یہ کیا ہوا کیسے ہوا کب ہوا
کسی کا ایجنٹ ہی بننا ہے تو پھر اپنے مفادات کا آلہ کار بننا زیادہ بہتر ہے
گزرے جمعہ کو دو بڑے واقعات ہوئے۔پہلا یہ کہ دوسری بڑی عالمی سپرپاور کی پیپلز کانگریس نے صفر کے مقابلے میں دو ہزار نو سو بانوے ووٹوں سے شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے صدر منتخب کر لیا۔گویا کم ازکم اگلے پانچ برس بھی چین اسی داخلی و خارجہ ٹریک پر آگے بڑھے گا جس پر آج ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان مسابقت میں مزید تیزی آئے گی۔اگرچہ کوویڈ نے چینی معیشت کو سست رفتار کر دیا ہے اور اس میں گزشتہ برس محض تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اگلے برس کے لیے پانچ فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اس سست رفتاری کے باوجود تازہ ترین جائزے کے مطابق اکیسویں صدی میں کلیدی اہمیت کی حامل چوالیس میں سے سینتیس ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں چین امریکا سے آگے نکل گیا ہے۔اب خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی امریکا عالمی سطح پر چین سے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔
چینی سفارت کاری پہلے سے کہیں زیادہ بااعتماد اور اثر پذیر نظر آ رہی ہے۔چین جنوبی امریکا ، افریقہ اور مشرقِ وسطی میں بھی اپنی خارجہ و اقتصادی ڈپلومیسی کے گر آزما رہا ہے۔
یہ علاقے کچھ عرصہ پہلے تک امریکا کا روائیتی حلقہِ اثر سمجھے جاتے تھے۔مگر امریکا کے مقابلے میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے چینی شرائط اتنی آسان ہیں کہ سفارتی گاہک کے لیے انھیں رد کرنا اتنا آسان نہیں۔نہ داخلی پالیسی بدلنے کا مطالبہ نہ انسانی حقوق کا جھنجھٹ اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے اہداف بدلنے کی ضد۔
مثلاً جس روز شی جن پنگ کی تیسری صدارتی مدت کی توثیق ہوئی عین اسی دن چین ، ایران اور سعودی عرب نے ایک مشترکہ پالیسی دھماکا کیا۔
یہ اس قدر اچانک تھا کہ مشرقِ وسطی کے تنازعات میں آٹھ دہائیوں سے مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی مکمل خبر نہیں ہوئی کہ دھماکے سے پہلے کے چار دنوں میں بیجنگ میں چینی سرپرستی میں مشرقِ وسطی کے دو اہم ترین ممالک کے مابین کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
جمعہ کو تین دارالحکومتوں سے بیک وقت یہ خبر ریلیز ہوئی کہ چین کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگلے دو ماہ میں یہ تعلقات مکمل طور سے معمول پر آ جائیں گے۔
اس سلسلے میں کوششیں پچھلے دو برس سے جاری تھیں اور اس بابت سہہ فریقی اعلامیے میں عراق اور اومان کی درپردہ مصالحتی کوششوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔
بظاہر دو ممالک کے سفارتی تعلقات کا ٹوٹنا اور بحال ہونا کوئی ایسی انہونی خبر نہیں لیکن جب کسی خطے کے دو بااثر طاقتور ممالک کے سینگ کئی برس سے بری طرح پھنسے ہوں تو پھر ایسی خبر بریکنگ نیوز تو بنتی ہی ہے۔
دس برس سے جاری یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کا براہ راست اور ایران کا بلاواسطہ کردار ، شام کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک کا اپنے اپنے طفیلیوں کی معرفت کھلا خونی مقابلہ ، خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کو ناکام بنانے میں ایران کا کلیدی کردار، مشرقی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کا دو طرفہ مناقشے میں ایندھن بننا اور سب سے بڑا تنازعہ یعنی ایران کا جوہری پروگرام جس کے سبب متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکا ایک طرف ، ماسکو اور تہران دوسری طرف اور بیچ میں چین کے خلیج میں ہر طرف پھیلے تزویراتی و معاشی مفادات۔اور ان مفادات کے سبب ایران سمیت تمام خلیجی ممالک کا چین پر اظہارِ اعتماد۔
ٹرمپ کے بعد کے امریکا کے بارے میں خلیجی ریاستوں کی حکمران نئی نسل کی سوچ اور پرانی نسل کے تاریخی برتاؤ میں اس قدر فرق ہے کہ تیس برس پہلے تک اتنی تیز رفتار تبدیلیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک جانب ایران گزشتہ چار دہائیوں سے مغرب کے ساتھ سفارتی و اقتصادی و مفاداتی شطرنج کھیلنے کے سبب مغرب کی نفسیاتی کمزوریوں کی تشخیص کا ماہر ہو گیا ہے۔دوسری جانب خلیج کی دو ابھرتی طاقتوں یعنی امارات اور سعودی عرب میں برسرِاقتدار آنے والی نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس راز کو بہت بہتر انداز میں سمجھ لیا ہے کہ بین الا قوامی اور علاقائی سیاست میں مروت ، دوستی ، تاریخی تعلق اور کاروبار کا ایک ہی مطلب ہے۔
