خالی پنجرے اور بیمار جانور کراچی چڑیا گھر تباہی کی تصویر بن گیا
فنڈز میں کرپشن کے باعث جانور خوراک سے محروم، دو شیروں کی موت کے بعد ہتھنی بھی شدید بیمار ہوگئی
پاکستان کے سب سے بڑے کراچی چڑیا گھر میں جانوروں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں، دو شیروں کی موت کے بعد ہتھنی بھی شدید بیمار ہوگئی۔
مسلسل عوامی شکایات موصول ہونے پر ایکسپریس کی ٹیم چڑیا گھر پہنچی تو کئی گھنٹوں تک اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، طویل انتظار کے بعد جب ٹیم نے چڑیا گھر کا دورہ کیا تو انکشاف ہوا کہ چڑیا گھر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والی ملکہ نور جہاں نامی ہتھنی شدید بیمار ہے، ہتھنی کا پچھلا حصہ مکمل طور پر جھک گیا ہے جس کی وجہ سے اُسے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ہتھنی نورجہاں پچھلے دو ماہ سے جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا ہے جس سے اس کا پچھلا حصہ جزوی طور پر مفلوج ہوگیا ہے، 2009 میں چڑیا گھر میں مدھو بالا اور ملکہ نور جہاں کو کم عمری میں لایا گیا تھا، اس وقت ہتھنیوں کی عمر 17 سال ہے، چند ماہ قبل دونوں ہتھنیوں کے دانتوں میں انفیکشن بھی ہوا تھا جس کے علاج کے لیے بیرون ملک سے ٹیم آئی تھی۔
اس حوالے سے ایکسپریس نے متعدد بار ڈائریکٹر چڑیا گھر خالد ہاشمی کا موقف لینے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات نہیں کی۔ خالد ہاشمی نے چڑیا گھر میں داخل ہوتے وقت نمائندہ ایکسپریس کو انتہائی تکبرانہ لہجے میں کہا کہ میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو نہیں مانتا، میرا رابطہ براہ راست ناصر شاہ سے ہے۔
چڑیا گھر آنے والے شہریوں نے اس صورتحال پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ چڑیا گھر آنے والے بچے حسین علی نے کہا کہ وہ فیملی کیساتھ یہاں جانور دیکھنے آیا تھا مگر آدھے سے زیادہ پنجرے خالی ہیں اور جو جانور ہیں وہ بیماری کا شکار ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں کی جارہی ہیں، کمرشل بنیادوں پر چڑیا گھر کو چلایا جارہا ہے، جانوروں کے لیے آنے والے کھانے میں مبینہ کرپشن کی جارہی ہے، اس حوالے سے ایڈمنسٹریٹر کراچی سیف الرحمن بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ دنوں شیر کی موت کی وجوہات جانے کے لیے کمیٹی بھی التواء کا شکار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد ہاشمی رپورٹ جاری کرنے سے منع کررہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے چڑیا گھر میں بہت سے جانوروں کی حالت غیر ہے، کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں جزوی طور پر مفلوج ہونے کے بعد علاج کی منتظر ہے، اگر بروقت علاج کیا گیا تو جان بچائی جا سکتی ہے۔ خالد ہاشمی سے موقف دینے کو کہا گیا تو انہوں نے اپنے دفتر میں موجود ہونے کے باوجود ایکسپریس کی ٹیم سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔
مسلسل عوامی شکایات موصول ہونے پر ایکسپریس کی ٹیم چڑیا گھر پہنچی تو کئی گھنٹوں تک اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، طویل انتظار کے بعد جب ٹیم نے چڑیا گھر کا دورہ کیا تو انکشاف ہوا کہ چڑیا گھر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والی ملکہ نور جہاں نامی ہتھنی شدید بیمار ہے، ہتھنی کا پچھلا حصہ مکمل طور پر جھک گیا ہے جس کی وجہ سے اُسے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ہتھنی نورجہاں پچھلے دو ماہ سے جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا ہے جس سے اس کا پچھلا حصہ جزوی طور پر مفلوج ہوگیا ہے، 2009 میں چڑیا گھر میں مدھو بالا اور ملکہ نور جہاں کو کم عمری میں لایا گیا تھا، اس وقت ہتھنیوں کی عمر 17 سال ہے، چند ماہ قبل دونوں ہتھنیوں کے دانتوں میں انفیکشن بھی ہوا تھا جس کے علاج کے لیے بیرون ملک سے ٹیم آئی تھی۔
اس حوالے سے ایکسپریس نے متعدد بار ڈائریکٹر چڑیا گھر خالد ہاشمی کا موقف لینے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات نہیں کی۔ خالد ہاشمی نے چڑیا گھر میں داخل ہوتے وقت نمائندہ ایکسپریس کو انتہائی تکبرانہ لہجے میں کہا کہ میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو نہیں مانتا، میرا رابطہ براہ راست ناصر شاہ سے ہے۔
چڑیا گھر آنے والے شہریوں نے اس صورتحال پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ چڑیا گھر آنے والے بچے حسین علی نے کہا کہ وہ فیملی کیساتھ یہاں جانور دیکھنے آیا تھا مگر آدھے سے زیادہ پنجرے خالی ہیں اور جو جانور ہیں وہ بیماری کا شکار ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں کی جارہی ہیں، کمرشل بنیادوں پر چڑیا گھر کو چلایا جارہا ہے، جانوروں کے لیے آنے والے کھانے میں مبینہ کرپشن کی جارہی ہے، اس حوالے سے ایڈمنسٹریٹر کراچی سیف الرحمن بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ دنوں شیر کی موت کی وجوہات جانے کے لیے کمیٹی بھی التواء کا شکار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد ہاشمی رپورٹ جاری کرنے سے منع کررہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے چڑیا گھر میں بہت سے جانوروں کی حالت غیر ہے، کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی نور جہاں جزوی طور پر مفلوج ہونے کے بعد علاج کی منتظر ہے، اگر بروقت علاج کیا گیا تو جان بچائی جا سکتی ہے۔ خالد ہاشمی سے موقف دینے کو کہا گیا تو انہوں نے اپنے دفتر میں موجود ہونے کے باوجود ایکسپریس کی ٹیم سے بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