ہنگامہ ہے کیوں برپا کرپشن ہی تو کی ہے
عوام ان تمام پارٹیوں کو آزما چکے جن پر کرپشن کے الزامات تھے اور اب پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان پر لگ رہے ہیں
پی ٹی آئی کا نیا نعرہ نظام بدلو، حالات بدلو، مارکیٹ میں آگیا ہے جب کہ پی ٹی آئی کے قیام کے وقت سے جاری سب کے لیے یکساں انصاف، کرپشن کا خاتمہ اور سدباب اور سابق حکمرانوں سے لوٹی گئی دولت ملک میں واپس لانے کا ایک پسندیدہ نعرہ بھی تھا جس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہونے والے نوجوان پی ٹی آئی رہنما مراد سعید دعوے کرتے تھے کہ خان اقتدار میں آ کر کرپشن ختم کرے گا۔ کرپشن سے بنایا گیا اربوں ڈالر ملک واپس لائے گا۔
اس میں سے ایک حصہ قرضہ دینے والوں کے منہ پر مارے گا اور باقی سے ملک کے عوام کو خوشحال بنائے گا۔
ایسے ہی نعروں کے باعث قوم نے عمران خان کو بھی اقتدار میں آزما لیا مگر پونے چار سالوں میں کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ خان کے گھر بنانے اور نوکریاں دینے کے دعوے دھرے رہ گئے اور عمران خان کے بقول مقتدر قوتیں میاں شہباز شریف کو اقتدار میں لے آئیں، اگر میری حکومت رہتی تو شہباز شریف پر گیارہ سو ارب روپے کی کرپشن پر فرد جرم لگ جاتی مگر مجھے ہٹا دیا گیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد عوام کو حقیقی آزادی کا نعرہ دیا تھا جس میں انھیں تو یہ آزادی ملی کہ 28 نومبر کے بعد انھیں پتا چلا کہ امریکا نے انھیں نہیں ہٹوایا تھا بلکہ بالادست قوتیں کرپشن ختم کرانا ہی نہیں چاہتی تھیں اس لیے وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
عمران خان نے پارٹی رہنماؤں اور اپنے صدر مملکت کے کسی مشورے کو قبول نہیں کیا اور خود کو حاصل مکمل آزادی سے پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور کئی ماہ تک اتحادی حکومت ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے مگر حکومت تو ختم نہ ہوئی بلکہ حکومت نے عمران خان کو درجنوں مقدمات میں پھنسا دیا۔
لانگ مارچ کامیاب نہ ہوا تو تنگ آ کر خان زخمی ہونے کے باوجود نومبر میں جلسہ کرنے اسلام آباد گئے مگر لاکھوں لوگ راولپنڈی میں نہ دیکھ کر کروڑوں افراد کی آبادی کے صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو توڑنے کا اپنی مرضی کا اعلان کر بیٹھے جس پر عمل سے بچنے کی پرویز الٰہی نے بھرپور کوشش کی۔
خان کو بہت سمجھایا کہ اپنی دو حکومتیں ختم کرکے غیر محفوظ نہ ہوں مگر کسی کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور عمران خان نے اپنی دونوں حکومتیں ختم کرکے ہی دم لیا اور دونوں صوبوں میں وفاقی حکومت کے حامی دو نگران وزرائے اعلیٰ لے آئے جس کے بعد شیخ رشید اور فواد چوہدری کی وہ باتیں ضرور ختم ہوگئیں کہ شہباز شریف 27 کلو میٹر رقبے کے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہیں۔
چار ماہ سے زیادہ ہوگئے اور ٹانگ درست نہ ہوئی تو خان کے وکیلوں نے عدالتوں کو باور کرانا چاہا کہ خان 71 سال کے بزرگ اور جسمانی طور کمزور ہوگئے ہیں چلنا پھرنا دشوار ہے لہٰذا انھیں لاہور و اسلام آباد عدالتوں میں بلوانے کے بجائے زمان پارک سے ہی وڈیو کی جدید سہولت کے تحت بیانات دینے کی اجازت دے دی جائے۔
