مریم نواز کی تشخیص

عمار مسعود سوال کرنے والے ہوں اور بات کرنے والی مریم نواز، اس کے باوجود کوئی دھماکا نہ ہو، یہ ممکن نہیں


[email protected]

مریم نواز نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ عمار مسعود سوال کرنے والے ہوں اور بات کرنے والی مریم نواز، اس کے باوجود کوئی دھماکا نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔

عمار مسعود کا شمار بھی ہمارے جیسے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ادب سے شروع ہوئے اور صحافت تک پہنچے پھر اسی کے ہو رہے۔ ادب اگرچہ اب بھی ان کے رگ و پے میں بستا ہے اور خوشبو دیتا ہے لیکن آخر روزی روٹی بھی تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے لہٰذا اب وہ ادیب ہوتے ہوئے بھی صحافی ہیں۔

شاعر کی طرح صحافی پر ایک لمحہ ایسا آتا ہے جسے وہ پہچان لے اور قدرت کی عطا سمجھ کر مضبوطی سے اسے پکڑ لے تو پھر کامیابیوں کے راستے کھل جاتے ہیں۔ عمار آج اسی راستے کے راہی ہیں اور انھوں نے اسی سفر کے آغاز پر مریم نواز سے گفتگو کی ہے۔ گویا یہ ذکر ہے وی نیوز کا جس سے گفتگو میں مریم نواز نے مطالبہ کیا ہے کہ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

فی الحال جنرل فیض حمید کا معاملہ ایک طرف رکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے سماج میں آخر ایسی کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے؟ ہمارے یہاں اہل سیاست اور عسکری اداروں کے درمیان کشمکش کا معاملہ یوں کہہ لیا جائے کہ روزا وّل سے ہی چل رہا ہے تو اس بیان میں کچھ ایسی غلطی نہ ہوگی۔ا س کشمکش میں جمہوریت کئی بار روندی گئی اور اس دار و گیر میں عوام تو خیر کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں کئی نام ور لوگ بھی کھیت رہے۔

ہم لوگ اس داستان کا آغاز اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو سے کیا کرتے ہیں لیکن تاریخ اس سے کہیں پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کا قتل فراموش کر دینے والا واقعہ ہرگز نہیں ہے۔

دراصل یہی وہ واقعہ جس نے ہمارے دیس میں جمہور کی حکمرانی کی بنیادیں کمزور کیں، اس کے بعد وہ ہوا جس کے ذکر سے تاریخ بھی لرزتی ہے۔ پھر بھٹو صاحب کی شہادت ہے، اس کے بعد نواز شریف کی بار بار جلا وطنی ہے۔

اہل سیاست سے نفور کے عادی لوگ ایسے واقعات پر ناک بھوں چڑھا کر کسی مفروضہ لوٹ مار کا جواز بنا کر ان مظالم کو بعض موہوم جرائم کے ملبے تلے دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت بالآخر کھل کر رہتی ہے۔

لوگوں کی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس طرز عمل کا نتیجہ ان کی زندگی پر کیا مرتب ہوا۔ پون صدی کے تجربات کے بعد دو باتیں قوم کی سمجھ میں آئی ہیں۔ یہ باتیں کیا ہیں؟مارشل آرٹ کا ایک بنیادی اصول ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

جو نوجوان جو مارشل آرٹس یعنی جوڈو اور کراٹے سیکھنے کے لیے متعلقہ اداروں کا رخ کرتے ہیں، ان سے پہلے ہی روز ایک حلف لیا جاتا ہے۔ ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ مہلک اسلحے کے بغیر انھیں اپنے جسم میں چھپی ہوئی جس طاقت سے روشناس کرانے اور اس کے استعمال کے طریقے بتائے جائیں گے، وہ انھیں کسی کمزور، غیر مسلح فرد یا غیر متعلق لوگوں کے خلاف استعمال کبھی نہیں کریں گے۔

یہ اس کھیل کا بنیادی اصول ہے اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مارشل آرٹ میں درک رکھنے والا کوئی بھی کھلاڑی کبھی اس اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اگر کوئی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے، اسے برادری سے نکال کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

