اسلام آباد میں مساج سینٹر پر چھاپہ مارنے والوں پر مقدمہ درج کرنے کا حکم
اسلام آباد کو درہ آدم خیل نہ بنائیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں مساج سنٹر پر پولیس اور مجسٹریٹ کا چھاپہ غیر قانونی قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مساج سنٹر پر جعلی صحافیوں کے چھاپے اور رقم بٹورنے کے خلاف شہری شاہ فیصل کی مقدمہ اندراج کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام ذمہ داروں کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کو درہ آدم خیل نہ بنائیں، غیر قانونی چھاپےمیں مجسٹریٹ ملوث تھے توان کیخلاف بھی کارروائی کی جائے، پولیس نے شفاف تحقیقات نہ کیں تو کیس ایف آئی اے، آئی ایس آئی یا نیب کو دیں گے، ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کر کے دس دن میں رپورٹ پیش کریں۔
درخواست گزار نے وضاحت کی کہ چھاپہ مار ٹیم کے ہمراہ پولیس یا مجسٹریٹ موجود نہیں تھے، پرائیویٹ میڈیا پرسنز بن کر چھاپہ مار کر 5 لاکھ 75 ہزار روپے وصول کیے، واقعہ کی شکایت پر پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی، رقم واپسی کے تقاضے پر واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ فوٹیج کے مطابق پرائیویٹ افراد نے چھاپہ مارا، دروازوں پر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکالا اور مار پیٹ کی، ان افراد نے وائرلیس تھام رکھے تھے اور کاؤنٹرز سے رقم بھی وصول کی۔
عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو انکوائری کر کے ذمہ داران کے تعین کا حکم دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مساج سنٹر پر جعلی صحافیوں کے چھاپے اور رقم بٹورنے کے خلاف شہری شاہ فیصل کی مقدمہ اندراج کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس اور انتظامیہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام ذمہ داروں کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کو درہ آدم خیل نہ بنائیں، غیر قانونی چھاپےمیں مجسٹریٹ ملوث تھے توان کیخلاف بھی کارروائی کی جائے، پولیس نے شفاف تحقیقات نہ کیں تو کیس ایف آئی اے، آئی ایس آئی یا نیب کو دیں گے، ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کر کے دس دن میں رپورٹ پیش کریں۔
درخواست گزار نے وضاحت کی کہ چھاپہ مار ٹیم کے ہمراہ پولیس یا مجسٹریٹ موجود نہیں تھے، پرائیویٹ میڈیا پرسنز بن کر چھاپہ مار کر 5 لاکھ 75 ہزار روپے وصول کیے، واقعہ کی شکایت پر پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی، رقم واپسی کے تقاضے پر واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ فوٹیج کے مطابق پرائیویٹ افراد نے چھاپہ مارا، دروازوں پر دستک دے کر لوگوں کو باہر نکالا اور مار پیٹ کی، ان افراد نے وائرلیس تھام رکھے تھے اور کاؤنٹرز سے رقم بھی وصول کی۔
عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو انکوائری کر کے ذمہ داران کے تعین کا حکم دیا۔