عمران خان کے حقیقی آزادی کے نعرے سے عوام کو تو کوئی آزادی نہیں ملی بلکہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی غلامی میں پھنستے چلے گئے اور انھوں نے خان کے کہنے پر سڑکوں پر آنا مناسب نہ سمجھا اور سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ پنجاب و کے پی میں الیکشن کرائے جائیں جس کے بعد خان نے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم 8 مارچ سے شروع کرنے کا اعلان کردیا اور نیا نعرہ دے دیا کہ'' نظام بدلو، حالات بدلو۔''
جیل بھرو تحریک میں ناکامی کے بعد خان کی قیادت میں جو ریلی زمان پارک سے داتا دربار تک نکلنی تھی وہ حکومت نے نکلنے نہیں دی جس کی وجہ سے حماد اظہر کا خان کا تاریخی استقبال کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا۔ حماد اظہر نے لاہور کے عوام کو جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے واسطے دے کر اپیل کی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے لیے خان کا ایسا استقبال کریں کہ جو کسی کا نہ ہوا ہو۔
عمران خان کی ریلی کے روٹ پر لگے 25 استقبالیہ کیمپ خان کا انتظار کرتے رہ گئے اور دفعہ 144 پر عمل کرانے اور توڑنے پر زمان پارک کے پاس پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کے باعث خان گھر سے باہر ہی نہیں نکلے اور کرپشن ختم کرنے کے دعوے داروں نے جب دیکھا کہ کرپشن کا خاتمہ، سب کے لیے یکساں انصاف کے بعد حقیقی آزادی کا نعرہ بھی فلاپ ہو گیا تو انتخابی مہم، نظام بدلو، حالات بدلو کے نئے نعرے سے پی ٹی آئی نے عوام کو باہر نکالنا تھا مگر ایک کارکن کی ہلاکت اور دونوں طرف کے درجنوں افراد زخمی ہوگئے مگر عوام جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے اس لیے باہر نہیں نکلے کہ ملک میں عدلیہ تو پہلے ہی آزاد ہے اور پی ٹی آئی کو فوری عدالتی ریلیف بھی مل رہا ہے اور قانون کے بجائے اپنی بالادستی عمران خان نے ثابت کردی ہے اور ملک میں جمہوریت تو پہلے ہی ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکار رہے ہیں۔
عدالتیں اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے منظوری کے فیصلوں کے خلاف ارکان قومی اسمبلی کو بحال کر رہی ہیں ہر طرف سے حالات عمران خان کے حق میں جا رہے ہیں اس لیے عوام کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
عمران خان کی حکومتی برطرفی کے بعد حکومت نے عمران خان پر توشہ خانہ و سنگین کرپشن پر عمران خان ان کی اہلیہ اور فرح گوگی بے شمار الزامات لگائے مگر عوام نے کرپشن کے الزامات پر دھیان ہی نہیں دیا کہ وہ کرپشن، چور ڈاکو کی عمران خان کی تکرار تو عشروں سے سنتے آ رہے ہیں اور بے زار ہوگئے ہیں۔
عوام نے ایک سروے کے مطابق عمران خان پر کرپشن کے حکومتی الزامات کو مسترد کرکے انھیں اب بھی سب سے مقبول لیڈر قرار دیا ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ اب عوام بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھ رہے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح کرپشن میں پیچھے نہیں رہی تھی اور ساری حکومتیں کرپشن کے سلسلے میں ایک جیسی ہی ثابت ہو چکی ہیں مگر ملک میں پھر بھی ہنگامہ ہے کیوں برپا کرپشن جو کرلی ہے۔
