توشہ خانہ اور ہمارے منفی رویے
حکومت کی جانب سے توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کا ریکارڈ پبلک کرنے کے بعد ہر طرف یہ معاملہ زیرِ بحث ہے
توشہ خانہ کا 2002سے 2023کا 466 صفحات پر مشتمل ریکارڈ کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔جس کے مطابق پرویز مشرف ، شوکت عزیز ، یوسف رضا گیلانی ، نوازشریف، آصف علی زرداری اور عمران خان بطور حکمران سیکڑوں تحائف لے گئے۔
حکومت کی جانب سے توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کا ریکارڈ پبلک کرنے کے بعد ہر طرف یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔
حکمرانوں کی جانب سے گھروں کو لے جائے گئے اور بیچے گئے تحائف میں1200سے زائد گھڑیوں،400سے زائد کاروں، 300سے زائد قلم اور بیش بہا دیگر تحائف سمیت '' انڈر گارمنٹس اور بیل گاڑی'' تک شامل ہیں۔
نواز شریف سے لے کر عمران خان تک تمام سابق حکمران صرف ایک چیز توشہ خانہ میں چھوڑ گئے اور وہ ہے تحفے میں ملنی والی 9 کتابیں۔ کسی بھی حکمران نے گھر جاتے ہوئے یہ کتابیں نہیں اُٹھائیں اور بعد ازاں یہ کتابیں لائبریری بھیج دی گئیں۔
یہ ہے علمی و اخلاقی پستی اور کرپشن کی انتہا کہ توشہ خانہ میں ہار، گھڑی اور جو کوئی بھی تحفہ ملا نہیں چھوڑا، اس ملک کے تقریباً تمام حکمرانوں کا یہ اصلی چہرہ ہے۔ خود کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کا سہارا لیا گیا ہے۔
ملک کی اعلیٰ شخصیات کو دوسرے ممالک کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی قیمت کا تعین ایف بی آر حکام اور مقامی مارکیٹ کے ماہرین کی جانب سے کروایا جاتا ہے۔ ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز تبدیل ہو سکتی ہے۔
سرکاری دورے پر جانے والی کسی بھی شخصیت کو بیرون ملک سے تحفہ ملنے پر اس چیز کو اگر وہ خود رکھنا چاہیں تو پہلے اس کی کل مالیت کی15فیصد رقم اور اب 50فیصد رقم خزانے میں جمع کرانا لازم ہوتی ہے۔
ان اشیا کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے ، لیکن قوانین کی موجودگی کے باوجود قانون کی دھجیاں اڑانے میں سب حکمران ایک جیسے نکلے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد وزارت خارجہ میں توشہ خانہ بنایا گیا جسے 1973میں کابینہ ڈویژن کے تحت کر دیا گیا تب سے کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ کا شعبہ چلا آ رہا ہے۔
صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ایس اینڈ جی اے ڈی کے تحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
پہلا حق اس شخص کا تصور کیا جاتا ہے جسے تحفہ ملا ہو اگر کوئی شخص یہ رقم ادا کر کے تحفہ نہ لے تو پھر یہ تحفہ نیلام کر دیا جاتا ہے لیکن اس کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین ہی حصہ لے سکتے ہیں تاکہ یہ تحائف مارکیٹ میں فروخت نہ ہوں۔ دلچسپ امر یہ ہے کچھ اشیاء کی 20 فیصد قیمت ادا کی گئی ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمایندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فوری طور پر کابینہ ڈویژن کے تحت توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں توشہ خانہ کو شہرت اس میں جمع کرائے گئے تحائف حکمرانوں کی جانب سے اونے پونے داموں اپنے گھروں میں لے جانے یا بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت سے ہوئی۔
بھارت میں تو توشہ خانہ سے صرف پانچ ہزار روپے تک تحفہ رکھا جاسکتا ہے ، لیکن ہمارے یہاں تو دستور ہی نرالا ہے، دوسری جانب عمران خان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر ان تحفوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انھیں الیکشن کیمشن آف پاکستان نااہل قرار دے چکا ہے، لہٰذا وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔
ماضی میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب میں توشہ خانہ سے متعلق کیس بنائے گئے۔
مارچ 2020 میں نیب کی جانب سے دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر وہ گاڑیاں حاصل کیں جو غیر ملکی سربراہان مملکت کی جانب سے انھیں بطور سربراہ مملکت تحفتاً دی گئی تھیں لیکن قانون کے مطابق عہدے پر ملنے والے غیر ملکی تحائف قومی خزانے کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر ذاتی حق دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے تمام تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔
تاہم نواز شریف کو دوست ملک کی جانب سے دی گئی مرسڈیز کار پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صرف چھ لاکھ کے عوض توشہ خانہ سے دے دی گئی۔
