شخصیاتی نظریاتی اور مفاداتی ووٹ
عمران خان کی جیل بھرو تحریک مکمل ناکام رہی کیونکہ ان کے ساتھ چوری کھانے والے مجنوں موجود ہیں جو جیل نہیں جانا چاہتے
حال ہی میں ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 193 پر ضمنی انتخاب ہوا جس میں ایک ٹی وی اینکر کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار محسن لغاری نے جتنے ووٹ لیے اتنے ووٹ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت دس امیدواروں کے اجتماعی ووٹ بھی نہیں تھے۔
اس حلقے میں ضمنی انتخاب سردار جعفر خان لغاری مرحوم کی نشست پر ہوا جہاں اس سے قبل جعفر خان لغاری نے ماضی میں مسلم لیگ(ق)، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس حلقے میں مرحوم کا تقریباً ایک لاکھ ذاتی ووٹ تھا جو ان کی اپنی شخصیت کو ہمیشہ ملا کرتا تھا اور تینوں پارٹیوں کا کوئی قابل ذکر ووٹ نہیں تھا اور مرحوم نے تینوں بڑی پارٹیوں کے ٹکٹ پر جو کامیابی حاصل کی اس میں دخل کسی پارٹی کا نہیں بلکہ جعفر خان کے اپنے شخصیاتی ووٹ کا تھا جس کے باعث وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے تھے۔
ضمنی انتخاب میں مرحوم کے فرسٹ کزن محسن لغاری نے تقریباً نوے ہزار، مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کے جنرل سیکریٹری اویس لغاری کے بیٹے عمار لغاری نے تقریباً 55 ہزار اور پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر علی گورچانی نے تقریباً بیس ہزار ووٹ لیے۔
اس نشست پر کامیابی پر عمران خان اور پی ٹی آئی نے کوئی خاص جشن منایا نہ موجودہ صورت حال میں کامیابی پر بیان بازی کی کیونکہ انھیں پتا تھا کہ محسن لغاری کی کامیابی عمران خان یا پی ٹی آئی کی مقبولیت کے باعث نہیں بلکہ مرحوم جعفر خان کی اپنی شخصیت اور ان سے ہمدردی کے باعث ہوئی جس میں عمران خان کی شخصیت اور پی ٹی آئی کے نظریے کا کوئی دخل نہیں تھا۔
اس حلقے میں دو بااثر لغاری سرداروں کے درمیان مقابلہ تھا جہاں (ن) لیگ کے امیدوار کو ملنے والا ووٹ میاں نواز شریف کی وجہ سے نہیں بلکہ سردار اویس لغاری کا شخصی ووٹ تھا جو سابق صدر فاروق خان لغاری کے صاحبزادے ہیں اور مرحوم صدر ڈیرہ غازی خان سے اور مرحوم جعفر خان راجن پور سے الیکشن باہمی مفاہمت کے باعث لڑ کر کامیاب ہوا کرتے تھے مگر اویس لغاری نے وہ دیرینہ مفاہمت ختم کرکے اپنے جواں سال صاحبزادے کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑایا اور خود نہیں لڑا۔ ڈی جی خان اور راجن پور قبائلی اور پس ماندہ اضلاع ہیں جہاں کسی پارٹی کا نہیں بلکہ سرداروں کا ذاتی ووٹ ہے۔
جام پور تحصیل میں فاروق لغاری کا مشہور چوٹی کا علاقہ بھی شامل ہے جو سابق صدر کا آبائی علاقہ ہے۔ سردار جعفر لغاری اور مرحوم صدر کی مفاہمت ختم ہونے کا اور پی پی کا اپنا امیدوار لانے کا بھی اثر پڑا جس کا کچھ فائدہ پی پی نے اٹھانے کی کوشش کی اور اپنا امیدوار بھی کھڑا کیا جو گورچانی تھا ۔
کسی بڑی پارٹی کی کسی مرکزی قیادت نے یہاں کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی اور حلقے میں علاقائی شخصیات نے اپنے ووٹر نکالے مگر 2018 کے 55 فیصد کے ٹرن آؤٹ کے مقابلہ میں ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا جو پھر بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ملک میں متعدد ایسے سیاستدان ہیں جن کے اپنے آبائی حلقے ہیں جہاں ان کا ذاتی ووٹ سیاسی پارٹیوں سے کہیں زیادہ ہے جو الیکٹ ایبل کہلاتے ہیں انھیں کسی سیاسی پارٹی کی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
2013 تک ایسے بااثر لوگ پی ٹی آئی میں نہیں تھے جس کی وجہ سے عمران خان ناکام رہے اور ان کا جادو صرف کے پی میں چل سکا جہاں انھوں نے خود کو خان کے نام سے مشہور کرایا جب کہ وہ میانوالی کے نیازی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے موجودہ سیاسی مخالفین خصوصاً شریف فیملی انھیں عمران خان کے بجائے عمران نیازی کہتی ہے۔
کے پی میں کرکٹ کے باعث عمران خان مشہور تھے اور (ن) لیگ اور پی پی کی کے پی حکومتوں سے مایوس کے پی کے عوام نے 2013 میں عمران خان کی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ دیے تھے اور پی ٹی آئی نے وہاں پہلی بار مخلوط حکومت بنائی تھی اور حیرت انگیز طور پر 2018 میں بھی پی ٹی آئی کو واضح اکثریت ملی یا بالاتروں نے دلائی کیونکہ کے پی کے عوام ایک بار آزمانے کے بعد اسی پارٹی کو نہیں ووٹ دیتے اور پی ٹی آئی نے وہاں دوسری بار حکومت بنائی مگر کامیابی دلانے والے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بجائے عمران خان نے کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بالاتروں اور جہانگیر ترین نے بنوائی تھی جو اب عمران خان پر کیا گیا احسان بھگت رہے ہیں۔
پنجاب میں زیادہ نشستیں مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی تھیں اور پنجاب و کے پی میں عمران خان کو ضمنی الیکشن میں اپنی ہی نشستوں پر شکست ہوئی تھی اور عمران خان کا سحر نہیں چل سکا تھا اور صراف کراچی میں کامیابی ملی تھی۔
سندھ میں پی پی سے زیادہ آصف زرداری کا سحر اور بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر کی موت پر سیاست چل رہی ہے اور سندھ میں پی پی کی تیسری حکومت اس لیے ہے کہ سندھ کے تمام اہم سیاستدان اور الیکٹ ایبل پی پی میں شامل ہیں اور پی پی نے سندھ کے ان اہم افراد کو مالی مراعات اور عام لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دیں اور سندھ میں آصف زرداری کی سیاست بھٹو اور بے نظیر سے زیادہ کامیاب ہے۔
ہر پارٹی میں نظریاتی اور مفاداتی کارکن اور رہنما ہیں جو سالوں سے اپنی پارٹی میں نظریہ کے باعث چلے آ رہے ہیں جب کہ موقعہ پرست اور مفاد پرست بھی ہیں جو ماضی میں تقریباً ہر پارٹی میں رہے اور سیاسی وفاداری اور پارٹی بدلتے رہے ہیں۔
سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اور دیہی علاقوں میں پی پی کا نظریاتی ووٹ موجود ہے اور اکثر پی ٹی آئی رہنما اب تک عمران خان کے ساتھ ہیں کہ انھیں عمران خان کی مقبولیت میں اپنا سیاسی مفاد نظر آ رہا ہے۔
عمران خان کی جیل بھرو تحریک مکمل ناکام رہی کیونکہ ان کے ساتھ چوری کھانے والے مجنوں موجود ہیں جو جیل نہیں جانا چاہتے اور جس پارٹی کا چیئرمین خود جیل سے خوف زدہ ہو تو اس کے کارکن کیوں جیل جائیں؟ جیلوں میں مفاداتی لوگ نہیں بلکہ نظریے سے وابستگی رکھنے والے رہنما اور کارکن جایا کرتے ہیں۔