عوام ان تمام پارٹیوں کو آزما چکے جن پر کرپشن کے الزامات تھے اور اب پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان پر لگ رہے ہیں اور جس جماعت اسلامی پر کرپشن کے الزامات ہیں نہ اس کے رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات جس کے امیر بھی کہتے آ رہے ہیں کہ چہرے نہیں نظام بدلو تاکہ عوام کے حالات بدلیں انھیں عوام نے آزمایا نہ آزمائیں گے کیونکہ عمران خان سے مایوس ہو کر وہ بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھ رہے۔
اس میں سے ایک حصہ قرضہ دینے والوں کے منہ پر مارے گا اور باقی سے ملک کے عوام کو خوشحال بنائے گا۔
ایسے ہی نعروں کے باعث قوم نے عمران خان کو بھی اقتدار میں آزما لیا مگر پونے چار سالوں میں کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ خان کے گھر بنانے اور نوکریاں دینے کے دعوے دھرے رہ گئے اور عمران خان کے بقول مقتدر قوتیں میاں شہباز شریف کو اقتدار میں لے آئیں، اگر میری حکومت رہتی تو شہباز شریف پر گیارہ سو ارب روپے کی کرپشن پر فرد جرم لگ جاتی مگر مجھے ہٹا دیا گیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد عوام کو حقیقی آزادی کا نعرہ دیا تھا جس میں انھیں تو یہ آزادی ملی کہ 28 نومبر کے بعد انھیں پتا چلا کہ امریکا نے انھیں نہیں ہٹوایا تھا بلکہ بالادست قوتیں کرپشن ختم کرانا ہی نہیں چاہتی تھیں اس لیے وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔
عمران خان نے پارٹی رہنماؤں اور اپنے صدر مملکت کے کسی مشورے کو قبول نہیں کیا اور خود کو حاصل مکمل آزادی سے پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور کئی ماہ تک اتحادی حکومت ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے مگر حکومت تو ختم نہ ہوئی بلکہ حکومت نے عمران خان کو درجنوں مقدمات میں پھنسا دیا۔
لانگ مارچ کامیاب نہ ہوا تو تنگ آ کر خان زخمی ہونے کے باوجود نومبر میں جلسہ کرنے اسلام آباد گئے مگر لاکھوں لوگ راولپنڈی میں نہ دیکھ کر کروڑوں افراد کی آبادی کے صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو توڑنے کا اپنی مرضی کا اعلان کر بیٹھے جس پر عمل سے بچنے کی پرویز الٰہی نے بھرپور کوشش کی۔
خان کو بہت سمجھایا کہ اپنی دو حکومتیں ختم کرکے غیر محفوظ نہ ہوں مگر کسی کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور عمران خان نے اپنی دونوں حکومتیں ختم کرکے ہی دم لیا اور دونوں صوبوں میں وفاقی حکومت کے حامی دو نگران وزرائے اعلیٰ لے آئے جس کے بعد شیخ رشید اور فواد چوہدری کی وہ باتیں ضرور ختم ہوگئیں کہ شہباز شریف 27 کلو میٹر رقبے کے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہیں۔
چار ماہ سے زیادہ ہوگئے اور ٹانگ درست نہ ہوئی تو خان کے وکیلوں نے عدالتوں کو باور کرانا چاہا کہ خان 71 سال کے بزرگ اور جسمانی طور کمزور ہوگئے ہیں چلنا پھرنا دشوار ہے لہٰذا انھیں لاہور و اسلام آباد عدالتوں میں بلوانے کے بجائے زمان پارک سے ہی وڈیو کی جدید سہولت کے تحت بیانات دینے کی اجازت دے دی جائے۔
عمران خان کے حقیقی آزادی کے نعرے سے عوام کو تو کوئی آزادی نہیں ملی بلکہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی غلامی میں پھنستے چلے گئے اور انھوں نے خان کے کہنے پر سڑکوں پر آنا مناسب نہ سمجھا اور سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ پنجاب و کے پی میں الیکشن کرائے جائیں جس کے بعد خان نے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم 8 مارچ سے شروع کرنے کا اعلان کردیا اور نیا نعرہ دے دیا کہ'' نظام بدلو، حالات بدلو۔''