اکتوبر 2020 میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جائیداد اور اثاثوں کی ضبطگی کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل اسی کیس کی ستمبر 2020 میں سماعت کے دوران احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت چار ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور جائیداد ضبطی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے نواز شریف کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل تفتیشی افسر سے طلب کی تھی۔
افسر شاہی کی لوٹ مار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، بڑی بڑی گاڑیوں میں رعونت سے پھرنے والے سرکاری افسران کو تنخواہ آپ کے اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ملتی ہے۔ عوام آٹا، چینی، گھی، تیل، نمک، چاول، گوشت، دودھ، پٹرول اور ہر چیز پر بھاری ٹیکس دیتے ہیں۔
مہذب دنیا میں ٹیکس لے کر بدلے میں عوام کو سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بات کہ امراء ٹیکس دیتے ہی نہیں، غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کی جیبیں کاٹ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور وہ ٹیکس واپس عوام پر خرچ ہونے کے بجائے شاہی افسران کی عیاشی پر خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والے شاہی ملازمین کے لیے مشہور ہے کہ سرکاری افسران کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ پاکستان میں ارکان اسمبلی، ججوں اور سرکاری افسران کی تنخواہ 10 لاکھ سے زائد ہونے کے علاوہ سیکڑوں لیٹر پٹرول، نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے اور ہزاروں یونٹ بجلی مفت ملتی ہے۔
پاکستان کا نظام انصاف دنیا میں نچلی ترین سطح پر ہے لیکن ہمارے ججوں کا پروٹوکول کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں اور تنخواہیں اور مراعات اتنی ہیں کہ کسی بادشاہی نظام کے شاہی سپوتوں کا گمان ہوتا ہے۔
پاکستان کے شاہی افسران کی تنخواہ اور مراعات اقوام متحدہ کے افسران سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کوئی بھی محکمہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔عوام جو پٹرول خریدتے ہیں اس پر 10، 20 نہیں بلکہ 70، 80 روپے کے قریب ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور عالمی اداروں سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کے لیے لیے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کے لیے غریب عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔
حکومت اپنے اور سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہ، مراعات اور ٹیکس میں کمی کرکے غریب عوام کو جینے کا حق دے سکتی ہے لیکن اس سے شاہی حکمرانوں اور شاہی افسران کے اپنے خرچے کیسے پورے ہونگے؟
بین الاقوامی دوروں میں حکمرانوں کو ملنے والے تحائف سرکار کے توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں۔توشہ خانہ سے تو گھڑی ،گاڑیاں ، سونے اور چاندی کے زیورات و جواہرات حکمران اٹھاکرلے جاتے ہیں لیکن کیا مساجدکے وضوخانوں سے لوٹے ، لاؤڈ اسپیکر، بلب، جنریٹر اور بیٹریاں بھی حکمران اٹھا کر لے جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہاں کیاحکمران اورکیاعوام۔ جس کاجو بس چلتا ہے وہ اتنا ہی ہاتھ دکھاتاہے۔
اسی وجہ سے تو یہاں توشہ خانے محفوظ ہیں اور نہ ہی مساجد کے وضوخانے۔ جہاں مساجد کو تالے اور واٹر کولر کے ساتھ لگے گلاسوں کو زنجیریں لگی ہوں وہاں کے حکمران نیک ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عوام ایمانداری ودیانت داری میں ایک۔ شمار کے چند گنے چنے طبقوں یا لوگوں کے علاوہ ہماری اکثریت نے جھوٹ، فریب، دھوکا ، بے ایمانی ، خیانت اور منافقت کو اس وقت اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزیراعظم ہاؤس میں غیر ملکی تحائف کے لیے جگہ مختص کر دی گئی ہے۔ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیے ہیں۔
توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف کی مالیت 27 کروڑ روپے ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے توشہ خانے میں جمع کرائے گئے قیمتی تحائف انھیں خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ملے تھے۔ تحائف میں ہیرے سے جڑی 2 قیمتی گھڑیاں بھی شامل ہیں۔
ہمارے حکمران عوام کو چائے کا کپ کم کرنے اور روٹی آدھی کھانے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ اخراجات کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں انھی کی خریداری کی وجہ سے ملنے والے ٹیکس سے ان حکمرانوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔
اب عوام کے ساتھ یہ سنگین مذاق بند ہونا چاہیے ، حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ سے تمام مراعات واپس لی جانی چاہئیں۔
حکومت کی جانب سے توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کا ریکارڈ پبلک کرنے کے بعد ہر طرف یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔
حکمرانوں کی جانب سے گھروں کو لے جائے گئے اور بیچے گئے تحائف میں1200سے زائد گھڑیوں،400سے زائد کاروں، 300سے زائد قلم اور بیش بہا دیگر تحائف سمیت '' انڈر گارمنٹس اور بیل گاڑی'' تک شامل ہیں۔
نواز شریف سے لے کر عمران خان تک تمام سابق حکمران صرف ایک چیز توشہ خانہ میں چھوڑ گئے اور وہ ہے تحفے میں ملنی والی 9 کتابیں۔ کسی بھی حکمران نے گھر جاتے ہوئے یہ کتابیں نہیں اُٹھائیں اور بعد ازاں یہ کتابیں لائبریری بھیج دی گئیں۔
یہ ہے علمی و اخلاقی پستی اور کرپشن کی انتہا کہ توشہ خانہ میں ہار، گھڑی اور جو کوئی بھی تحفہ ملا نہیں چھوڑا، اس ملک کے تقریباً تمام حکمرانوں کا یہ اصلی چہرہ ہے۔ خود کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کا سہارا لیا گیا ہے۔
ملک کی اعلیٰ شخصیات کو دوسرے ممالک کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی قیمت کا تعین ایف بی آر حکام اور مقامی مارکیٹ کے ماہرین کی جانب سے کروایا جاتا ہے۔ ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز تبدیل ہو سکتی ہے۔
سرکاری دورے پر جانے والی کسی بھی شخصیت کو بیرون ملک سے تحفہ ملنے پر اس چیز کو اگر وہ خود رکھنا چاہیں تو پہلے اس کی کل مالیت کی15فیصد رقم اور اب 50فیصد رقم خزانے میں جمع کرانا لازم ہوتی ہے۔
ان اشیا کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے ، لیکن قوانین کی موجودگی کے باوجود قانون کی دھجیاں اڑانے میں سب حکمران ایک جیسے نکلے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد وزارت خارجہ میں توشہ خانہ بنایا گیا جسے 1973میں کابینہ ڈویژن کے تحت کر دیا گیا تب سے کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ کا شعبہ چلا آ رہا ہے۔
صوبائی سطح پر ملنے والے سرکاری تحائف ایس اینڈ جی اے ڈی کے تحت کیبنٹ سیکشن کے پاس رکھے جاتے ہیں۔
پہلا حق اس شخص کا تصور کیا جاتا ہے جسے تحفہ ملا ہو اگر کوئی شخص یہ رقم ادا کر کے تحفہ نہ لے تو پھر یہ تحفہ نیلام کر دیا جاتا ہے لیکن اس کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین ہی حصہ لے سکتے ہیں تاکہ یہ تحائف مارکیٹ میں فروخت نہ ہوں۔ دلچسپ امر یہ ہے کچھ اشیاء کی 20 فیصد قیمت ادا کی گئی ہے۔
سرکاری قوانین کے تحت سرکاری افسر، عوامی نمایندے یا مسلح افواج سے وابستہ کوئی بھی افسر سرکاری تحائف ظاہر کرنے کا پابند ہے۔ یہ تحائف فوری طور پر کابینہ ڈویژن کے تحت توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں توشہ خانہ کو شہرت اس میں جمع کرائے گئے تحائف حکمرانوں کی جانب سے اونے پونے داموں اپنے گھروں میں لے جانے یا بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت سے ہوئی۔
بھارت میں تو توشہ خانہ سے صرف پانچ ہزار روپے تک تحفہ رکھا جاسکتا ہے ، لیکن ہمارے یہاں تو دستور ہی نرالا ہے، دوسری جانب عمران خان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر ان تحفوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انھیں الیکشن کیمشن آف پاکستان نااہل قرار دے چکا ہے، لہٰذا وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔
ماضی میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب میں توشہ خانہ سے متعلق کیس بنائے گئے۔
مارچ 2020 میں نیب کی جانب سے دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر وہ گاڑیاں حاصل کیں جو غیر ملکی سربراہان مملکت کی جانب سے انھیں بطور سربراہ مملکت تحفتاً دی گئی تھیں لیکن قانون کے مطابق عہدے پر ملنے والے غیر ملکی تحائف قومی خزانے کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر ذاتی حق دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے تمام تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔
تاہم نواز شریف کو دوست ملک کی جانب سے دی گئی مرسڈیز کار پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صرف چھ لاکھ کے عوض توشہ خانہ سے دے دی گئی۔