اپنے پون صدی کے تجربات کے بعد پاکستانی عوام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ ایک ایسی گڑبڑ جس کے نتیجے میں اقوام عالم میں ان کا وقار اور اعتبار ختم ہی نہیں ہوا بلکہ معاشرے میں موجود وہ طور طریقے جو مسائل سے نمٹنے کے لیے قدرت قوموں کو ارزاں کرتی ہے، اس کا ذخیرہ بھی قریب الختم ہے گویا سماج کو گھن لگ چکا ہے۔

ان کا خیال یہ بھی ہے کہ یہ جو آج ان کا رزق تنگ ہو چکا ہے، ہو نہ ہو، ان کا تعلق بھی کھیل کے اصول توڑنے سے ہی جڑا ہوا ہے۔ ان معاملات کا رزق کی تنگی سے کیا تعلق ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے ایک بیان کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کی جائے جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت مند کاروباری مسابقت بحال کیے بغیر معیشت مستحکم نہ ہو سکے گی۔

قومی تاریخ کے مختلف مراحل پر بہت سے لوگوں نے یہ عقدہ حل کرنے کی کوشش کی اور درست نتیجے پر پہنچ کر قوم کو اس سے آگاہ بھی کیا لیکن یہ بھی قدرت کا ایک اصول ہے کہ جب تک مرض کی تمام علامات پوری طرح نمایاں نہ ہو جائیں، مریض علاج کی طرف آمادہ نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عین وہی وقت ہے۔

خلد آشیانی غوث بخش بزنجو فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان میں جس روز مرکنٹائل کلاس سیاست کا حصہ بن گئی اور اس کا تعلق بھی پنجاب سے ہوا تو سمجھ لیجیے گا کہ اس ملک کے دکھ دور ہو گئے۔ مرحوم و مغفور خان عبدالولی خان نے بھی یہی اصول اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔

ہماری قومی تاریخ کے اس مشکل اور تکلیف دہ عہد میں یہ اعزاز میاں نواز شریف کو حاصل ہو گیا ہے جنھیں جوڈو اورکراٹے کے رولز آف دی گیم کی خلاف ورزی کا شدت سے اندازہ بھی ہوا اور تجربہ بھی۔ اس تجربے کے بعد وہ خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ انھوں نے اس کے خلاف پوری طاقت سے آواز بھی بلند کی اور خمیازہ بھگتا۔

یہ بھی تاریخ کا کوئی راز ہی ہو گا کہ میاں نواز شریف نے جس مسئلے کی نشان دہی کی، اس کی مزید وضاحت کرنے اور اسے عوامی لب و لہجے میں عوام تک مؤثر انداز میں پہنچانے کا اعزاز ان کی صاحب زادی کو حاصل ہو رہا ہے۔ عمار مسعود کو ان کا انٹرویو تاریخ میں اس لیے یاد رکھا جائے گا کہ یہی انٹرویو ہے جس میں انھوں نے پورے تاریخی سیاق و سباق کے ساتھ یہ عقدہ کھولا اور مسئلے کے حل کا طریقہ بیان کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے Make or break یعنی بناؤ اور بگاڑ کے مرحلے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس تاریخی مرحلے پر قوم محض کسی ایک طبقے یا فریق کو ٹارگٹ کر رہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی راستہ مکمل سچائی کی طرف جاتا ہے۔ یہی بات ہے جس کی نشان دہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ صاحب نے بھی یہ سوال اٹھا کر کی ہے کہ ادارہ خود سوچے کہ صرف دو تین ججوں پر ہی تنقیدکیوں ہو تی ہے؟

اعظم نذیر تارڑ نے محض مسئلے کی نشان دہی کی ہے لیکن اس کا ردعمل بھی ہوا ہے ۔ اعتزاز احسن صاحب اسی پر پیچ و تاب کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

اعتزاز احسن کی پریشانی اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ قدرت نے ہمیں سنبھلنے کا ایک اور موقع عطا کر دیا ہے۔ قیادت اپنے مفادات کی پروا کیے بغیر جدوجہد پر آمادہ ہے۔ ریاست کے اسٹیک ہولڈر بھی بات کو سمجھ رہے ہیں اور اصلاح کی خواہش رکھتے ہیں۔ بس، کچھ چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں رہ گئی ہیں ' بیدار قوم کا ریلا ان سب رکاوٹوں کو بہا کر لے جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں