے ہیں:آج سے کوئی سات، آٹھ سال قبل(بالخصوص اکبر بگٹی کے قتل کے بعد) بلوچستان یونیورسٹی میں مکران سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں ایک دم کئی گنا اضافہ دیکھا گیا۔ نہ صرف اتنا بلکہ اکثر شعبوں میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت بھی انھی میں سے تھی۔ بلوچستان کے عمومی طلبہ کے برعکس ان سب کی انگریزی نہایت شستہ اور رواں تھی۔ اکثر اساتذہ تک حیرت سے پوچھتے یہ بظاہر سیاہ رنگت کے کمزور بدن کے لوگ کہاں سے پڑھ کے آئے ہیں؟ جواب ملتا،'ڈیلٹا!' ۔ ڈائنامک انگلش لینگویج ٹیچنگ اکیڈمی (ڈیلٹا) نامی اس ادارے کی بنیاد نئے ہزاریے کے آغاز میں یہاں کے ایک نئے کالج لیکچرر برکت اسماعیل نے رکھی، جو خود بھی انگلش کے استاد تھے۔ آنے والے چند برسوں میں اس ادارے نے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک کھیپ پیدا کر دی۔ جنھوں نے کراچی سے کوئٹہ تک اپنا اور ادارے کا نام پیداکیا۔


انگلش لینگویج کے ادارے لگ بھگ اب ہر شہر، ہر قصبے میں موجود ہیں، جو طلبہ کو انگریزی میں لکھنا ، پڑھنا، بولنا سکھا دیتے ہیں جس سے ان کے لیے نوکری کا حصول آسان ہو سکے۔ لیکن اس ادارے کی کچھ باتیں اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ جیسے یہاں انگریزی کے ساتھ ساتھ طلبہ کی فکری تربیت بھی کی جاتی ہے۔ انھیں مطالعے کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے انھیں دنیا بھر کے انقلابی ادب سے روشناس کرایا جاتا ہے۔بلوچستان کے نام ور دانش وروں کو لیکچر کے لیے بلایا جاتا ہے۔ طلبہ کے لیے فکری مباحثوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔تیزی سے پھیلتے ڈیلٹا سینٹرسے جلد ہی اسی نام سے ایک نجی اسکول کی بنیاد پڑی۔ آنے والے چند برسوں میں جس کے تربت شہر میں تین کیمپس قایم ہو چکے۔ سن دوہزارسات میں اس اسکول نے ایک اور منفرد روایت قایم کی۔ انھوں نے پرائمری کی سطح پر بلوچی زبان کی تعلیم کا اہتمام کر ڈالا۔ واضح رہے کہ تب تک حکومتی سطح پر اس کا کوئی رواج نہ تھا۔ انھوں نے بلوچ ادبا اور ماہرین لسانیات کی مدد سے قاعدے بنوائے، اساتذہ کی تربیت کی اور اس سلسلے کا آغازکر ڈالا۔نیز ایک اور منفرد اقدام یہ کیا کہ اسکول کے بچوں کی یونی فارم کو بھی 'مقامی' بنا ڈالا۔ بچوں کے لیے روایتی سفید شلوار قمیض اور بچیوں کے لیے روایتی بلوچی کشیدہ کاری پہ مبنی لباس۔ یہ سلسلہ بھی خوب چلا اور دیگر ادارے بھی اس نقشِ قدم پہ چل نکلے۔اپنے طلبہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس ادارے سے ایک اور ادارے کی بنیاد پڑی؛ ڈیلٹا بک شاپ۔ یہاں نصابی کتاب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتب کا بھی انبار لگنے لگا۔ یہ تربت میں اپنی نوعیت کی کتابوں کی پہلی بڑی دکان تھی۔ کراچی کے بعض پبلشرز نے تو اسی کی بنیاد پہ اپنا کاروبار چمکایا۔ بلوچستان سے متعلق شایع ہونے والی کئی کتابیں سیکڑوں کی تعداد میں یہاں سے بکتیں۔ چند برس قبل انھوں نے ایک اور ادارے کی مدد سے تربت میں وسیع پیمانے پہ سالانہ کتاب میلے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اندرونِ بلوچستان اپنی نوعیت کی منفرد سرگرمی تھی۔

اس وقت ڈیلٹا سینٹر اور اس کے تینوں کیمپس میں مجموعی طور پر پانچ ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں،جب کہ اسٹاف کی مجموعی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے۔مستقبل میں یہ ادارہ ایک کالج اور یونیورسٹی تک پھیلنے کا خواب رکھتا ہے۔

اور اس سے جڑی خبروں میں سے تازہ خبر یہ ہے کہ آج سے چند ماہ قبل ڈیلٹا سینٹر پہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے چھاپا مارا گیا۔ (درحالانکہ یہ چھاپہ سینٹر سے ملحقہ ایک کوارٹر پہ لگا لیکن سرکاری خبر میں اسے لینگویج سینٹر بتایا گیا)مبینہ طور پر 'ملک دشمن مواد' کی برآمدگی ہوئی، اور ڈیلٹا سینٹر کے ایک استاد کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ جس کے بعد سے یہ سینٹر مکمل طورپر بند ہو چکا ہے۔اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گزشتہ برس شایع ہوئی بلوچی شاعر ی کی ایک کتاب کی فروخت کے جرم میں ڈیلٹا بک شاپ پہ چھاپہ مارکردکان کے مالک کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ جس کے بعد سے بک شاپ پہ بھی تالے پڑ چکے ہیں۔ ادارے کی انتظامیہ اپنے تینوں کیمپس کے مستقبل کے اندازے لگا رہی ہے۔

کیا یہ خبریں مزید کسی تبصرے اور تجزیے کی محتاج ہیں؟
Load Next Story