جیل بھرو تحریک میں ناکامی کے بعد خان کی قیادت میں جو ریلی زمان پارک سے داتا دربار تک نکلنی تھی وہ حکومت نے نکلنے نہیں دی جس کی وجہ سے حماد اظہر کا خان کا تاریخی استقبال کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا۔ حماد اظہر نے لاہور کے عوام کو جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے واسطے دے کر اپیل کی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے لیے خان کا ایسا استقبال کریں کہ جو کسی کا نہ ہوا ہو۔
عمران خان کی ریلی کے روٹ پر لگے 25 استقبالیہ کیمپ خان کا انتظار کرتے رہ گئے اور دفعہ 144 پر عمل کرانے اور توڑنے پر زمان پارک کے پاس پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کے باعث خان گھر سے باہر ہی نہیں نکلے اور کرپشن ختم کرنے کے دعوے داروں نے جب دیکھا کہ کرپشن کا خاتمہ، سب کے لیے یکساں انصاف کے بعد حقیقی آزادی کا نعرہ بھی فلاپ ہو گیا تو انتخابی مہم، نظام بدلو، حالات بدلو کے نئے نعرے سے پی ٹی آئی نے عوام کو باہر نکالنا تھا مگر ایک کارکن کی ہلاکت اور دونوں طرف کے درجنوں افراد زخمی ہوگئے مگر عوام جمہوریت، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے اس لیے باہر نہیں نکلے کہ ملک میں عدلیہ تو پہلے ہی آزاد ہے اور پی ٹی آئی کو فوری عدالتی ریلیف بھی مل رہا ہے اور قانون کے بجائے اپنی بالادستی عمران خان نے ثابت کردی ہے اور ملک میں جمہوریت تو پہلے ہی ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکار رہے ہیں۔
عدالتیں اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے منظوری کے فیصلوں کے خلاف ارکان قومی اسمبلی کو بحال کر رہی ہیں ہر طرف سے حالات عمران خان کے حق میں جا رہے ہیں اس لیے عوام کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
عمران خان کی حکومتی برطرفی کے بعد حکومت نے عمران خان پر توشہ خانہ و سنگین کرپشن پر عمران خان ان کی اہلیہ اور فرح گوگی بے شمار الزامات لگائے مگر عوام نے کرپشن کے الزامات پر دھیان ہی نہیں دیا کہ وہ کرپشن، چور ڈاکو کی عمران خان کی تکرار تو عشروں سے سنتے آ رہے ہیں اور بے زار ہوگئے ہیں۔
عوام نے ایک سروے کے مطابق عمران خان پر کرپشن کے حکومتی الزامات کو مسترد کرکے انھیں اب بھی سب سے مقبول لیڈر قرار دیا ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ اب عوام بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھ رہے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح کرپشن میں پیچھے نہیں رہی تھی اور ساری حکومتیں کرپشن کے سلسلے میں ایک جیسی ہی ثابت ہو چکی ہیں مگر ملک میں پھر بھی ہنگامہ ہے کیوں برپا کرپشن جو کرلی ہے۔
عوام ان تمام پارٹیوں کو آزما چکے جن پر کرپشن کے الزامات تھے اور اب پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان پر لگ رہے ہیں اور جس جماعت اسلامی پر کرپشن کے الزامات ہیں نہ اس کے رہنماؤں پر کرپشن کے مقدمات جس کے امیر بھی کہتے آ رہے ہیں کہ چہرے نہیں نظام بدلو تاکہ عوام کے حالات بدلیں انھیں عوام نے آزمایا نہ آزمائیں گے کیونکہ عمران خان سے مایوس ہو کر وہ بھی کرپشن کو برا نہیں سمجھ رہے۔