اکتوبر 2020 میں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جائیداد اور اثاثوں کی ضبطگی کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل اسی کیس کی ستمبر 2020 میں سماعت کے دوران احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت چار ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور جائیداد ضبطی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے نواز شریف کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل تفتیشی افسر سے طلب کی تھی۔
افسر شاہی کی لوٹ مار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، بڑی بڑی گاڑیوں میں رعونت سے پھرنے والے سرکاری افسران کو تنخواہ آپ کے اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ملتی ہے۔ عوام آٹا، چینی، گھی، تیل، نمک، چاول، گوشت، دودھ، پٹرول اور ہر چیز پر بھاری ٹیکس دیتے ہیں۔
مہذب دنیا میں ٹیکس لے کر بدلے میں عوام کو سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بات کہ امراء ٹیکس دیتے ہی نہیں، غریب عوام اور چھوٹے کاروباری افراد کی جیبیں کاٹ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور وہ ٹیکس واپس عوام پر خرچ ہونے کے بجائے شاہی افسران کی عیاشی پر خرچ ہوتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمت کرنے والے شاہی ملازمین کے لیے مشہور ہے کہ سرکاری افسران کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ پاکستان میں ارکان اسمبلی، ججوں اور سرکاری افسران کی تنخواہ 10 لاکھ سے زائد ہونے کے علاوہ سیکڑوں لیٹر پٹرول، نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے اور ہزاروں یونٹ بجلی مفت ملتی ہے۔
پاکستان کا نظام انصاف دنیا میں نچلی ترین سطح پر ہے لیکن ہمارے ججوں کا پروٹوکول کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں اور تنخواہیں اور مراعات اتنی ہیں کہ کسی بادشاہی نظام کے شاہی سپوتوں کا گمان ہوتا ہے۔
پاکستان کے شاہی افسران کی تنخواہ اور مراعات اقوام متحدہ کے افسران سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کوئی بھی محکمہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔عوام جو پٹرول خریدتے ہیں اس پر 10، 20 نہیں بلکہ 70، 80 روپے کے قریب ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور عالمی اداروں سے اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کے لیے لیے جانے والے قرضوں کی ادائیگی کے لیے غریب عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔
حکومت اپنے اور سرکاری افسران و ملازمین کی تنخواہ، مراعات اور ٹیکس میں کمی کرکے غریب عوام کو جینے کا حق دے سکتی ہے لیکن اس سے شاہی حکمرانوں اور شاہی افسران کے اپنے خرچے کیسے پورے ہونگے؟
بین الاقوامی دوروں میں حکمرانوں کو ملنے والے تحائف سرکار کے توشہ خانہ میں جمع کرائے جاتے ہیں۔توشہ خانہ سے تو گھڑی ،گاڑیاں ، سونے اور چاندی کے زیورات و جواہرات حکمران اٹھاکرلے جاتے ہیں لیکن کیا مساجدکے وضوخانوں سے لوٹے ، لاؤڈ اسپیکر، بلب، جنریٹر اور بیٹریاں بھی حکمران اٹھا کر لے جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہاں کیاحکمران اورکیاعوام۔ جس کاجو بس چلتا ہے وہ اتنا ہی ہاتھ دکھاتاہے۔
اسی وجہ سے تو یہاں توشہ خانے محفوظ ہیں اور نہ ہی مساجد کے وضوخانے۔ جہاں مساجد کو تالے اور واٹر کولر کے ساتھ لگے گلاسوں کو زنجیریں لگی ہوں وہاں کے حکمران نیک ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عوام ایمانداری ودیانت داری میں ایک۔ شمار کے چند گنے چنے طبقوں یا لوگوں کے علاوہ ہماری اکثریت نے جھوٹ، فریب، دھوکا ، بے ایمانی ، خیانت اور منافقت کو اس وقت اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزیراعظم ہاؤس میں غیر ملکی تحائف کے لیے جگہ مختص کر دی گئی ہے۔ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف وزیراعظم شہباز شریف نے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیے ہیں۔
توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف کی مالیت 27 کروڑ روپے ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے توشہ خانے میں جمع کرائے گئے قیمتی تحائف انھیں خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ملے تھے۔ تحائف میں ہیرے سے جڑی 2 قیمتی گھڑیاں بھی شامل ہیں۔
ہمارے حکمران عوام کو چائے کا کپ کم کرنے اور روٹی آدھی کھانے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ اخراجات کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں انھی کی خریداری کی وجہ سے ملنے والے ٹیکس سے ان حکمرانوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔
اب عوام کے ساتھ یہ سنگین مذاق بند ہونا چاہیے ، حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ سے تمام مراعات واپس لی جانی چاہئیں۔