عملیت پسندی اور مفادات۔نہ کوئی دوستی مستقل ہے نہ دشمنی۔ کسی کا ایجنٹ ہی بننا ہے تو پھر اپنے مفادات کا آلہ کار بننا زیادہ بہتر ہے۔
چنانچہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ نئے سعودی عرب اور امارات کے لیے کچھ بھی انہونا یا خلافِ معمول نہیں۔دنیا میں دنیا کے رواجوں کے حساب سے چلو اور آخرت کو فرد کی سوچ پر چھوڑ دو۔
کل ترکی سے دشمنی تھی آج ترکی سے دوستی ہے۔ کل اسرائیل کا نام لینا تک حرام تھا آج اسرائیل سے کسی بھی سطح کے تعلقات میں کوئی خبریت ہی باقی نہیں رہی۔اگر روس تیل کی پیداوار کے نرخوں کے تعین میں ساجھے داری کے لیے سودمند اتحادی ہے تو پھر امریکا کی خوشنودی کا انتظار کیوں کیا جائے۔
اب تو عملی صورت یہ ہے کہ اگر امریکا دو کام کرنے کو کہے گا تو ایک کام امریکا کو بھی ہماری مرضی کا کرنا ہوگا۔ورنہ تمہارے لیے تمہاری راہ ہمارے لیے ہماری۔آپ روٹھیں یا منیں۔گھر پے نہیں آتے یا گھر پے نہیں بلاتے تو کوئی بات نہیں۔بازار میں تو آپ یقیناً ہم سے ملنا پسند کریں گے۔وہیں بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جائے گا۔
خارجہ پالیسی اب آپ کی خواہشات کے تابع نہیں بلکہ منڈی کی طلب و رسد کے تابع ہو گی۔تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے مسلسل پریشان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی و جغرافیائی و سفارتی لحاظ سے اب چین کا گھیراؤ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ہر ملک نے یہ سیکھ لیا ہے کہ معیشت اور نظریے اور آئیڈیل ازم کو گڈ مڈ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال خود امریکا ہے جو بیک وقت چین کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا حریف ہے۔بھارت چین کا سب سے بڑا علاقائی تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا علاقائی دشمن ہے۔مگر روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بھارت اور چین لگ بھگ ایک پیج پر ہیں۔
یہی گر اب دوسرے ممالک نے بھی ازبر کر لیے ہیں۔دشمنی اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ اور دشمنی بھی ویسے ہی کرو اور اتنی ہی کرو جیسے کاروبار کرتے ہو۔
وفا اور بے وفائی فرد پر سجتے ہیں بین اللمملکتی تعلقات پر نہیں۔ثبوت کے لیے چینی نگرانی میں سعودیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اس کا مطلب ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان مسابقت میں مزید تیزی آئے گی۔اگرچہ کوویڈ نے چینی معیشت کو سست رفتار کر دیا ہے اور اس میں گزشتہ برس محض تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اگلے برس کے لیے پانچ فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
اس سست رفتاری کے باوجود تازہ ترین جائزے کے مطابق اکیسویں صدی میں کلیدی اہمیت کی حامل چوالیس میں سے سینتیس ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں چین امریکا سے آگے نکل گیا ہے۔اب خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی امریکا عالمی سطح پر چین سے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔
چینی سفارت کاری پہلے سے کہیں زیادہ بااعتماد اور اثر پذیر نظر آ رہی ہے۔چین جنوبی امریکا ، افریقہ اور مشرقِ وسطی میں بھی اپنی خارجہ و اقتصادی ڈپلومیسی کے گر آزما رہا ہے۔
یہ علاقے کچھ عرصہ پہلے تک امریکا کا روائیتی حلقہِ اثر سمجھے جاتے تھے۔مگر امریکا کے مقابلے میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے چینی شرائط اتنی آسان ہیں کہ سفارتی گاہک کے لیے انھیں رد کرنا اتنا آسان نہیں۔نہ داخلی پالیسی بدلنے کا مطالبہ نہ انسانی حقوق کا جھنجھٹ اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے اہداف بدلنے کی ضد۔
مثلاً جس روز شی جن پنگ کی تیسری صدارتی مدت کی توثیق ہوئی عین اسی دن چین ، ایران اور سعودی عرب نے ایک مشترکہ پالیسی دھماکا کیا۔
یہ اس قدر اچانک تھا کہ مشرقِ وسطی کے تنازعات میں آٹھ دہائیوں سے مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی مکمل خبر نہیں ہوئی کہ دھماکے سے پہلے کے چار دنوں میں بیجنگ میں چینی سرپرستی میں مشرقِ وسطی کے دو اہم ترین ممالک کے مابین کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
جمعہ کو تین دارالحکومتوں سے بیک وقت یہ خبر ریلیز ہوئی کہ چین کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگلے دو ماہ میں یہ تعلقات مکمل طور سے معمول پر آ جائیں گے۔
اس سلسلے میں کوششیں پچھلے دو برس سے جاری تھیں اور اس بابت سہہ فریقی اعلامیے میں عراق اور اومان کی درپردہ مصالحتی کوششوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔
بظاہر دو ممالک کے سفارتی تعلقات کا ٹوٹنا اور بحال ہونا کوئی ایسی انہونی خبر نہیں لیکن جب کسی خطے کے دو بااثر طاقتور ممالک کے سینگ کئی برس سے بری طرح پھنسے ہوں تو پھر ایسی خبر بریکنگ نیوز تو بنتی ہی ہے۔
دس برس سے جاری یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کا براہ راست اور ایران کا بلاواسطہ کردار ، شام کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک کا اپنے اپنے طفیلیوں کی معرفت کھلا خونی مقابلہ ، خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کو ناکام بنانے میں ایران کا کلیدی کردار، مشرقی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کا دو طرفہ مناقشے میں ایندھن بننا اور سب سے بڑا تنازعہ یعنی ایران کا جوہری پروگرام جس کے سبب متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکا ایک طرف ، ماسکو اور تہران دوسری طرف اور بیچ میں چین کے خلیج میں ہر طرف پھیلے تزویراتی و معاشی مفادات۔اور ان مفادات کے سبب ایران سمیت تمام خلیجی ممالک کا چین پر اظہارِ اعتماد۔
ٹرمپ کے بعد کے امریکا کے بارے میں خلیجی ریاستوں کی حکمران نئی نسل کی سوچ اور پرانی نسل کے تاریخی برتاؤ میں اس قدر فرق ہے کہ تیس برس پہلے تک اتنی تیز رفتار تبدیلیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک جانب ایران گزشتہ چار دہائیوں سے مغرب کے ساتھ سفارتی و اقتصادی و مفاداتی شطرنج کھیلنے کے سبب مغرب کی نفسیاتی کمزوریوں کی تشخیص کا ماہر ہو گیا ہے۔دوسری جانب خلیج کی دو ابھرتی طاقتوں یعنی امارات اور سعودی عرب میں برسرِاقتدار آنے والی نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس راز کو بہت بہتر انداز میں سمجھ لیا ہے کہ بین الا قوامی اور علاقائی سیاست میں مروت ، دوستی ، تاریخی تعلق اور کاروبار کا ایک ہی مطلب ہے۔
عملیت پسندی اور مفادات۔نہ کوئی دوستی مستقل ہے نہ دشمنی۔ کسی کا ایجنٹ ہی بننا ہے تو پھر اپنے مفادات کا آلہ کار بننا زیادہ بہتر ہے۔
چنانچہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ نئے سعودی عرب اور امارات کے لیے کچھ بھی انہونا یا خلافِ معمول نہیں۔دنیا میں دنیا کے رواجوں کے حساب سے چلو اور آخرت کو فرد کی سوچ پر چھوڑ دو۔
کل ترکی سے دشمنی تھی آج ترکی سے دوستی ہے۔ کل اسرائیل کا نام لینا تک حرام تھا آج اسرائیل سے کسی بھی سطح کے تعلقات میں کوئی خبریت ہی باقی نہیں رہی۔اگر روس تیل کی پیداوار کے نرخوں کے تعین میں ساجھے داری کے لیے سودمند اتحادی ہے تو پھر امریکا کی خوشنودی کا انتظار کیوں کیا جائے۔
اب تو عملی صورت یہ ہے کہ اگر امریکا دو کام کرنے کو کہے گا تو ایک کام امریکا کو بھی ہماری مرضی کا کرنا ہوگا۔ورنہ تمہارے لیے تمہاری راہ ہمارے لیے ہماری۔آپ روٹھیں یا منیں۔گھر پے نہیں آتے یا گھر پے نہیں بلاتے تو کوئی بات نہیں۔بازار میں تو آپ یقیناً ہم سے ملنا پسند کریں گے۔وہیں بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جائے گا۔
خارجہ پالیسی اب آپ کی خواہشات کے تابع نہیں بلکہ منڈی کی طلب و رسد کے تابع ہو گی۔تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے مسلسل پریشان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی و جغرافیائی و سفارتی لحاظ سے اب چین کا گھیراؤ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ہر ملک نے یہ سیکھ لیا ہے کہ معیشت اور نظریے اور آئیڈیل ازم کو گڈ مڈ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال خود امریکا ہے جو بیک وقت چین کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا حریف ہے۔بھارت چین کا سب سے بڑا علاقائی تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا علاقائی دشمن ہے۔مگر روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بھارت اور چین لگ بھگ ایک پیج پر ہیں۔
یہی گر اب دوسرے ممالک نے بھی ازبر کر لیے ہیں۔دشمنی اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ اور دشمنی بھی ویسے ہی کرو اور اتنی ہی کرو جیسے کاروبار کرتے ہو۔
وفا اور بے وفائی فرد پر سجتے ہیں بین اللمملکتی تعلقات پر نہیں۔ثبوت کے لیے چینی نگرانی میں سعودیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)